نجکاری: معاشی بحالی یا محنت کش عوام کا معاشی قتل؟

| تحریر: نادر گوپانگ |
privatization pakistan cartoonموجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں جب ریاستیں معاشی بحران کا شکار ہوتی ہیں توآئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے ادارے معاشی حل کے طور پر نجکاری کو پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا حل ہے جو محنت کش طبقے کو مزید معاشی بدحالی کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ اس بات کا اندازہ حقائق پر ایک نظر ڈالنے سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو نجکاری کے سبب بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ جبکہ محنت کشوں کی تنخواہوں اور سہولیات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ نیسلے کے سی ای او نے کہا ہے کہ پانی انسانی حق نہیں ہے اس کی بھی نجکاری ہونی چاہئے، شاید ان کا اگلا ہدف سانس لینا ہو۔ طبعی جریدے ’لینسٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نجکاری کے معاشی اثرات کے سبب روس اور مشرقی یورپ میں 90ء کی دہائی میں 1,000,000 مزدور ہلاک ہو گئے۔ اسی عرصہ میں شرحِ اموات میں اضافہ 12.8 فیصد ہواجبکہ بے روزگاری میں 56 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دنیا کو نجکاری کے عمل سے متعارف کروانے والی سابق برطانوی وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر ہے جس نے برطانوی ٹیلی کام، برطانوی گیس، برطانوی پیٹرولیم، برطانوی سٹیل اور رولز رائس جیسے کئی قیمتی اداروں کو نہ صرف اونے پونے داموں فروخت کر دیا گیا بلکہ اس کے اثرات مزدور طبقے پر بہت بھیانک ثابت ہوئے۔ چلی میں جرنل پنوشے اور امریکہ میں رونالڈ ریگن نے نجکاری کی پالیسی کو دوام بخشا اور دنیا بھر میں نجکاری کا عمل تیز ہوتا چلا گیا۔
پاکستان میں نجکاری کے عمل کے آغاز کا اعلان 1988ء میں پی پی پی کے دورِ حکومت میں کیا گیا لیکن بینظیر بھٹو اس کو قابل عمل نہیں بنا سکی۔ اس سے قبل ضیا دور میں صرف تین انڈسٹریل یونٹس کو ڈی نیشنلائز کیا گیا جو اتفاق گروپ آف انڈسٹریز کی ملکیت میں دئے گئے۔ نجکاری کے عمل کا باقاعدہ آغاز 1990ء میں نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد کیا۔ اس عمل میں سب سے پہلے بینکنگ سیکٹر کی نجکاری کی گئی۔ نجکاری کا پہلا وار مسلم کمرشل بینک پر کیا گیا۔ نجکاری کا مقصد اداروں میں شفافیت اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے راستے ہموار کرنا بتایا گیا۔ لیکن نجکاری کے ابتدائی عمل میں صرف پاکستان کی کاروباری اشرافیہ کو نوازا گیا اور بیشتر ایسے افراد اور خاندان جو 1970ء سے پہلے پاکستانی معیشت پر حاوی تھے پھر سے ان اداروں کے مالک بن گئے۔ اس نجکاری کا نتیجہ GDP میں 2فیصد کی کمی سے نکلا۔ کھاد، چینی اور سیمنٹ بنانے والی فیکٹریوں کو بیچ کر ایک مافیا عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ اسی دوران غازی ٹریکٹرز کی نجکاری عمل میں لائی گئی جو نجی ملکیت میں آنے کے بعد بند کرکے بیچ دی گئی اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس معاہدے میں حکومت کا کردار اُس چور جیسا رہا جو موٹر سائیکل چوری کر کے ایسے آدمی کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچتا ہے جو اس کے پُرزے الگ الگ کر کے بیچ کھائے۔ اسی طرح ن لیگ کی حکومت نے اور بھی بہت سے قیمتی اداروں کو بیچ کھایا۔ ایک اندازے کے مطابق1990ء کی دہائی میں نجکاری کی وجہ سے 6 لاکھ مزدورنوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مشرف دور میں نجکاری کے نئے دور کا آغاز ہوا، جس میں پی ٹی سی ایل کا ادارہ سرِ فہرست ہے۔ اس ادارے کے 52 فیصد شیئرز فروخت کرنے کا حکومتی اعلان اُس وقت بے کار ثابت ہوا جب مزدوروں نے مزاحمت شروع کی اور حکومت نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے صرف 26 فیصد شیئرز ہی فروخت کرنے کا اعلان کیا، جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی۔ نجکاری کے نتیجے میں ادارے کے صارفین کی تعداد 2006ء سے 2008ء کے دوران پانچ کروڑ بارہ لاکھ سے کم ہو کر چار کروڑ چالیس لاکھ رہے گئی اور اسی طرح آمدنی 69,085 لاکھ ڈالر سے کم ہو کر 61,085 لاکھ ڈالر تک آگئی۔ 65 ہزار مزدوروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا جبکہ ٹھیکہ داری نظام بھی متعارف کروایا گیا جس کے تحت کم اجرتوں، سہولیات کا فقدان اور نوکری سے ہاتھ دھونے کا خوف مزدوروں پر مسلط کر دیا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان ریلوے اور سٹیل مل میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اس کے بھیانک اثرات ملکی معیشت کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت بجلی کے اتنے پلانٹس لگے ہوئے ہیں کہ جن میں ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اضافی چند ہزار میگا واٹس پیدا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے، جسے بیچا بھی جاسکتا ہے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر مٹھی بھر اشرافیہ کی نجی ملکیت میں ہیں جن کی وجہ سے پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے اور ان کے پہاڑ جیسے منافع کو بڑھانے اور بچانے کے لیے ریاست واپڈا جیسے بڑے ادارے، جس سے لاکھوں مزدوروں کی زندگیاں جڑی ہیں، کو بھی نجی ملکیت میں دینا چاہتی ہے۔ لیکن حکومت نے 2009ء میں بھی واپڈا کو بیچ کھانے کی کوشش کی تھی کہ جسے مزدوروں کی یکجہتی اور مزاحمت نے ناکام بنا دیا تھا۔ حکومتی ناکامی کے بعد اشرافیہ کے دلالوں نے ادارے کو پُرزے پُرزے کرکے بیچنے کی ٹھان لی، جس کا ایک فائدہ حکمرانوں کو یہ نظرآیا کہ مزدوروں کو تقسیم کر کے نجکاری ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
IPPs لگ بھگ بیس سالوں میں محض پندرہ ارب ڈالر خرچ کر کے اب تک ساٹھ سے ستر ارب ڈالر تک ہڑپ کر چکے ہیں۔ نجکاری کے پہلے سے ڈسے ہوئے عوام پر ایک اور نجکاری کا ایٹم بم گرایا جا رہا ہے۔
اسی طرح سالانہ 100 ارب سے زائد منافع کمانے والے ادارے OGDCL کے 7.5 فیصد شیئرز جن کی مالیت 8 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھی کو کم کر کے 6 کروڑ 96 لاکھ ڈالر کی قیمت سے بیچنے کی کوشش کی گئی، جو ناکام ہوئی اور عالمی سطح پر پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری میں کمی کے سبب محض 3 کروڑ 42 لاکھ ڈالر کی پیشکش ہوئی۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پیداواری صلاحیت زیادہ ہونے کی وجہ سے اور مالیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کا نتیجہ نجکاری کی شکل میں نکلنا خود کلاسیکی سرمایہ داری کے اصولوں سے انحراف ہے۔ ایڈم سمتھ ریاست کو نجی کاروبار میں مداخلت نہ کرنے کا اصول بتاتا ہے جس سے موجودہ سرمایہ درانہ نظام انحراف کر چکا ہے۔ نفی کی نفی کا اصول یہاں کارفرما ہے۔
نجکاری کے عمل کے لئے جواز 90ء کی دہائی میں بھی معیشت کی بحالی ہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ پاکستانی حکومت اس عمل کے تحت 167 اداروں کو 476 بلین روپے کے عوض نجی ملکیت میں دے چکی ہے۔ لیکن کیا نجکاری کے عمل سے ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوئی؟ کیا بیروزگاری کی شرح میں کمی ہوئی؟ کیا پاکستان کی GDP گروتھ مستحکم ہو گئی ہے؟ کیا بیرونی قرضوں سے ملک کی جان چھوٹ گئی؟
ان اداروں کی بدحالی میں حکومتی اور افسر شاہی کے علاوہ ٹریڈ یونینز کی بکاؤ لیڈرشب بھی شامل ہے۔ حکومت اداروں کو مطلوبہ سے بہت کم بجٹ دیتی ہے جس کی وجہ سے ادارے کی کارگردگی میں نمایاں کمی دکھائی دینے لگتی ہے اور ایسے میں افسرشاہی کی بڑے پیمانے پر کرپشن جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔
کوئی بھی ادارہ مزدوروں کی محنت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ نجکاری کا عمل محض مزدوروں کی نوکریاں جانے یا ٹھیکہ داری نظام، کم اجرت اور سوشل سکیورٹی کے فقدان کا نام ہی نہیں بلکہ عام آدمی پر بھی اس کے اثرات تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ملتان سے لاہور سفر کرنا چاہیں تو ڈائیوو کی ٹکٹ ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ قومی ادارہ ریلوے یہ ہی سفر محض تین سو میں کروا دیتا ہے۔ اگرچہ یہ سفر ڈائیوو جیسا پُرآسائش نہیں لیکن اس ملک میں غریبوں کو آسائش سے نہیں بلکہ زندہ رہنے کے لیے پیسے بچانے سے سروکار ہے۔ ایسا اس معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں 60 فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ اور 53 فیصد افراد کے پاس بیت الخلا کی سہولت بھی میسر نہیں۔ قومی ادارے نجی اداروں کی نسبت زیادہ نوکریاں مہیا کرتے ہیں اور زیادہ تر افراد کی معاشی دسترس میں ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں قومی اور نجی اداروں کا فرق زیادہ تر عوام کے لیے کیا ہو سکتا ہے، قارئین خود فیصلہ کریں۔ اس لیے نجکاری کے خلاف جدوجہد کرنا صرف محکمہ جاتی ملازمین کوہی نہی بلکہ عام عوام کو بھی مزاحمت کرنی چاہیے۔
مزدور اس مسئلے کا حل بخوبی جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی روایتی پارٹی (جوبنیادی نظریات سے انحراف کر چکی ہے) کے بشمول تمام حکمراں جماعتیں اور فوجی حکومتیں مزدور دشمن پالیسز ہی لاگو کرتی آئی ہیں، ان سے توقع رکھنا بلی کو دودھ کی حفاظت پر معمور کرنے کے مترادف ہوگا۔ عدلیہ اپنی نگرانی میں نجکاری مسلط کرواتی آئی ہے مختصراً یہ کہ یہ ریاست سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ اپنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ واپڈا کے مزدوروں کی خبریں میڈیا اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ جیسے یہ ہڑتالیں اور احتجاجی ریلیاں بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہوں۔ مثال کے طور پر ایک نجی چینل نے واپڈا ملازمین کی حالیہ ہڑتال کو اس طرح نشر کیا: واپڈا ملازمین کی تیسرے روز بھی ہڑتال، لوڈشیڈنگ میں اضافہ، عوام کا جینا مشکل ہوگیا۔ ایسے میڈیا سے توقع بھی مذکورہ بالا مثال جیسی ہی ہے۔
یہ کسی ایک ادارے کے مزدوروں کی نہیں بلکہ غریب اور امیر طبقے کے مابین جنگ ہے۔ تمام ادارے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لانے کے سوا محنت کشوں کے پاس کوئی حل نہیں۔ مذہبی، قومی، لسانی، صنفی اورعلاقائی تعصبات سے بالا تر ہو کر طبقاتی جنگ کا راستہ اپناتے ہوئے تمام اداروں کے مزدوروں اور طلبہ کو غریب طبقے کے ساتھ منظم ہو کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ ایک ایسا نظام لاگو کیا جائے جہاں تمام انسانوں کو بنیادی ضروریات (خوراک، تعلیم، صحت، رہائش، بجلی، گیس، سفر) مفت فراہم کی جاسکیں، جس کی صلاحیت موجودہ ذرائع پیداوار میں موجود ہے۔

متعلقہ:

نجکاری کے ’’فضائل‘‘

قانونی لوٹ مار

طبقہ پروری

نجکاری کے وار

نجکاری: سرمایہ داروں کی خوشحالی، مزدوروں کی بدحالی