[تحریر: لال خان]
سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور آصف زرداری سے 40 سال کی قریبی رفاقت رکھنے والے ذوالفقار مرزا نے اپنے تازہ انٹریو میں پیپلز پارٹی کی زوال پزیری کا ذمہ دار آصف زرداری کو ٹھہرایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نے بدھ کے روز اپنے بیان میں کہا کہ پارٹی ’ون مین شو‘ بن کے رہ گئی ہے اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری حکومت سندھ کو کاروبار سمجھ کر چلا رہے ہیں۔ مرزا نے دعویٰ کیا کہ پارٹی میں موجود (آصف زرداری کی) کٹھ پتلیاں بلاول کو پاکستان میں نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ مجھے اسے المناک دن پر افسوس ہے جب رحمان ملک پیدا ہوا تھا۔‘‘ ذوالفقار مرزا نے مزید کہا کہ ’’بینظیر بھٹو نے سانحہ کارساز کا مجرم چوہدری پرویز الٰہی کو قرار دیا تھا۔ میں نے جب اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تو آصف زرداری نے مجھے فون کر کے کہا کہ تم میری مصالحت کی سیاست کو نقصان پہنچا رہے ہو…یہ ’دہاڑی دار‘ لوگ بلاول بھٹو کو پارٹی کی خدمت کا موقع نہیں دے رہے ہیں۔ جس طرح سندھ کو چلایا جارہاہے اس پر بلاول کو کئی تحفظات ہیں۔ بینظیر بھٹو کے بعد بلاول بھٹو میرا واحد لیڈر ہے … بی بی کا خون بیچا جارہا ہے … میں لندن میں بلاول سے ملنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
آصف زرداری سے کئی مالی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے والے ان کے قریبی دوست کی یہ شعلہ بیاں تنقید خاصی تلخ ہے۔ مرزا ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے نمایاں رہنما تھے۔ قتل اور بھتہ خوری جیسے جرائم میں آصف زرداری کے ساتھ شریک ہونے کے کئی الزامات ماضی میں ان پر لگتے رہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کی بیوی فہمیدہ مرزا ان کے آبائی حلقے (بدین) سے کئی بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوچکی ہیں۔ اس جارحانہ انٹرویو میں مرزا نے آصف زرداری پر مالی مفادات کے لئے پارٹی، دوستوں اور وفادار ساتھیوں کو استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ تاہم ذوالفقار مرزا کے مطابق بینظیر کے قتل کے بعد پارٹی نظریاتی انحراف کا شکار ہوکر کرپشن کا آلہ کار بنی ، جو سراسر غلط ہے۔
پیپلز پارٹی کی نظریاتی زوال پزیری اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور سامراج سے ’’مصالحت‘‘ کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بینظیر بھٹو نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ 1988ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد یہ محترمہ ہی تھیں جنہوں نے کھل کر امریکی سامراج کی حمایت کی تھی اور جارج بش (سینئر) کے دور حکومت میں امریکہ کے سرکاری دورے پر پاکستان کو ’’کمیونزم‘‘ کے خلاف امریکہ کا ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ قرار دیا تھا۔برطانوی عوام میں ’’بچوں کا دودھ چھیننے والی‘‘ کے نام سے مشہور ماگریٹ تھیچر بینظیر کی آئیڈیل تھی اور نجکاری جیسی نیو لبرل معاشی پالیسیاں محترمہ نے تھیچر کی پیروی میں ہی اپنائی تھیں۔ انقلابی سوشلزم پر مبنی پیپلز پارٹی کے منشور سے بینظیر کا کھلا انحراف ہی پارٹی کی زوال پزیری کا نقطہ آغاز تھا۔نظریات کوعرصہ پہلے انہوں نے ’’پچھلی نشست‘‘ پر دھکیل دیا تھا۔
سوائے بینظیر کے چند ایک قریبی ساتھیوں کو سائیڈ لائن کرنے کے، آصف زرداری نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد پارٹی قیادت میں کوئی بڑا رد و بدل نہیں کیا۔ ’’مصالحت‘‘ اور نیولبرل سرمایہ داری کی پالیسیاں بینظیر نے ہی اپنائی تھیں جنہیں آصف زرداری نے آگے بڑھایا۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی دو حکومتیں کرپشن اور جرائم کے الزامات کے تحت ہی برطرف کی گئی تھیں۔ زرداری اور ذوالفقار مرزا انہی کیسوں کے تحت کئی سال جیل میں بھی رہے۔ بینظیر ہی پارٹی میں سے بائیں بازو کی بے دخلی کو انتہاؤں پر لے کر گئی تھی۔ ضیا آمریت سے خوب فیض یاب ہونے والے یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک جیسے سیاسی جغادریوں کوبھی محترمہ نے ہی پارٹی پر مسلط کیا تھا۔ دوسرے ایشوز سے قطع نظر ، آصف زرداری کم از کم بینظیر کی ان سیاسی اور تنظیمی پالیسیوں سے وفادار رہا ہے جن کا ہر نقطہ محنت کش عوام کے مفادات سے متضاد ہے۔ ووٹر اور پارٹی کارکنان اچھی طرح جانتے ہیں کہ بینظیر کی ’’مصالحت‘‘ اور نجکاری جیسی پالیسیوں سے آصف زرداری نے کوئی انحراف نہیں کیا ہے۔
بینظیر کی پالیسیوں نے آصف زرداری کو اگرچہ کئی جواز مہیا کئے ہیں لیکن زرداری کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے وراثت میں بینظیر کی پارٹی اور جائیداد ملی ہے، اتھارٹی نہیں۔ نہ ختم ہونے والی لوڈ شیڈنگ سے لے کر آسمان چھوتے افراط زر تک، پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں عوام شاید ہی کسی ذلت سے دو چار نہ ہوئے ہوں۔ انفراسٹرکچر کی ترقی کم و بیش صفر رہی۔ ریاستی قرضہ دوگنا ہوگیا۔ پاکستانی معیاروں کے لحاظ سے بھی بدعنونی اور بدانتظامی اپنی انتہاؤں پر تھی۔ پیپلز پارٹی حکومت کا سب سے مجرمانہ قدم مارگریٹ تھیچر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محنت کشوں کو اداروں کا ’’مالک‘‘ بنانے کا فریب دینا تھا۔یہ نجکاری کا سب سے تباہ کن طریقہ واردات ہے۔
2013ء کے انتخابات میں بدترین شکست کا زرداری اینڈ کمپنی کو کوئی ملال نہیں ہے ۔ تجوریاں بھری گئیں، عوام برباد ہوئے اور سارے کھلواڑ کو ’’پرامن جمہوری تبدیلی‘‘ کا کارنامہ قرار دے دیا گیا۔ نواز لیگ اعلانیہ طور پر سرمایہ داروں اور کاروباری طبقے کی پارٹی ہے۔ جاگیر دار شرافیہ کے کچھ حصے بھی وفاداریاں تبدیل کر کے اس حکومت سے خوب ’’مستفید‘‘ ہورہے ہیں۔ تاہم حکمران طبقے کے ایک طاقتور دھڑے کی نمائندہ یہ حکومت شروع دن سے ہی بحران کا شکار تھی۔ اپنی باری لگانے کے لئے انہیں پارلیمان میں زرداری ٹولے کی حمایت درکار تھی جودیوہیکل بدعنوانی اور لوٹ مار کا کچا چٹھا نہ کھولنے کی ضمانت پر فراہم کر دی گئی۔اپنا پیٹ بھر کر زخموں سے چور عوام کو سرمایہ دار گدھوں کے سامنے پھینکنے یہ واردات بینظیر کے ’’فلسفہ مصالحت‘‘ کے نام پر کی جارہی ہے۔ سینکڑوں محنت کشوں کو زندہ جلا ڈالنے والوں سے یارانے بڑھانے کے پیچھے بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی یہی تعلیمات کارفرما ہیں ۔یہ ’’فلسفہ‘‘ طبقاتی مصالحت کے رجعتی نظرئیے کا ہی ایک نام ہے جس پر مغربی سوشل ڈیموکریسی گزشتہ سو سال سے عمل پیرا ہے۔
بلاول بھٹوکو ابھارنے کی کوشش بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پارٹی کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کا دباؤ نوعمر چیئرمین صاحب برداشت نہیں کرپائے ہیں۔ زرداری کے ساتھ بلاول کے اختلافات کی خبریں گزشتہ کچھ عرصے سے گردش کر رہی ہیں۔ لندن میں بات ہاتھا پائی تک پہنچ جانے کی افواہ بھی ہے۔لیکن بلاول کوئی انقلابی نہیں ہے۔ وہ ایک بار بھی سوشلزم کا لفظ زبان تک لانے کی ہمت نہیں کرپایا ہے۔اس کے بیانات اگرچہ عدم مصالحت کا ہلکا سا تاثر تو دیتے ہیں لیکن وہ مخصوص پارٹیوں یا افراد تک محدود ہیں۔ شخصیت پرستی کے ذریعے پیپلز پارٹی کی تجدید کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عوام کی سیاسی روایت کے طور پر پیپلز پارٹی کے مستقبل پر ہر کوئی بجا طور پر سوال اٹھا رہا ہے۔ ایک طرف نیم رجعتی عہد کے معروضی حالات کارفرما ہیں، محنت کش طبقہ اور نوجوان بڑی حد تک حاوی سیاست سے لاتعلق ہیں۔دوسری طرف بلاول کے نام نہاد ’چیئرپرسن‘ ہونے کے باوجود اصل اختیارات زرداری کے پاس ہیں۔ پارٹی پر مافیا طرز کا یہ کنٹرول خاصا سخت ہے اور پارٹی ڈھانچے کی مختلف سطحوں پر براجمان مفاد پرست عناصر ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کے تحت مال بنانے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بنیادی منشور میں درج سوشلسٹ نظریات کی طرف واپسی، پارٹی کے اندر جارحانہ تطہیر (Purge) اور تنظیمی ڈھانچوں کی جراحی کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس سب کی امید بلاول سے کرنا احمقانہ خوش فہمی ہے۔انقلابی سوشلزم کے جس پروگرام نے 1968-69ء کی انقلابی تحریک میں پیپلز پارٹی کو محنت کش عوام کی سیاسی روایت بنایا تھا اگر نظریاتی، تنظیمی اور سیاسی طور اس سے دوبارہ رجوع نہیں کیا جاتا تو پارٹی کی بقا کے امکانات مخدوش ہیں۔ عین ممکن ہے پیپلز پارٹی کا حشر یونان کی PASOK والا ہو۔ یونان میں ریڈیکل لیفٹ کا رجحان رکھنے والی سائریزا (Syriza) نے PASOK کی جگہ لی ہے جبکہ پاکستان میں اس طرح کا کوئی سیاسی رجحان موجود نہیں ہے۔ اس ملک میں شاید انقلابی مارکسزم کی علمبردار ایک بالشویک لینن اسٹ پارٹی ہی پیپلز پارٹی کی جگہ لے سکتی ہے۔
متعلقہ:
پیپلز پارٹی: ’’منزل‘‘ انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے!