PIA کے پچاس فیصد محنت کشوں کو نکالنے کی تیاری
[تحریر : چنگیز ملک]
جمہوریت کا تسلسل پاکستان کے غریب عوام اور محنت کش طبقے کی زندگیوں کا عدم تسلسل بن کر نمودار ہو رہا ہے۔ نواز لیگ حکومت نے اپنی سابقہ روایات برقرار رکھتے ہوئے محنت کشوں پر اپنے حملے تیز تر کر دیئے ہیں۔ انتہائی مکاری اور چالاکی سے اپنے سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنے چہیتے سرمایہ داروں کو نوازنے کی خاطر قومی اداروں کی لوٹ سیل جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کے بیہودہ پروپیگنڈا یہ ہے کے حکومت معیشت کی بہتری کی خاطرنجکاری کر رہی ہے لیکن دراصل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لیے گئے 12.6 ارب ڈالر کے قرض کی کڑی شرائط میں سے اولین قومی اداروں کی نجکاری ہے۔ اس عمل کے آغاز میں پہلا شکار PIA ہے جسکے لیے مالیاتی مشیران کی تقرری کا آغاز 22 جولائی سے ہو گیا ہے۔ وزیر نجکاری محمد زبیر نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ PIA میں پچاس فیصد ملازمین اضافی ہیں، جن کو ہر صورت فارغ کیا جائے گا۔ جو کام چور، نااہل اور ادارے پر بوجھ ہیں جسکی وجہ سےPIA کو سالانہ 70 کروڑ کا خسارہ ہو رہا ہے، کمپنی کے 26 یا51 فیصدشیئرز نجی کمپنی کو دے کر ادارے کی تمام مینجمنٹ بھی نجی کمپنی کو دی جائے گی۔ محمد زبیر کا کہنا تھا کے موجودہ حکومت قومی مفاد میں سخت معاشی فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حکومت ہر حال میں نجکاری کرے گی۔ ماضی میں ہونے والی نجکاری نے عوام پر واضح کر دیا تھا کہ نجکاری میں مفاد کس کا ہوتا ہے، سرمایہ دارو ں کا یا محنت کش عوام کا!
PIA کے زوال کے اسباب
اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والا یہ ادارہ جو دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار ہوتا تھا جس نے دنیا کی بیس ائیر لائنز کو اسٹیبلش کیا، کم ترین کرائے اور اعلی معیار کی سروس مہیا کرنے والاقومی ادارہ آج زوال پذیر ہو کر خسارے میں جا چکا ہے۔ آج اس کے زوال کے حقیقی اسباب پر پردہ ڈال کر تمام تر ذمہ داری محنت کشوں پر ڈال دی گئی ہے۔ پی آئی اے کے زوال کی داستان تو کافی پرانی ہے نواز لیگ کی پچھلی حکومت کے دوران PIA کے دس طیارے گراؤنڈ کیے گئے تھے اسی عرصے میں اپنے ایک چہیتے وزیر کو نجی ائیر لائن (ائیر بلو) کا لائسنس جاری کیا گیا تھا، سیف ائیر لائن بنانے کا منصوبہ بھی اسی دوران بنا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے منافع بخش روٹ نجی ائیر لائنز کو دیئے، ہر حکومت نے PIA کو لوٹنے کے لیے اپنے من پسند بیوروکریٹس کو ادارے میں بھرتی کیا۔ آج پی آئی اے میں 18 ڈائریکٹر اور 122 جی ایم موجود ہیں جو طفیلیوں کی ایسی پرت ہے جو ادارے پر بوجھ ہے جنکا کام اے سی والے دفتروں میں بیٹھنے اور سیر سپارٹے کرنے کے علاوہ کچھ نہیں لیکن موٹی تنخواہ ضرور وصول کرتے ہیں۔ اس بار تو حکومت نے آتے ہی سول ایوی ایشن کی منسٹری بناکر اپنے ایک دوست شجاع عظیم کوسونپ دی جو کہ رائل ائیر پورٹ سروسزکا مالک اور سینیٹرطارق عظیم کا بھائی ہے۔ اور شجاع عظیم کی سفارش پر اس کے دو دوستوں کو بھی بورڈ آف ڈائریکٹر میں شامل کیا گیا۔ جو PIA کی لوٹ سیل میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ آج PIA کے پاس 24 طیارے ورکنگ کنڈیشن میں موجود ہیں اور تقریبا اتنے ہی طیارے خراب پڑے ہیں جنکو مزدوروں کے مطابق انتہائی کم لاگت سے ریپئر کیا جاسکتا ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے حکومت مٹیریل ہی نہیں مہیاکر رہی اور اس پہ طرہ یہ کہ عالمی مارکیٹ سے کمیشن کے لیے ایسے جہاز خریدے جا رہے جنکا سیٹ اپ پی آئی اے کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالانکہ عالمی مارکیٹ میں ایسے جہاز مناسب ریٹس پر دستیاب ہیں جو ہمارے سیٹ اپ کے مطابق ہیں۔ لیکن وہاں کمیشن شاید کم ملتا ہوگا۔ حال ہی میں ایک طیارہ A-320 لیا گیا ہے جو دس سال پرانا ہے اور اب تک دو دفعہ ریپئر ہو چکا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے حکومت اور انتظامیہ PIA کو چلانے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ اپنے نجی کاروبار کو ترقی دینے اور موٹے کمیشن کے حصول کی خاطر پی آئی اے کو اس حالت تک پہنچایا گیا ہے۔ PIA کے زوال کی ذمہ داربیوروکریسی اور سرمایہ دار اشرافیہ ہے جن کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ نے ادارے کی یہ حالت کر دی جسکو جواز بنا کر آج PIA کو بیچا جارہا ہے۔
محنت کشوں کی حالت زار
PIA کے خسارے کی تمام تر ذمہ داری محنت کشوں کی اضافی تعداد پر ڈالی جارہی ہے۔ جناب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کے پی آئی اے ایک قومی ادارہ ہے جسکا مقصد عوام کو سستی سفری سہولت مہیا کرناہے۔ PIA کے پاس آپریشنز، انجینئرنگ، سروسز، ٹرانسپورٹ، کچن، کیٹرنگ، مارکیٹنگ، سٹورز، ہوٹلز، ریپئراور مینٹیننس، تمام شعبہ جات اپنے ہیں جبکہ پرائیویٹ ائیر لائنز یہ تمام کام ٹھیکے پر کرواتی ہیں۔ PIA میں تقریبا چوبیس ہزار ملازمین ہیں جن میں چھ ہزار ڈیلی ویجز ملازمین بھی شامل ہیں جنکی حالت زار بہت دگرگوں ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مزدور ادارے پر بوجھ ہیں تمام ائیر لائنز اپنی آمدن کا تیس فیصد ایمپلائز پر خرچ کرتی ہیں جبکہ PIA تمام تر سہولیات اور تنخواہیں ملا کراپنی آمدن کاصرف اٹھارہ فیصد ایمپلائز کو دیتی ہے، اگر اتنا مزدور اور بھی بھرتی کر لیا جائے تب بھی نقصان نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی تمام ائیر لائنز سے سستا مزدور پی آئی اے کے پاس ہے جن سے دن رات کام لیا جاتا ہے اور معاوضہ انتہائی کم دیا جاتا ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ PIA کا خرچ صرف فیول اور سول ایوی ایشن کے ٹیکس کی صورت میں ہوتا ہے باقی تمام کام پی آئی اے کے محنت کش خود کرتے ہیں پھر نقصان کیوں ہوتا ہے؟مزدوروں کا کہنا ہے کہ اگر پی آئی اے کے پاس جہاز ہوں، تمام سیکشنزکو ٹولز اینڈ ایکوپمنٹ دیئے جائیں، سپیئر پارٹس مہیا کیے جائیں، اپنے انجنئیرزاور پارٹس سیٹ اپ کے مطابق طیارے لیے جائیں، جہازوں کی خریداری میں کمیشن نہ کھائے جائیں، ادارے سے بیورو کریسی کو بے دخل کیا جائے تو پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے ایک منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ادارے کے ایمپلائز کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، PIA-1 اورPIA-2۔ پائلٹس، فلائیٹس سروسزاور فلائیٹ آپریشنز کو PIA-1 جبکہ انجنئیرنگ، موٹر ٹرانسپورٹ، ٹریفک، کچن، کیٹرنگ اور ہوٹلز کو PIA-2 میں رکھا گیا ہےPIA-2 کو دسمبر تک مکمل طور پر ختم کرنے کا پروگرام ہے جبکہ PIA-1 کو ایک پرائیویٹ ائیر لائن کے طور پر چلایا جائے گا۔
یونینز کا کردار
موجودہ دور کا ایک عمومی مسئلہ قیادت کا فقدان ہے۔ ٹریڈ یونین رہنما ماضی میں جی رہے ہیں انہیں ابھی تک موجودہ بحران کی نوعیت سمجھ نہیں آرہی وہ شاید ماضی کے اچھے دنوں کے لوٹنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سرمایہ داری سے رشتہ توڑنے کے بجائے بورژوازی کے دم چھلے کا کردار ادا کر رہے ہیں، معیار زندگی میں بہتری کی جدوجہد کرنا تو دور کی بات وہ ماضی کی حاصلات کے دفاع کے لیے لڑنے کی منصوبہ بندی کرنے سے بھی مکمل طور پر قاصر نظر آتے ہیں۔ ٹریڈیونینز کی مصلحت پسند پالیسیوں اور مزدور تحریک کی زوال پذیری نے حالات کی سنگینی کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔ بحران کی شدت اور سنجیدہ متبادل کی عدم موجودگی میں محنت کش طبقہ باہمی مخاصمت اور مختلف تعصبات کا شکارہو رہا ہے۔ اس کیفیت کو حکمران طبقہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
پی آئی اے کا محنت کش تقریبا پانچ مختلف ایسوسی ایشن اور یونینز میں منقسم ہے، جن میں پالپا (PALPA) پائلٹس، SEAP انجنیئرز، ATAP آپریشنز، SSA سنیئر سٹاف اور CBA شامل ہیں۔ سی بی اے کو چھوڑ کر باقی ایسوسی ایشنز کا کوئی خاص رول کبھی بھی نہیں رہا۔ PIA کے مزدوروں کی نمائندہ یونین کی نظریاتی زوال پذیری اور واضح پروگرام کی عدم موجودگی کی وجہ سے محنت کشوں کے اندر بیزاری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ جسکا اظہار مئی 2014ء کے ریفرنڈم میں ایئر لیگ کی فتح کی صورت میں ہوا۔ باقی تمام ایسوسی ایشن بھی نون لیگ کی حمایتی ہیں جو اس وقت اقتدار میں ہیں۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کے نواز لیگ ان یونینز کو پی آئی اے کی نجکاری میں ایک مہرے کے طور پر استعمال کرے گی۔
ائیر لیگ نے ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد محنت کشوں پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔ اکثر مزدوروں کو جبری طور پر مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ٹرانسفر کیا جا رہا ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کے سی بی اے مزدوروں پر منیجمنٹ کی طرح مسلط ہو چکی ہے جو انتظامیہ سے زیادہ سخت طور مزدوروں کے خلاف کام کر رہی ہے۔ 2014ء میں پیپلز یونٹی کی جانب سے پچھلی حکومت سے 22 فیصد تنخواہ میں اضافے کا ایک MOU سائن کروایا گیا تھا جس پر ایئر لیگ نے ریفرینڈم پراسیس میں خلل اندازی اور دھاندلی کے نام stay لیا تھا جو اب تک واپس نہیں لیا گیا، 2013ء میں پیش کیے گئے چارٹر آف ڈیمانڈ کے حوالے سے بھی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انجنیئرنگ کے شعبے سے وابستہ ملازمین کی ترقی کے لیے لیے جانے والے امتحان کی فیس 500 کر دی گئی جو پہلے فری ہوتا تھا۔ پانچ سو کلو میٹر سے زائد سفر جو پہلے ایمپلائز کے لیے فری تھا اب اس پر 5040 روپے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ یعنی اب خالی سیٹ پر سفر کرنے کے بھی پیسے وصول کیے جائیں گے۔ ائیرلیگ کی تمام تر پالیسیاں نجکاری کے ایجنڈے کو عملی جامعہ پہنانے اور مزدوروں کو دبانے کی ہیں۔ اور اپنے ہی ادارے کے محنت کشوں کے معاشی قتل عام کرنے میں پیش پیش ہے۔
PIA کے محنت کش اس ساری صورت حال کو بہت غور سے دیکھ بھی رہے ہیں اور سیکھ بھی رہے ہیں۔ 2011ء کی شاندار تحریک کی یادیں ابھی تک تازہ ہیں، ایک لاوہ محنت کشوں کے ذہن میں پک رہا ہے جو آنے والے دنوں میں ایک تحریک کی صورت میں پھٹ کر حکمرانوں کو حیران کر سکتا ہے۔ لیکن ایک لڑاکا قیادت کی غیر موجودگی میں تمام تر ذمہ داری محنت کشوں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر صورت حال کو دیکھا جائے تو PIA کے محنت کشوں کے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہیں اس نجکاری کو روکنے اور ادارے کو بچانے کے لیے ملک گیر سطح پر محنت کشوں کو منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے۔
پیپلز یونٹی جو PIA کے محنت کشوں کی روایت بھی ہے اپنی ماضی قریب کی شاندار تحریک کی وجہ سے محنت کشوں میں خاصی پذیرائی رکھتی ہے۔ پیپلز یونٹی اس وقت میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن ابھی تک قیادت کی طرف سے PIA کی نجکاری روکنے کے حوالے سے کوئی جامعہ منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ وہ شاید ائیر لیگ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ نجکاری کے خلاف تحریک چلائے گی۔ ان پر یہ واضح ہونا چائیے کہ ائیر لیگ نجکاری کی حمایت کر رہی ہے۔ ا یسی صورت حال میں محنت کشوں کو چائیے کے وہ اپنی قیادت پر زور دیں کہ فوراً کوئی لائحہ عمل تیار کر کے ایک بھرپور تحریک کا آغاز کیا جائے۔ اگر PIA کی نجکاری آسانی سے ہو گئی تو یہ حکومت کسی قومی ادارے کو نہیں چھوڑے گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پرتمام اداروں کے محنت کش پورے پاکستان میں نجکاری کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کریں، اب یہ لڑائی محض ایک ادارے کی لڑائی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے محنت کشوں کی لڑائی ہے۔ ہمیں اس لڑائی میں فتح مند ہونا ہے اس سرمائے کی غلامی سے نجات کے لیے، اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے، ایک سرخ سویرے کے لیے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے!
متعلقہ:
قانونی لوٹ مار
طبقہ پروری
لاہور: پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے زیر اہتمام نجکاری مخالف ریلی