[تحریر: آصف لاشاری]
2008ء میں شروع ہونے والے سرمایہ دارانہ بحران کی قیمت پوری دنیا میں محنت کش طبقے اور عوام کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ سرمایہ داری کے معیشت دان ابھی تک اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں نکال سکے ہیں، شاید ایسا کوئی راستہ موجود ہی نہیں ہے۔ ترقی یافتہ یورپی ممالک میں تعلیم اور صحت کے بجٹ پر کٹوتیاں لگائی جارہی ہیں اور وہاں تعلیم طلبہ کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اس معاشی بربریت کے خلاف طلبہ تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں۔ چلی میں ابھرنے والی شاندار طلبہ تحریک پوری دنیا میں جاری نوجوانوں کی بغاوتوں میں سب سے نمایاں ہے۔
تیسری دنیا کے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی طرح پاکستان سرمایہ داری کے ناہموار اور مشترک طرز ارتقا کی زندہ مثال ہے۔ اس ریاست کی تخلیق کا مقصد ہی انگریز حکمرانوں کے جانے کے بعد سامراجی نظام کو مقامی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ذریعے برقرار رکھنا تھاتاکہ یہاں کے محنت کشوں کی محنت اور خطے کے وسائل کا استحصال جاری رکھا جا سکے۔ اس ملک کے حکمران طبقے نے سامراج کی دلالی کا کردار خوب نبھایا ہے۔ انگریز اشرافیہ نے اپنی براہ راست حکمرانی کے دو سو سالوں میں اس خطے کا اتنا استحصال نہیں کیا تھا جتنا اس نے نام نہاد آزادی کی چھ دہائیوں میں ہوا ہے۔
آج کے عہد میں محنت کش طبقے کے لئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا چلا جارہا ہے۔ محنت کشوں کی اکثریت اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی اور بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی کام پر لگادیاجاتا ہے۔ حکومت کے حالیہ سروے کے مطابق اس ملک کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی یومیہ دو ڈالر پر گزارہ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس ملک کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی اپنے بچوں کو تعلیم و علاج جیسی کوئی بھی بنیادی سہولت مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ یہ سروے حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا ہے، حقیقت میں اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ تلخ ہیں۔
پاکستان کا شمار تعلیم پر کم ترین حکومتی اخراجات کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے 2فیصد سے بھی کم ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی طرح سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بھی دگرگوں ہے، سہولیات نا پید ہیں اور انفراسٹرکچر انتہائی ناقص ہے۔ ریاست کی نا اہلی نے صحت اور تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنا دیا ہے۔ خاص کر تعلیم کا کاروبار ہر گلی محلے میں جاری ہے اور مجبور عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ حکمران طبقے کے افراد پرائیویٹ یونیورسٹیوں، کالجز اور اکیڈمیوں وغیرہ کے ذریعے سے اربوں روپے کما رہے ہیں۔ درمیانے طبقے کی ایک چھوٹی سی پرت جو ماضی میں اپنے بچوں کو مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں تعلیم دلانے کے قابل تھی اب اس مالی صلاحیت سے محروم ہو تی جارہی ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران سرکاری یونیورٹیوں کی فیسوں میں 100 فیصد سے زیاد ہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں سے لے کر ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اور بجلی کے بلوں میں اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ مہنگائی کا طوفان درمیانے طبقے کی قوت خرید کو محدود کرتا چلا جارہا ہے۔
اس سارے تناظر میں ایک طرف والدین ذہنی اذیت کا شکار ہیں تو دوسری طرف طالب علم مایوسی سے دوچارہیں۔ بھاری بھرکم فیسیں ادا کرکے ڈگریاں لینے کے باوجود بھی بیروزگاری کی تلوار مسلسل نوجوان نسل کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی دباؤ کی وجہ سے طلبہ کی خودکشی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ سرمایہ داری جہاں ایک طرف نام نہاد مقابلہ بازی کے ذریعے طالب علموں کو یہ سکھاتی ہے کہ دوسرے کو پچھاڑ کے آگے جانے والا ہی کامیاب ہوتا ہے تو دوسری طرف بیروزگاروں کی ایک فوج بھی کھڑی کردیتی ہے۔ ایسے میں بیگانگی سے دوچار نوجوان کوئی متبادل راستہ نہ ہونے کی وجہ سے یا تو جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں یا پھر منشیات میں غرق ہو کر اپنی زندگی برباد کر ڈالتے ہیں۔
اگر طلبہ سیاست کی بات کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نظریات نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ سیاست شدید گراوٹ کا شکار ہے، طلبہ تنظیمیں لمپن عناصر کا گڑھ بن چکی ہیں اور پروفیسرزمافیا انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ریاست اور حکمران طبقے نے دانستہ طور پر طلبہ سیاست کو اس طرح سے بدنام اور برباد کیا ہے کہ طلبہ سیاست سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوجوان نسل حالات و واقعات کو سمجھ اور پرکھ رہی ہے اور ان میں اس نظام اور حکمرانوں کے خلاف غصہ پنپ رہا ہے۔ یہ غصہ اور نفرت اگر آتش فشاں کی طرح پھٹتی ہے تو اسے درست نظریات سے لیس کر کے سمت فراہم کرنا مارکسسٹوں کا تاریخی فریضہ ہے جس کے لئے انہیں انقلابی سوشلزم کے نظریات کو طلبہ اور نوجوان نسل کی تمام پرتوں تک پہنچانا ہوگا۔ اس نظام کی ذلتوں سے نجات کے لئے آج کی نوجوان نسل کوتمام تر قومی، مذ ہبی، لسانی، فرقہ وارانہ تعصبات کو ایک طرف پھینکتے ہوئے خود کو طبقاتی لڑائی کے لئے منظم کرنا ہوگا تاکہ سماج پر مسلط ان مٹھی بھر لٹیروں کا قلع قمع کیا جاسکے جو صدیوں سے محنت کش عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
متعلقہ: