لاہور: واسا کی نجکاری، 1500 ملازمین جبری برطرف، بلوں میں 3 گنا اضافہ

[رپورٹ: PTUDC لاہور]
عوام دشمن حکومت شہریوں سے بنیادی سہولتیں تیزی سے چھین رہی ہے۔ اب پانی اور سیوریج کا خستہ حال نظام بھی نجی کمپنیوں کو دے کر سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے اور عوام کی بدحالی میں مزید گرواٹ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ لاہور میں پانی اور سیوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے اور تھوڑی سی بارش تمام تر ترقی کے جھوٹے دعووں کا پول کھول دیتی ہے۔ امیر افراد کے رہائشی علاقوں میں تو صاف ستھری سڑکیں موجود ہیں لیکن محنت کشوں کے علاقے گندے پانی کے جوہڑ اور تالاب بن چکے ہیں۔ اس تمام تر خرابی کی ذمہ دار حکومت اور واسا کی مینجمنٹ ہے جبکہ بکاؤ میڈ یا اور نام نہاد دانشور واسا کے ملازمین کو مورد الزام ٹھہرا کر نجکاری جیسی عوام دشمن پالیسی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
چند دن پہلے1500 ورک چارج ملازمین کو جبری برطرف کیا گیا اور انہیں اگست کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔ ان میں سے بہت سے ملازمین دس سال سے محکمے میں کام کر رہے تھے۔ ان ملازمین کے ساتھ 89 دن کا کنٹریکٹ کیا جاتا ہے تا کہ ان کی محنت کا استحصال کیا جائے اور مستقل ملازمین کی سہولتیں دئیے بغیر انہیں بیروزگاری سے خوفزدہ رکھا جائے اور ان پر کام کا بوجھ ڈالا جاتا رہے۔ ابھی بھی بہت سے ملازمین ایسے ہیں جو ورک چارج پر کام کر رہے ہیں اور انہیں مستقل نہیں کیا جا رہا بلکہ انہیں اب نجی کمپنیوں کے آنے کے بعد ملازمت سے ہی نکالا جا رہا ہے۔ لاہور میں واسا کی 26 سب ڈویژنیں ہیں اور 700 کے قریب پمپ ہیں جنہیں واسا کے ملازمین انتہائی مشکل حالات میں چالو رکھتے ہیں۔ اب ان پمپوں کو بتدریج نجی کمپنیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ کمپنی پمپ آپریٹر کو 5 سے 6 ہزار روپے ماہانہ دیتی ہے جبکہ اس سے 12 گھنٹے کام لیا جا تا ہے، جبکہ کمپنی حکومت سے دس ہزار روپے سے زائدوصول کرتی ہے۔ حکومت نے خود ہی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے مقرر کی ہے اور خود ہی اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں جبکہ سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چوبچہ سٹاپ، جمیل آباد اور دیگر بہت سے پمپوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں بھی مینجمنٹ میں موجود افراد کی ملکیت ہیں اور وہی ایسی پالیسیاں بنا رہے ہیں جن سے عوام کو نقصان اور سرمایہ داروں کو فائدہ ہو۔ بہت سے نئے ٹیوب ویل لگانے کے ٹھیکے بھی پرائیویٹ کمپنیوں کو دئیے جا رہے ہیں۔
وہ پمپ آپریٹر جو سرکاری ملازم ہیں ان کے لیے حالات مشکل بنائے جا رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کی صور ت میں پمپ کو چلانے کے لیے جو ڈیزل لایا جاتا ہے افسران اس میں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن کرتے ہیں لیکن آپریٹروں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ پمپ کو چالو رکھیں۔ ان کو کسی قسم کی Casual چھٹی کی اجازت نہیں اور معمولی غفلت پر بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ادارے کی اپنی لیبارٹری کے ٹیسٹ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ لاہور میں سپلائی کیا جانے والا پانی انتہائی غلیظ اور ناقابل استعمال ہے لیکن اس کے باوجود وبھی غلیظ پانی پورے شہر کو سپلائی کیا جا رہاہے جس سے ہیپاٹائٹس سمیت بہت سی جان لیوا بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس سے منرل واٹر بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہورہی ہے۔ اصول کے مطابق واسا کو ہر روز شہر کو سپلائی کئے جانے والے پانی میں کلورین ڈالنی چاہئے لیکن کرپشن کے باعث مہینے میں ایک یا دو دفعہ بمشکل ڈالی جاتی ہے اور سارا پیسہ مینجمنٹ ہڑپ کر جاتی ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں کو نوازنے کے لیے ادارے کے خسارے کا شور مچایا جا رہا ہے لیکن چند ماہ پہلے افسران کے لیے 50 لاکھ کی پانچ گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ دوسری طرف ملازمین کی 3 ماہ تک کی تنخواہ روک لی جاتی ہے اور خسارے کا رونا رویا جاتا ہے۔ بہت سے افسران میڈیکل کی سہولت کے نام پر بھی بڑے پیمانے پر کرپشن کرتے ہیں اور جعلی بل بنوا کر عوام کے پیسے کو لوٹ رہے ہیں۔
پنجاب کے عوام دشمن حکمران ایک لمبے عرصے سے لاہور میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور عوام کو اس شکنجے میں پیس رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گماشتوں کو نوازنے کے لیے واسا میں جعلی بھرتیاں بھی بڑے پیمانے پر کر رکھی ہیں۔ یہ لوگ ڈیوٹی پر نہیں آتے لیکن ہر مہینے تنخواہ باقاعدگی سے لیتے ہیں۔ ان تنخواہوں کا ایک حصہ مقامی ایم پی اے یا ایم این اے کو بھی جاتا ہے۔ ایسے میں کام کا اضافی بوجھ بھی ان ملازمین پر آ جاتا ہے جو اپنی ڈیوٹی باقاعدگی سے سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جلسے جلوسوں یا انتخابی مہم میں بھی واسا کے ملازمین عیاش حکمرانوں کے رستے کی صفائی اور اور خوبصورتی پر مامور ہوتے ہیں اور حکمران پارٹی کے جھنڈے اٹھا کر نعرے لگانے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔
حکمران ہمیشہ نجکاری کو عوام کے فائدے کا معجون بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پرائیویٹ کمپنیوں کے آنے سے سیوریج اور پانی کا نظام بہتر ہو جائے گا جو سراسر جھوٹ اور مکاری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ کمپنی نے لاہور کے سیوریج اور پانی کے پائپ تبدیل کرنے کا ٹھیکہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کمپنیوں کی نظر بلوں کی وصولی پر ہے جس سے بغیر کوئی سرمایہ کاری کئے بڑی دولت اکٹھی کی جا سکتی ہے۔ بل چھاپنے کا کام بھی نجی کمپنی کو دینے کے بعد اس کے اخراجات میں 70 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح لاہور میں پانی اور سیوریج کے بلوں میں 3 گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ ایک نیا بم عوام پر گرایا گیا ہے۔ یعنی گندے اور غلیظ پانی اور ابلتے ہوئے گٹروں کے لیے پہلے سے تین گنا زیادہ بل وصول کیا جائے گا۔ یہ اضافی رقم نہ ہی سیوریج کا نظام درست کرنے پر لگے گی اور نہ ہی صاف پانی میسر آئے گا بلکہ مستقل عملہ کم کیا جائے گا، ٹھیکے پر بھرتیاں کی جائیں گی جس سے سیوریج کا نظام مزید ابتر ہو گا اور پانی کی سپلائی بھی شدید متاثر ہو گی۔ لیکن حکمرانوں کی اپنی اولادوں اور چہیتے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے یہ خبر کبھی منظر عام پر نہیں آنے دی جاتی کہ ان کمپنیوں کے مالکان کون ہیں، خواہ وہ ترکی کی ہی کمپنیاں ہوں لیکن ان کے شیئر ہولڈرز اور کمیشن ایجنٹوں میں پاکستان کے نامور سیاستدان اور وزرا بھی شامل ہیں۔
ان مظالم کے خلاف واسا کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ انہیں انتقامی کاروائیوں سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) نے واسا ملازمین کو مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے اور ان کے ہر احتجاج میں بھرپور شرکت کر نے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر نجکاری کی عوام دشمن پالیسی کے خلاف تحریک منظم کی جائے گی تاکہ نہ صرف نجکاری کا خاتمہ کیا جائے بلکہ عوام کا خون چوسنے والے حکمرانوں سے بھی مکمل نجات حاصل کی جائے۔