[تحریر: لال خان]
پاکستان کے لاکھوں شہری سعودی عرب، خلیجی ریاستوں، یورپ، امریکہ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں محنت مزدور کر کے اپنا اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں ان محنت کشوں کو بڑی بے رحمی سے ’’تارکین وطن‘‘ کانام دیا جاتا ہے۔ اس ’’وطن‘‘ کو چھوڑ کر دربدر ہونے والوں کی اکثریت شدید معاشی مجبوری کے تحت ہی ہجرت کرتی ہے۔ مزدور کا ویسے بھی کوئی وطن نہیں ہوتا۔ محنت بیچنے والوں کو جہاں روزی روٹی میسر آئے اسی جگہ کو وطن بنانا پڑتا ہے۔
بیرون ملک مزدوری کرنے والوں کی ترسیل کی گئی رقوم پاکستان کے لئے زر مبادلہ کے زخائر کا اہم اور قابل اعتماد ذریعہ ہیں۔ اس رقم کا حجم برآمدات کے تقریباً برابر ہے۔ یہ ’ہارڈ کرنسی‘ ملک کی اس معیشت کو سرگرم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جس پر براجمان حکمران گزشتہ چھ دہائیوں سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کی ہوس کے ساتھ انکی تجوریوں کا حجم بھی بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اگرچہ اس مالیاتی ترسیل سے پردیس میں کام کرنے والے محنت کشوں کے خاندان کسی حد تک آسودہ ہوجاتے ہیں لیکن مقابلہ بازی اور دکھاوے کے اس بیمار سماج میں یہ ’’آسودگی‘‘ مانگ اور اخراجات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ بڑھتی ہوئی امیدیں رشتوں کی تلخی میں بھی اضافہ کر دیتی ہیں۔
اپنی پیدائش اور پرورش کی سرزمین کی خیر آباد کہنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اپنوں سے دوری، سماجی بیگانگی اور نفسیاتی دباؤ کے علاوہ بھی ’’تارکین وطن‘‘ کی زندگیاں کئی طرح کے عذابوں سے دوچار ہوتی ہیں۔ اپنے خاندانوں کی کفالت زیادہ بہتر انداز میں کرنے کے لئے پردیس میں کام کرنے والوں کو اپنی قوت محنت، مقامی محنت کشوں سے بھی کم اجرت کے عوض بیچنی پڑتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان پردیسیوں کو انتہائی کم تر معیار زندگی اپنانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران اور زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ ان حالات میں یورپ اور امریکہ میں بھی روزگار ڈھونڈنا اور ’’بچت‘‘ کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ مغرب کی طرح خلیجی ممالک کی معیشتیں بھی 2008ء کے بعد سے بحران کا شکار ہیں۔ عرب ممالک میں غیر ملکی محنت کشوں کو انتہائی بے دردی سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ بچ جانے والوں کا استحصال کئی گنا بڑھ چکا ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں ’’باہر‘‘ جانے کا جنون اور سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
صنعتی و معاشی طور پر غیر ترقی یافتہ ممالک کے نوجوان غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر ہی بیرون ملک قسمت آزمائی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال بیس لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں لیکن معیشت میں اتنی گنجائش بھی نہیں ہے کہ اس تعداد کے ایک فیصد کو باعزت روزگار فراہم کیا جاسکے۔ بیرون ملک جانے کے چکر میں والدین کی زندگی بھر کی جمع پونجی اور جائیداد بھی داؤ پر لگا دی جاتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بیرون ملک بھیجنے والے ’’ایجنٹ‘‘ ہر گلی محلے میں کھمبیوں کی طرح برآمد ہوئے ہیں۔ یہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا پرفریب اور ظالمانہ بھی ہے۔ خاندانوں کے خاندان ان ایجنٹوں کے ہاتھوں اجڑ چکے ہیں۔ اتنا فراڈ اور لوٹ مار شاید ہی کسی اور کاروبار میں ہو۔
یورپی ممالک، خصوصاً برطانیہ میں 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں آباد ہونے والے محنت کشوں کی دو سے تین نسلیں جوان ہوچکی ہیں۔ سرمایہ داری کے ’بوم‘ کے عہد میں محنت کش طبقے کی سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں کی حکومتیں بہت سی مراعات اور سہولیات دیا کرتی تھیں۔ لیکن آج غیر ملکی محنت کشوں کو نہ صرف دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے بلکہ ان کو نسل پرستوں کی یلغار کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نظام سماجی طور پر اس قدر بیمار ہے کہ کئی دہائیوں بعد بھی غیر ملکی محنت کشوں اور ان کے بچوں کومغربی معاشرے کا مکمل اور ہم آہنگ حصہ نہیں بنا پایا۔ یہ ثقافتی بیگانگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔
2008 ء کے بعد سے یورپ اور امریکہ میں پھیلنے والی وسیع بیروزگاری کے بعد لسانی اور نسلی خلیج میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مغربی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں کا رجعتی اور بنیاد پرست دھڑا سرمایہ داری کے داخلی تضادات پر سے توجہ ہٹانے کے لئے بیروزگاری کا مورد الزام پردیسیوں کو ٹھہراتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ٹریڈ یونین اشرافیہ کے کچھ حصے بھی نسل پرستی کے اس زہریلے پراپیگنڈے کا حصہ بن چکے ہیں۔ نسل پرستی کے اس دباؤ کے تحت غیر ملکی طلبہ اور محنت کش اپنی ’’کمیونٹی‘‘ میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے آبادی کا یہ حصہ ایک مخصوس سماجی و ثقافتی دائرے میں محدود ہو کر بیگانے سماج سے مزید بیگانہ ہوجاتا ہے۔ تنگ نظری اور رجعت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور مذہبی بنیاد پرستوں کو اپنا کاروبار چمکانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ بیگانگی کی تکلیف اور معاشی دباؤ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں تو غیر ملکی نوجوان جرائم کا راستہ اپناتے ہیں جسے جواز بنا کے پوری ’قومیت‘پر ہی ’جرائم پیشہ‘ کا لیبل لگ دیا جاتا ہے۔
اس صورتحال کا فائدہ دونوں اطراف کے بنیاد پرست اور رجعتی عناصر اٹھاتے ہیں۔ گوری نسل پرستی سے پیدا ہونے والی اکتاہٹ اور پراگندگی کو اسلامی بنیاد پرست، مذہبی ٹھیکیدار اور ’’پیر‘‘ حضرات اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے لئے خوب استعمال کرتے ہیں۔ ’’خیرات‘‘ اور ’’صدقات‘‘ کے ذریعے فرقہ وارانہ مساجد کھڑی کی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے مذہبی جنون، وحشت اور دہشت گردی تنظیموں کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہ تنظیمیں ’’برادر ممالک‘‘ سے آنے والی ’’امداد‘‘، ’’عطیات‘‘ اور جرائم کے کالے دھن کے ذریعے معاشی طور پر خاصی مضبوط ہوچکی ہیں۔ اس پیسے کو مغرب، خصوصاً یورپ میں اپنی شاخیں اور کارکن بنانے کے لئے انویسٹ کیا جاتا ہے اور پھر یہیں سے ’’چندہ‘‘ اور جہاد فنڈ اکٹھا کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
سوویت یونین کے انہدام سے پیشتر مغربی ممالک کے حکمران اس عمل کی مکمل حمایت اور پشت پناہی کرتے تھے۔ ان تنظیموں کو یورپ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بائیں بازو اور مزدور تحریک کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا اور بوقت ضرورت ’’کفر‘‘ کے فتوے بھی لگوائے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ 2001ء تک کسی نہ کسی سطح پر جاری رہا۔ 11 ستمبر کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث 19 خود کش پائلٹ انہی بنیاد پرست تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے یہ دہشت گرد نیٹ ورک سامراجیوں کے لئے بھی وبال جان بن چکے ہیں۔ رسی تو جل گئی ہے لیکن بل بہرحال باقی ہیں۔ آج یورپی ممالک میں سرگرم بنیاد پرست تنظیموں سے وابستہ نوجوان بڑی تعداد میں ’’جہاد‘‘ کے لئے شام اور عراق جارہے ہیں یا ’بھیجے‘جارہے ہیں۔ لندن میٹروپولیٹن پولیس کی کمشنر اور سپیشل آپریشنز کی سربراہ کریسیڈا ڑک نے پچھلے ہفتے بیان دیا ہے کہ ’’مجھے بہت ڈر ہے کہ ہم شام میں مداخلت کے نتائج بھگتیں گے۔ ‘‘
ٓاسلامی بنیاد پرستی سے اپنے عوام کی ’’حفاظت‘‘ کے نام پر دنیا بھر میں جنگیں کرنے والا سامراج اپنے اسٹریٹجک اور مالی مفادات کے لئے آج بھی مذہبی جنون کو استعمال کر رہا ہے۔ شام میں ان کی منافقت اور دوہرے معیار کھل کر سامنے آئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب لڑکھڑاتے قدم، عدم اعتماد اور متضاد پالیسیاں سامراج کے اپنے نظام کے سیاسی، سفارتی اور معاشی دیوالیہ پن کو عیاں کرتے ہیں۔ سامراجی ریاستیں مذہبی جنونیوں کی دہشت اور وحشت کو پراکسی جنگوں کے ساتھ ساتھ اپنے ممالک کے محنت کش عوام کی یکجہتی میں نسل، قوم اور مذہب کی دراڑیں ڈالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یورپی عوام معاشی کٹوتیوں اور بے روزگاری سے نڈھال ہیں، فلاحی ریاست ختم کی جارہی ہے، غربت بڑھ رہی ہے لیکن کارپوریٹ میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ مساجد کے مینار ہیں!
یورپی یونین کے حالیہ انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کے ابھار کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ کسی اور سیارے پر بسنے والے بعض دانشورحضرات تو ’’فاشزم‘‘ کا تناظر بھی دے رہے ہیں۔ یہ سراسر مبالغہ آرائی ہے۔ مزدور تحریک پر انقلابی سوشلزم کے نظریات کی چھاپ وقتی طور پر ماند ضرور پڑی ہے، ختم نہیں ہوئی۔ محنت کش طبقہ ابھی مرا نہیں ہے۔ یہ 1930ء کا یورپ نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کا حجم دیوہیکل ہے، چھوٹے کسان نا پیدا ہیں اور ماسوائے چھوٹی سی اقلیت کے، طلبہ کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف ہے۔ حکمران طبقہ کھل کر فسطائیت کو حاوی کرنے کی پوزیشن میں ہے نہ ہی طبقاتی توازن’’فاشزم‘‘ کے لئے موزوں ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ سماجوں سے لے کر امریکہ اور یورپ تک مذہبی بنیادپرستی اور نسلی تعصب جیسے رجعتی رجحانات کا ابھار محنت کش عوام کے عدم تحرک یا سرگرم مزدور تحریک کو انقلابی منزل سے ہمکنار کرنے والی قیادت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ دنیا بھر میں حکمرانوں کے مسلط کردہ تعصبات اور معاشی حملے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہے ہیں۔ عوام کو تقسیم در تقسیم رکھنا دولت اور ذرائع پیداوار پر مسلط اقلیتی طبقے کی ضرورت اور مجبوری ہے۔ محنت کش طبقے کو اس کی اپنی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت کی اصلاح پسندانہ سوچ اور موقع پرستی نے مفلوج کر رکھا ہے۔ لیکن نسل در نسل استحصال سہنے والوں کو صدا ماضی کی زنجیروں میں قید نہیں رکھا جاسکتا۔ اس نظام کی سیاست اور معیشت کی طرح اس کی نفسیاتی زنجیریں بھی زنگ آلود ہوچکی ہیں۔ مارکس کا یہ پیغام آج بھی انسانیت کو نجات کی راہ دکھا رہا ہے کہ ’’تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہاں پڑا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ!‘‘
متعلقہ:
متحدہ عرب امارات: سرمائے کی جنت، محنت کشوں کے لئے جہنم
سعودی عرب؛ غیر ملکی محنت کشوں کے لئے بیگار کیمپ