[تحریر: لال خان]
8 نومبر کو جارحانہ سرمایہ داری کا نظریہ رکھنے والی یہ حکومت آخر کار آئیل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (OGDCL) کی نجکاری معطل کرنے پر مجبور ہو ہی گئی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیلامی پر لگائے گئے ادارے کے شیئرز میں سے نصف سے بھی کم پر بولی لگی۔ وزارت خزانہ نے ان شیئرز کے جو دام لگائے تھے وہ ادا کرنے کے لئے کوئی مقامی یا بیرونی سرمایہ کار تیار ہی نہیں تھا۔ موجودہ حکومت کے وسیع نجکاری کے عزائم پر لگنے والی یہ پہلی ضرب ہے۔
پہلے پہل OGDCL کے دس فیصد شیئرز فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں منڈی کی صورتحال دیکھتے ہوئے 7.5 فیصد شیئر بیچنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فروخت کے لئے رکھے گئے شیئرز کی قیمت بھی 830 ملین ڈالر سے کم کر کے 696 ملین ڈالر کر دی گئی لیکن تین دن کی نیلامی میں کوئی سنجیدہ خریدار نہ مل پایا اور کل ملا کے 342 ملین ڈالر کی پیشکش ہی ہوئی۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر جس زوال کا شکار ہے اس کی وجہ سے سرمایہ کاری مسلسل کم ہورہی ہے۔ حکمرانوں نے 62 اداروں کی نجکاری سے 4.5ارب ڈالر کمانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن پہلا سودا ہی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
نجکاری کا یہ حملہ پسپا ہوجانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے دنیا بھر میں منڈی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری بھی سکڑتی جارہی ہے۔ یہ کیفیت غمازی کرتی ہے کہ سامراجی اجارہ داریوں کے مالکان اور سرمایہ داروں کو اپنے ہی نظام پر اعتماد نہیں ہے۔ ان سرمایہ داروں نے ہزاروں ارب ڈالر ’’آف شور بینکوں‘‘ اور دوسرے ’’محفوظ‘‘ مقامات پر چھپا رکھے ہیں،نوادرات اور قیمتی زیورات سے تجوریاں بھر رکھی ہیں تاکہ ان اثاثوں کی قیمت بڑھتی چلی جائے اور بہتر موقع ملنے پر انہیں کیش کروایا جاسکے۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیداواری صلاحیت پہلے ہی زائد ہے۔ اس صلاحیت سے کہیں کم پیداوار کی جارہی ہے کیونکہ بیروزگاری اور کم اجرتوں کی وجہ سے قوت خرید ہی موجود نہیں ہے۔ منڈی میں کھپ کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے اور شرح منافع تنزلی کا شکار ہے۔ زائد پیداوار کے اس بحران میں فیکٹریاں بند ہورہی ہیں اور روزگار مزید کم ہورہا ہے۔
آج ذرائع پیداوار تو دیوہیکل حجم اختیار کر گئے ہیں لیکن ان مشینوں کو چلانے والے ہاتھ بے کار کئے جارہے ہیں۔ لاکھوں فلیٹ اور گھر ویران پڑے ہیں لیکن سرد راتوں میں کھلے آسمان تلے ٹھٹھر نے والے بے گھر افراد کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ غذائی پیداوار اتنی ہے کہ دس ارب انسانوں کے لئے صحت بخش خوراک مہیا ہوسکتی ہے لیکن بھوک اور قحط کی صورتحال شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ علاج کی جدید ترین سہولیات اور ادویات موجود ہیں لیکن ہر روز لاکھوں انسان قابل علاج بیماریوں سے سسک سسک کر مررہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ان تضادات نے نسل انسان کو عذاب مسلسل میں مبتلا کررکھا ہے۔
یہ نظام آج اس حد تک مفلوج ہوچکا ہے کہ اسے چلانے والے حکمران نجکاری کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔ کسی زمانے میں حکمرانوں کے لئے اقتدار میں آکر نجکاری کے ذریعے سرمایہ کاری کا حصول بڑا پرکشش ہوا کرتا تھا۔ اس چکر میں بھاری کمیشن بنائے جاتے تھے، ’’کک بیکس‘‘کی مد میں اربوں روپے ہتھیائے جاتے تھے اور نجی شعبے کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری سے جعلی بنیادوں پر ہی سہی لیکن معاشی نمو کی اعشاریوں میں تھوڑی بہتری آتی تھی۔ آج یہ سب بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں مالیاتی سیاست کے کئی بے تاج بادشاہ ’’چینی ماڈل‘‘ کی جانب دیکھ رہے ہیں جس میں سرمایہ دارانہ معیشت میں ریاست کے ایک بڑے حصہ دار کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔ آزاد منڈی کی معیشت اور ریاستی سرمایہ داری کا یہ جعلی امتزاج بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کو خاص طور پر بہت پسند ہے۔ تاہم پچھلے چھ سال کے دوران چینی معیشت کی شرح نمو مسلسل گررہی ہے اور ریاستی قرضہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2008ء کے بعد سے منڈی کے سکڑاؤ کی تلافی کرنے کے لئے چینی ریاست نے دیو ہیکل تعمیراتی منصوبوں کا سہارا لیا ہے تاکہ صنعتی کھپت کو برقرار رکھا جاسکے لیکن یہ کینشین اسٹ پالیسیاں زیادہ لمبے عرصے تک جاری رکھنا ناممکن ہے۔ بڑے منصوبوں کے لئے بڑا قرض درکار ہوتا ہے جس کے بوجھ تلے یہ ’’چینی ماڈل‘‘ اب دبتا چلا جارہا ہے۔
ان حالات میں چین سے ہونے والے 21 معاہدوں کا مستقبل بھی زیادہ تابناک نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران ابھی تک یہ واضح نہیں کرپائے ہیں کہ 42 ارب ڈالر کی یہ سرمایہ کاری کر کون رہا ہے؟ یہ نجی سرمایہ کاری ہے یا سرکاری؟ یا پھر ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘؟ جو درحقیقت ریاست کے انفراسٹرکچر اور عوامی پیسے کو سرمایہ داروں پر بے دریغ نچھاور کرنے کی گھناؤنی واردات ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی IPPs سے لے کر ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے تک ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ کے ذریعے ہی نجی سرمایہ کاری کو ’’محفوظ‘‘ بنایا گیا ہے، منافع سرمایہ داروں کی جیب میں اور نقصان کی ذمہ دار ریاست۔ پہلے سے موجود نجی IPPs نے عوام کا خون نچوڑنے میں شاید کوئی کسر چھوڑ دی تھی جو بجلی کے شعبے میں آنے والی 33 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا نیا عذاب مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کی محبت میں نہیں منافعوں کے لئے آتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں آنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ 20 ڈالر واپس لے جاتا ہے۔ یہ نئے پلانٹ جس تیل، گیس یا کوئلے سے چلیں گے وہ پہلے سے نصب بجلی گھروں کے لئے ہی دستیاب نہیں ہے۔ نتیجتاً لوڈ شیڈنگ تو جاری رہے گی لیکن بجلی کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔
نجکاری سے مصنوعات اور خدمات کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی ہوشربا اضافہ ہوتا ہے۔ رہائش، علاج، ٹرانسپورٹ، پنشن، بونس جیسی سہولیات اور مراعات ملازمین سے چھین لی جاتی ہیں اورکم سے کم محنت کشوں سے زیادہ کام لے کر ہی نجی شعبہ ’’منافع بخش‘‘ بنتا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی نجی ادارہ یا شعبہ ایسا ہو جہاں ٹھیکیداری یا دیہاڑی دار مزدوری کا نظام رائج نہ ہو۔
نجکاری کے خلاف OGDCL کے محنت کشوں کی اچانک مگر بے دھڑک بغاوت اور بہیمانہ ریاستی تشدد کے سامنے آہنی مزاحمت نے طبقاتی کشمکش کے بھڑک اٹھنے کا تناظر ایک بار پھر واضح کیا ہے۔ حکمرانوں کی اس شکست کے پیچھے کئی دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے جس کی وجہ سے یونین قیادت کا بھرم رہ گیا۔ لیکن یہ نجکاری کا آخری وار تھا نہ طبقاتی جنگ کا آخری معرکہ۔ موجودہ حکمران پلٹ کر زیادہ بڑے حملے کریں گے، یہ تصادم طوالت بھی اختیار کر سکتے ہیں اورٹریڈ یونین قیادت کا اصل امتحان ایسے حالات میں ہی ہوگا۔ نظریاتی انحراف اور موقع پرستی میں غرق پیپلز پارٹی کی قیادت کو ’’بائیں بازو‘‘ کی آڑ دینے والے کچھ لیڈروں نے بھی اگرچہ اس نجکاری پر بہت شور مچایا ہے لیکن پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت میں جب 27 اداروں کر رہی تھی تو یہ معذرت خواہ تب تماشبین بنے ہوئے تھے۔ محنت کش بھلا اپنے غداروں کو بھولتے ہیں؟
تحریک انصاف سے لے کر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سے لے نواز لیگ تک، تمام بڑی سیاسی جماعتیں آزاد منڈی کے جس معاشی اور اقتصادی نسخے پر متفق ہیں، ’’بیرونی سرمایہ کاری‘‘ اس کا بنیادی جزو ہے۔ یہ سرمایہ کاری چاہے ڈالروں میں ہو یا کسی اور کرنسی میں، اس کا پہلا ہدف نجکاری کے ذریعے کوڑیوں کے بھاؤ ریاستی اداروں کو خریدنا ہے۔ یہ سامراجی سرمایہ کار حکومتوں کی شرائط پر نہیں آتے بلکہ پاکستان جیسے ممالک کی ریاستیں ان کی تابع ہیں۔
نجکاری کا جواب نیشنلائزیشن نے نہیں بلکہ سوشلائزیشن ہیں۔ ادارے کرپٹ اور بدعنوان بیوروکریسی کے انفرادی کنٹرول میں دینے کی بجائے محنت کشوں کے اشتراکی اور جمہوری کنٹرول میں دئیے جائیں۔ لیکن یہ عمل کسی ایک صنعت یا ادارے میں ممکن نہیں ہے۔ ملکیت کے رشتے بدلے بغیر سماجی اور معاشی رشتے نہیں بدل سکتے۔ صنعت اور تجارت پر محنت کش عوام کا اشتراکی کنٹرول اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب منافع پر مبنی منڈی کی معیشت کو انسانی ضرورت پر مبنی منصوبہ بند معیشت سے تبدیل کر دیا جائے۔ آج ٹیکنالوجی اس مقام پر ہے کہ صنعت، زراعت اور ریاست کو سوشلسٹ بنیادوں پر چلا کر انسانی سماج کو ترقی اور خوشحالی کی معراج پر پہنچایا جاسکتا ہے۔ سرمایہ داری کے پاس نجکاری، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے سوا محنت کش عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
متعلقہ: