[تحریر: جاوید ملک]
دہشت گردی، توانائی کے بدترین بحران، خوفناک رفتار سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور تباہ شدہ معیشت کو وراثت میں لیکر آنے والی موجودہ حکومت کو آنے والے دنوں میں بھی لہروں کے مخالف سمت میں تیرنا پڑے گا۔ 2008ء سے جاری عالمی مالیاتی بحران نے جہاں امریکہ، یورپ اور دوسری معاشی طاقت کے اہم مراکز کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے اندر رہ کر کسی بہتری کا خواب دیکھنا خود کو دھوکہ دینے کے متراد ف ہی ہوگا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرح عالمی طور پر اپنی حتمی ناکامی سے دوچار ہوجانے والے سرمایہ دارانہ نظام کے ’ماہرین معیشت‘ ابھی تک اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے ناصرف اس نظام کو دوام دینے کے لیے مختلف نسخے آزما رہے ہیں بلکہ کئی ایک ماہرین موجودہ حکومت کے تحت عوام کو ا بھی تک بہتر معیار زندگی کے سپنے بھی دکھا رہے ہیں۔ اس کے لیے جو تدابیر بیان کی جارہی ہیں اس میں پہلی ترجیح ریاست کے ملکیتی اداروں کی فروخت، یعنی نجکاری ہے۔ نجکاری کا عمل امریکہ کے سابق صدر ریگن اور سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے دور میں شروع ہوا تھا مگر پھرپوری دنیا نے دیکھا کہ ٹریکل ڈاؤن اکانومی کی پالیسی کے تحت جو نجکاری کی گئی اس سے سرمایہ داروں کے منافعوں میں تو بے پناہ اضافہ ہوا مگر دوسری طرف دنیا بھرمیں کروڑوں افراد کو روزگار سے محروم کر دیا گیا، سرکاری اداروں سے ملازمین کی چھانٹیاں کی گئیں، محنت کشوں کے بنیادی حقوق کا خاتمہ کیا گیا۔ دنیا بھر میں حکومتوں کی دائیں بازو کی پالیسیوں اور سوویت یونین کے انہدام نے وقتی طور پر محنت کش طبقے پر مایوسی طاری کر دی۔ لیکن یہ مایوسی اب اشتعال میں بدل رہی ہے اور آ ج دنیا کا کوئی ایک بھی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں موجود نہ ہوں۔ گزشتہ دنو ں اچانک برازیل میں پھٹنے والی عوامی تحریک نے ریاست کو ہوا میں معلق کرکے رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجو د مختلف اداروں کی نجکاری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی تاہم موجودہ حکومت نے نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی 278 سرکاری اداروں کی فروخت کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ نواز حکومت کے نظریہ سازوں کا خیال یہ ہے کہ نجکاری سے آنے والے پیسے کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور اپنے اقتدار کو ناصرف بچایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والے سرمائے سے لڑکھڑاتی ریاست کو بھی کسی حد تک سنبھالا دیا جاسکتا ہے۔ حکومت پہلے مرحلے میں OGDCL کے پچاس کرو ڑ ڈالر کے ایکسچینج ایبل بانڈ ز عالمی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے لیجارہی ہے جس کے بعد پاکستان اسٹیل، واپڈا، پی آئی اے اور ریلوے جیسے اداروں کی فروخت بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
پاکستان ریلوے
ریلوے پاکستان کا ایک اہم ادارہ ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو برصغیر میں ریل کا نظام ہنری ایڈورز کی سربراہی میں 1858ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور پہلی باقاعدہ ٹرین 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک عوام کے لیے چلائی گئی تھی۔ تاہم برصغیر میں برطانوی سامراج نے ریل کا نظام اس لیے قائم نہیں کیا تھا کہ اسے برصغیر کے محنت کشوں کی سفری مشکلات کا کوئی احساس تھا بلکہ انگریز یہاں سے خام مال کی لوٹ مار کے لیے ریلوے کا نظام لیکر آئے تھے۔ 1947ء کے بعد پاکستان ریلوے کو ایک خود مختار ادارہ بنا دیا گیا جس کی اپنی رہائشی کالونیاں وفلیٹ پولیس ہسپتال سکول کھیل کے میدان، زرخیز کمرشل، کھربوں روپے کی زمینیں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ برصغیر میں انگریز نے ریلوے کا جو نظام قائم کیا تھا وہ تکنیکی لحاظ سے اس وقت کے یورپ کے نظام سے بھی کہیں بہتر تھا۔ مگر اگر آج دیکھا جائے تو پاکستان ریلوے جو ہزاروں خاندانوں کے روزگار اور لاکھوں مسافروں کے لیے سستی سفری سہولیات مہیا کرتا تھا حکمرانوں اور بیوروکریسی کی لوٹ مار کے نتیجے میں تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ مگر ہمارے ہاں شام 7 بجے کے بعد ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر مشکل الفاظ اور اعدادوشمار کے ساتھ تجزیہ کرنے والے دانشور کبھی یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان ریلوے اور خسارے میں جانے والے دوسرے ادارے ہمیشہ سے اس حالت میں نہیں تھے۔ مثلاً پاکستان ریلوے 1960ء سے 1977ء تک سالانہ 487 ملین روپے کا منافع دینے والا ادارہ تھا جو 130000 خاندانوں کو براہ راست اور چالیس ہزار دوسرے لوگوں کو بالواسطہ روزگار مہیا کرتا تھا۔ گزشتہ ادوار میں چھانٹیوں کے بعد اب ان ملازمین کی تعداد صرف 75000 رہ گئی ہے جبکہ قریباً بیس ہزار افراد دیگر حوالوں سے اب بھی اس ادارے سے روزگار حاصل کررہے ہیں۔
ریلوے کے پاس اس وقت پاکستان کے اندر کھربوں روپے مالیت کی ایک لاکھ چالیس ہزار کنال زمین موجود ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ریلوے ایک خود مختار ادارہ ہے جس کی اربوں ڈالر مالیت کی پراپرٹیز کو بڑے بڑے گدھ بھوکی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ریلوے کے پاس لاہور مغل پورہ ورکشاپ کی شکل میں ایک قیمتی اثاثہ موجود ہے جہاں ایک مکمل فاونڈری بھی نصب ہے اور جہاں ہر قسم کے پرزہ جات تیارکئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ریل کے انجن اور کوچز کا میٹریل بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔ 1998 ء تک یہیں سے سارا میٹریل تیار کرکے ریلوے کو مہیا کیا جاتا تھا مگر اب شاپ کو خام مال مہیا نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کا محنت کش اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے۔ واضح رہے کہ نوے کی دہائی میں مغل پورہ ورکشاپ نے ریل کے پرانے انجن ری بلڈ کرکے اربوں روپے کا ریاستی سرمایہ بچایا تھا۔ یہ ورکشاپ GOODS کوچز تیار کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے اور دنیا کی جدید ترین کوچز اورہر قسم کے تجارتی کنٹینر ز تیار کر سکتی ہے جن کو بیرون ملک اور اندرون ملک فروخت کرکے اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح1970ء میں اسلام آباد میں ریلوے کیرج فیکٹری بنائی گئی جہاں تیار ہونے والی کوچز دیگر ممالک کو فروخت کی جاتی تھیں۔ اس فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں اور ماہرین کی صلاحیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 80 کی دہائی میں پاک فوج کے لیے انتہائی جدید بکتر بند گاڑیوں کی باڈیز، فریم، ٹینکوں کی باڈیز اور چین، آٹو ٹرک پل ہنگامی طور پرتیار کرکے فراہم کیے گئے تھے مگر آج خام مال میسر نہ ہونے کیوجہ سے یہ فیکٹری بھی قریباً بند پڑی ہے۔ گویا ریلوے کے پاس پاکستان بھر میں ورکشاپوں اور میٹریل تیار کرنے والی فاونڈریز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجودہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک فیکٹری میں ماہانہ دو نئے انجن تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 1970ء میں پاکستان کے اندر 360 ٹرینیں چلتی تھیں جو 80 کی دہائی میں کم کرکے 220 کر دی گئیں اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں مزید 106 ٹرینیں بند کر دی گئیں جس کے بعد اب ملک کے اندر بوڑھے ریلوے انجن صرف 114 ٹرینیں کھینچ رہے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان میں ڈھائی سو کے قریب انجن موجود ہیں جن کو مرمت کرکے دوبارہ چلایا جاسکتا ہے مگر وہ بیوروکریسی اور حکمران جنہوں نے گزشتہ سالوں میں سستے داموں ناقص تیل خرید کر ان انجنوں کو برباد کیا اور اربوں روپے اپنی جیبوں میں ڈال لیے، ان انجنوں کو ٹھیک کرنے یا پھر پاکستان کے اندر نئے انجن تیار کرنے کی بجائے چین سے مہنگے داموں ریلو ے کے انجن درآمد کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ اس معاہدے کے علاوہ 200 کوچز 9 ارب روپے میں خریدی گئی ہیں۔ یہی کوچز اگر مقامی طور پرریلوے کیرج فیکٹری میں تیار کی جاتیں تو 4 ارب روپے بچائے جاسکتے تھے۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی لوٹ مار کی وجہ سے ریلوے کا مجموعی خسارہ کھربوں تک جاچکا ہے اورکوئی بھی مالیاتی ادارہ ریلوے کو مزید قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حال ہی میں نیشنل بینک نے ریلوے کو چالیس ارب روپے کا قرضہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کیوجہ سے یہ ادارہ آج اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1974 ء میں ریلوے کا ایک جنرل مینجر اور 20 گریڈ کی ایک ہی پوسٹ تھی جبکہ گریڈ 17، 18 اور 19 کے 700 آفیسر تھے۔ ادارہ منافع میں جارہا تھا۔ آج ا سکے 3 جنرل مینجر 20 گریڈ کے پانچ آفیسر جبکہ گریڈ 17، 18 اور 19 کے افسروں کی تعداد 2300 سے تجاوز کر چکی ہے مگر ادارے کی کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوتی جارہی ہے۔ محکمے کی ایک لاکھ کنال اراضی پربیوروکریسی کی ملی بھگت سے قبضہ گروپوں نے قبضے جما رکھے ہیں۔
پی ٹی سی ایل
سرکاری ’ماہرین معیشت‘ کی تمام تر بکواس سے متضاد، PTCL پاکستانی ریاست کا ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ نجکاری سے پہلے اس کا شمار ایشیا کے بڑے ٹیلی کمیونیکیشن اداروں میں ہوتا تھا۔ کاپر اور فائبر آپٹک پر مشتمل PTCL کا ملک گیر نیٹ ورک بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بھی بہتر تھا۔ ادارے کے پاس درجنوں ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تھے جہاں پر نئے ملازمین کی پیشہ وارانہ تربیت کی جاتی تھی۔ دنیا بھر میں ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں PTCL کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتی تھیں۔
نجکاری سے پہلے، 2005ء میں PTCL کی کل آمدن 84 ارب روپے تھی جبکہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد خالص منافع 27 ارب روپے تھا۔ نجکاری سے پہلے چار سال تک ادارے کے منافع میں 11 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہورہا تھا۔ مشرف حکومت میں ادارے کے 26 فیصد شیئر متحدہ عرب امارات کی کمپنی اتصالات کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دئے گئے اور تمام تر قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے ادارے کی باگ ڈور بھی اتصالات کوسونپ دی گئی۔ نجکاری کے سات سال بعد PTCL کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ اتصالات نے ابھی تک نجکاری کی قیمت بھی حکومت پاکستان کو ادا نہیں کی ہے اور 80 کروڑ ڈالر تاحال اتصالات کے ذمے واجب الادا ہیں جبکہ یہ کمپنی اس سے کہیں زیادہ رقم کما کر پاکستان سے باہر بھیج چکی ہے۔ گزشتہ سات سالوں میں ادارے کی آمدن 84 ارب سے گر کر 8 ارب رہ گئی ہیں، یعنی آمدن میں سالانہ 18 فیصد کی کمی واقع ہورہی ہے۔ نجکاری سے پہلے2005ء میں PTCL کے شیئرز کی مارکیٹ میں قیمت 358 ارب روپے سے کم ہوکر 2012ء میں صرف 53 ارب روپے رہ چکی ہے، یوں حکومت کو 225 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہزاروں لائن مین، انجینئر اور دوسرے محنت کش ادارے سے نکالے جاچکے ہیں۔ 32000 ملازمین کو صرف ’’گولڈنگ ہنڈ شیک‘‘ کے نام پر نکالا جاچکا ہے جن کی پینشنوں کی مد میں 25 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم بھی اتصالات کی بجائے حکومت پاکستان نے ادا کی ہے۔
یہ صورتحال اور تجربات واضح کرتے ہیں کہ اداروں کی فروخت سے حکمران اپنے ریاستی بوجھ کو تو کسی حدتک عارضی طور پر کم کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مگر نجکاری کسی صورت بھی پاکستان کے عوام کے لیے ایک اچھی خبر نہیں ہے۔ نجکاری کی پالیسی بد ترین عوام دشمنی ہے، یہی وجہ ہے کہ وینزویلا، سمیت دیگر ممالک میں نجی اداروں کو تیزی سے قومی ملکیت میں لیا جارہا ہے جس سے عوام کے مسائل میں کمی آرہی ہے۔ اس کی ایک مثال کچھ عرصہ قبل لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا میں کی جانے والی نیشلائزیشن ہے جہاں پر پاکستان کی طرح تیل سے بجلی تیار کرنے والی کمپنیاں لوٹ مار میں مصروف تھیں اور عوام لوڈشیڈنگ کی اذیت سے دوچار تھے۔ بولیویا کے سوشلسٹ صدر ایوا مورالس نے ان کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لیکر شرح منافع کو 80 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کر دیا جس سے نہ صرف بولیویا میں لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی بلکہ بجلی کی قیمتوں میں 60 فیصد تک کمی آگئی۔ پاکستان میں محنت کشوں کی اشتراکی تحریک کے تحت اگر تمام اداروں کو قومی ملکیت میں لیکر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ ادار ے حیران کن طور پرکم عرصے میں خساروں کو ماضی کی ایک یادگار بناتے ہوئے مزدور ریاست کو ترقی کی شاہراہ پر گامز ن کر دیں گے۔