[رپورٹ: نوید اسحاق]
21 مئی کو مظفرآباد میں آل ورکرزایمپلائز یونین کے زیر اہتما م احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ یہ احتجاج 21 مئی کو کشمیر کے مختلف اضلاع میں منعقد کیا گیا تھا لیکن حکومت کے نوٹس نہ لینے پر ملازمین نے اجتماعی طورپر دارلحکومت کا رخ کیا۔ ریلی کا آغاز سیکٹریٹ سے 11 بجے ہوا۔ مظاہرین میں سینکڑوں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی شامل تھیں جنہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پلے کارڈز اور بینر اُٹھا رکھے تھے۔ ریلی مرکزی شاہراہ، پریس کلب، گڑھی پن سے ہوتے ہوئے دومیل پل پہنچی جہاں سے ملازمین نے قانون ساز اسمبلی کی طرف جانا تھا مگر یونین افسر شاہی اور پولیس کی سازباز کے بعد ریلی کو واپسی موڑ دیا گیا۔ ریلی میں شامل پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (JKNSF) کے کامریڈز نے بیروزگاری، نجکاری، مہنگائی، سامراج اور حکومت کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بازی کی۔ سیکٹریٹ واپسی پر ریلی جلسہ عام میں تبدیل ہوگئی۔ مظاہرین سے نیشنل ہیلتھ ورکرز سے محترمہ صفورہ، لیڈی ہیلتھ ورکرزسے محترمہ شازمین، ہیلتھ یونین باغ کے صدر راجہ امتیاز، PWD پلندری کے ضلعی صدر سردار آصف، خورشید اقبال، مرکزی صدر غیر جریدہ ملازمین صبور عباسی، ضلعی جنرل سیکٹری PWD ساجد مغل، مرکزی صدر JKNSF راشد شیخ، مرکزی صدر ہیلتھ ایمپلائز یونین طارق جاوید، مرکزی جنرل سیکٹریری ہیلتھ ایمپلائز یونین اعظم جاوید، سرپر ست اعلیٰ ہیلتھ ایمپلائز یونین سردار خالد، آل ورکرزایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مرکزی صدر افتخار شاہین نے خطاب کرتے ہوئے حکومت اور لینٹ افسران کے رویے کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ مقررین نے کہا کہ’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگانے والی پارٹی پر براجمان سیاستدان مزدوروں سے سانس لینے کا حق بھی چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔ ریاستی افسر شاہی اور حکمران اگر تنخواہیں وقت پر نہیں دی سکتے تو کرسی چھوڑ کر اپنے گھروں کو جائیں۔ اس موقع پر کامریڈز نے پندرہ روزہ ’’طبقاتی جدوجہد‘‘ فروخت کیا اور لیف لیٹ تقسیم کئے۔ محنت کشوں کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
)سروس سٹرکچر کی بحالی
)کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی
)ہیلتھ الاوئنس کی منظوری
)سروس رولز کی وضاحت اور ٹائم سکیل کے تحت پروموشن کا حق
)ہارڈ ایریا الاوئنس کی منظوری
) پنجاب کی طرز پر مراعات
)کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر
جلسہ کے بعد میٹنگ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا۔ محنت کشوں نے کہا کہ اگر مطالبات منظور نہیں ہوئے تو احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، تمام ہسپتالوں میں احتجاجی کیمپ لگائے جائیں گے اور ایمرجنسی کے علاوہ کوئی خدمات نہ دی جائیں گی۔