تحریر: عمر فاروق:-
سعودی عرب عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اہم اور مضبوط کڑی ہے۔یہاں محنت کش طبقے کے استحصال، جبر اور تشدد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج نے جب مشرقِ وسطیٰ کی بندر بانٹ کی تو اس خطے کو اپنے گماشتے السعود کے حوالے کیا جو اس سے پہلے ایک بدو لٹیرا تھا۔اس نے جنگ کے دوران کئی دفعہ برطانوی سامراج کو خط لکھا کہ اس کی وفاداری پر اعتماد کیا جائے اور وہ اپنے آقاؤں کی ہر طرح خدمت کرے گا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج نے سعودی حکمرانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔اس دوران تیل کی دریافت کی بدولت السعود خاندان کی بادشاہت کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی گئیں اور ان کا جبر اور استبداد بھی بڑھتا گیا۔اس دوران وہ خطے میں سامراجی کردار بھی ادا کرتے رہے اوراسلامی بنیاد پرست اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کرتے رہے۔
اپنی بادشاہت اور جبر کو قائم رکھنے کے لیے وہ اس عرصے میں اپنے ملک میں ابھرنے والی بغاوتوں کو بھی خون میں ڈبو تے رہے۔ ایک وقت میں شاہ فیصل نے اپنے خلاف بغاوت کرنے والے فوجیوں کو ہوائی جہاز سے بغیر پیراشوٹ کے ہزاروں فٹ کی بلندی سے پھنکوایا تھا۔
2011ء میں ابھرنے واے عرب انقلاب نے سعودی عرب کے عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔اس ملک میں سخت رجعتی قوانین کے نفاذ، میڈیا پر پابندی اور سامراجی طاقتوں سے تعلقات کے باعث اس ملک کی بہت کم خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔لیکن اس کے باوجود 2011ء میں یہاں بغاوت کے آثار نظر آئے۔خاص طور پر یمن اور بحرین کے انقلابات نے سعودی عرب میں اہم اثرات مرتب کیے۔
آج کا سعودی عرب کا معاشرہ مختلف تضادات کا مجموعہ ہے،ایک طرف مذہبی نبیاد پرستی اور رجعتیت کا گڑھ اور دوسری طرف سعودی عوام کے اندر رجعتیت کے خلاف پنپنے والی نفرت،جس کا اظہار مختلف مواقعوں پر مختلف انداز میں ہوتا ہے۔
اپنے جبر کو قائم رکھنے کے لیے بادشاہ کی جانب سے ایک طرف انتہائی سخت گیر رجعتی قوانین لاگو ہیں اور دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں معیشت پر چھائی ہوئی ہیں۔رجعتیت اور ملائیت کے ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے مختلف مواقعوں پر تضاد بنے جس کے نتیجے میں ملائیت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔جس کی تازہ ترین مثال چند سال پہلے عام ہونے والی موبائل فون اور انٹر نیٹ کی ٹیکنالوجیز ہیں۔ابتداء میں سعودی ملاؤں نے خواتین کے انٹرنیٹ اور موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی اور بعد ازاں کیمرے والے موبائل کے استعمال پر پابندی عائد کی۔مگر دوسری طرف ان سب میں سرمایہ کاری کرنے والے شاہی خاندان کے لوگ اور انٹر نیشنل سرمایہ دار کمپنیاں،جوکہ سعودی منڈی میں مہنگے فون اور کمپیوٹر بیچ کر منافع کمانا چاہتی ہیں کے مفادات اس میں وابستہ تھے کہ زیادہ سے زیادہ اشیاء بیچی جائیں۔ سعودی عرب جس کی آبادی کا 50 فی صد سے زائد خواتین پر مشتمل ہے،اور خواتین کو اس منڈی سے الگ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ منڈی کو آدھا کر رہے ہیں کیونکہ اگر خواتین کے پاس فون نہیں ہو نگے تو موبائل کمپنیوں کے نت نئے پیکیجز کون لوگ لیں گے۔
ان منافعوں کی ہوس کے باعث بننے والے تضادات وہ وجہ بنی کہ رجعتی ریاست کو ہی رجعتیت کے خلاف کچھ اقدامات کرنے پڑے۔ریاستی مداخلت کے نتیجے میں ملائیت کی ساکھ کچھ عرصے کے لئے بچ گئی ورنہ خطرہ پید ا ہو سکتا تھا کہ چند سال پہلے بننے والے ان تضادات کے نتیجے میں ملائیت کے خلاف عوام میں ایک بغاوت پنپ رہی تھی اور لوگ پابندیوں کے باوجود موبائل فون کا استعمال بھی کر رہے تھے اور کیمرے والے فون بھی لوگوں کے پاس دھڑا دھڑ پہنچ رہے تھے۔مگر ان تمام حرکات کے باوجود سعودی ریاست اور سامراجی طاقتوں کویہاں ملائیت کی ضرورت ہے۔
غربت اور سعودی عرب
گزشتہ سال تراد السمری نامی ایک سعودی نوجوان نے ایک ڈاکومنٹری بنائی جس کا مقصد حکام کی توجہ غربت کے مسئلے پر مبذول کرانا تھا۔ڈاکومنٹری کا نام My salary is 1000 Riyalz (میری تنخواہ ہزار ریال ہے) تھا۔اور فلم اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچائی کیونکہ میڈیا کا کوئی ادارہ شاید اس فلم کو دکھا نہ پاتا۔
اس ڈاکومنٹری کے مطابق سعودی عرب میں غربت بڑھ رہی ہے اور بہت بڑی تعداد میں لوگ انتہائی کسمپرسی میں رہ رہے ہیں۔ اسمری کی اس فلم سے کم از کم بہت سے لوگوں کو یہ تو اندازہ ہوا کہ سعودی عرب میں بھی غریب لوگ رہتے ہیں جو خاندانی طور پر سعودی باشندے ہی ہیں نہ کہ بیرونِ ملک سے آئے ہیں۔ ورنہ عام تاثر یہی تھا کہ سعودی عرب میں صرف امیر لوگ رہتے ہیں۔
چند سال پہلے کے اگر سوشل افیئرز کی وزارت کے اعدادو شمار دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ان اعدادوشمار کے مطابق جو کہ اسی وقت کے وزیر ڈاکٹر یوسف العثمان نے جاری کئے662126 ایسے سعودی خاندان ہیں جو مختلف قسم کے وظائف پر گزارہ کر رہے ہیں۔اگر ہم ایک خاندان کو5 افراد پر مبنی خیال کریں تو افراد کی کل تعداد 3310625 بنتی ہے۔اس کا مطلب آج سے چند سال پہلے 3310625 افراد ایک انتہائی امیر ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔اس کے علاوہ بے روزگار افراد کی تعداد پر کوئی حتمی اعدادوشمار تو نہیں دئیے جا سکتے مگر یہ کہا گیا کہ 4 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔سعودی عرب کی کل آبادی اس وقت 2کروڑ کے قریب ہے۔
اس سب کے بارے میں ڈاکٹر یوسف نے الوفن نامی جریدے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تعداداس وقت میں ہے جب افراطِ زر کی شرح بھی انتہائی کم ہے،اور اس میں وہ خاندان شامل نہیں جو کہ کم از کم ابتدائی ضروریاتِ زندگی حاصل کر رہے ہیں۔
کچھ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً25فیصد سے زائد سعودی خاندان ایسے ہیں جوغربت کی انتہائی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔جبکہ 75فیصد سے زائد افراد طویل مدتی اور کم وقتی قرضے لینے پر انتہائی مجبور ہیں۔
سعودی عرب کے بڑے شہروں کا بھی اگر دورہ کیا جائے تو ریاض شہر جو کہ سعودی عرب کا دارالحکومت، اس کے عین وسط میں مرسلات نامی ٹاؤن جو کہ ایک انتہائی پوش علاقہ سمجھا جاتا ہے وہاں ایک بڑی کچی بستی دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں زیادہ تر سیکورٹی میں بھرتی سعودی سپاہی رہتے ہیں یا پھر بے روزگار، حکومتی وظیفوں یا زکوٰۃ پر بسنے والے۔اس طرح ریاض شہر کے قدیم علاقوں میں انتہائی خستہ حال آبادیاں اور ایسے لوگ ملیں گے جو لوٹ مار پر مجبور ہیں۔کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سٹریٹ کرائم ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح جدہ اور دوسرے شہروں میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں۔اور اگر شہروں سے نکل کر ہم چھوٹے شہرو ں اور دیہاتی علاقوں کو دیکھیں تو وہاں انتہائی پست حال آبادیاں نظر آتی ہیں۔
اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم سعودی عرب جانے والے لوگوں کو دیکھیں تو ایک اور تضاد نظر آتا ہے۔ترقی پذیر ممالک سے سعودی عرب روزگار کی تلاش میں جانے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ نظر آتا ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کے نوجوانوں میں بے روزگاری بھی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مہنگی تعلیم اور سرکاری طور پر نوجوانوں کی تعلیم کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے اور انہیں زکوٰۃاور سرکاری وظیفوں کا عادی بنانے کی وجہ سے سعودی نوجوان تعلیم اور ہنر میں ترقی پذیر ممالک کے نوجوانوں سے بہت پیچھے ہیں۔دوسری جانب ترقی پذیر ممالک اور سعودی کرنسی میں بے انتہا فرق کی وجہ سے ان ترقی پذیر ممالک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے نوجوان انتہائی کم تنخواہوں پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے سعودی عرب کے سرمایہ دار غیرملکی ترقی پذیر ممالک کی لیبر کو ترجیح دیتے ہیں۔اس صورتِ حال کی وجہ سے سعودی عرب کے اندر مقامی آبادی میں بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے ممالک سے آنے والے محنت کشوں کے روزگار کو بھی کسی قسم کا کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں اور نہ ہی عالمی لیبر قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔انہیں انتہائی بد ترین حالات میں کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن غربت کے ہاتھوں تنگ محنت کش یہ سب سہنے مجبور ہیں۔
لیکن یہ صورتحال مقامی آبادی میں غیر ملکیوں خصوصاً جنوبی ایشیائی باشندوں کے خلاف نفرت پیدا کر رہی ہے۔مقامی آبادی ساری صورتحال اور اپنی حق تلفی کا ذمہ دار غیر ملکی محنت کشوں کو سمجھ رہی ہے۔اور ایسے میں غیر ملکی محنت کش ایک اور عجیب قسم کی صورتحال میں پھنس جاتے ہیں۔ایک طرف کم تنخواہوں پر کام،اپنے عزیزو اقارب اور وطن سے دوری، مقامی آبادی کی نفرت اور اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو کفیل کے ہاتھوں بلیک میل ہو جاتے ہیں اور وہ ان کی کمائی کا ایک بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔
اگر محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم نہ کیا گیا تو سرمایہ داری کا یہ بحران آگے چل کر مقامی اور بیرونِ ممالک کے محنت کشوں کے درمیان تصادم کو جنم دیتا ہوا نظر آرہا ہے۔جس کے نتیجے میں مقامی آبادی اور غیر ملکیوں کے درمیان خوفناک لڑائی بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال بحرین کے انقلاب میں بھی نظر آتی ہے۔ بحرین کے بادشاہ کی طرح سعودی حکومت بھی اس صورتحال کو اپنے مفادات میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گی اور محنت کش طبقے کوآپس کی لڑائیوں میں الجھا کر مجموعی طور پر مزید کچلا جائے گا۔لیکن اس صورتحال کے بر عکس سعودی محنت کش طبقے کے اندر کسی حد تک بیداری کی کیفیت جو عرب انقلاب نے پیدا کی وہ بھی نظر آتی ہے۔
2011ء کی تحریکیں
سعودی ٹیلی کام کی نجکاری کے وقت سعودی ٹیلی کام کے محنت کشوں نے ملک کے اکثر حصوں کی سروس بند کر دی اور سنٹر ہیلپ لائن کو بند کر کے شہزادے کے دفتر کے باہر مظاہرہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں اگلے دن سعود یہ کے بادشاہ کوٹی وی پر آکر عوام کے بہت سے مطالبات تسلیم کرنے اور تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کرنا پڑا۔سعودی بادشاہ نے اس وقت تنخواہوں میں اضافے اور بے روزگاری الاؤنس کو 300 ڈالر کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اس لئے بھی ہو سکا کیونکہ اس وقت عرب دنیا میں ایک انقلابی تحریک چل رہی تھی۔ اور سعودی عرب کی ریاست اس تحریک سے خوف زدہ تھی اور اس لئے اسے یہ سب مطالبات وقتی طور پر تسلیم کرنے پڑے۔
عین ان دنو ں سعودی اساتذہ نے ملازمتوں پر مستقل کرنے کی تحریک شروع کی اور ریاض میں وزارتِ تعلیم کے دفاتر کے باہر مظاہرے کیے،جسے انتہائی بیدردی سے کچلا گیا اور بہت سے اساتذہ کو گرفتار کیا گیا۔ مگر بعدازاں STCکی ہڑتال کے بعد انہیں اس خوف سے چھوڑ دیا گیا کہ کہیں کوئی بڑی تحریک نہ بن جائے۔
گزشتہ سال ہونے والی اساتذہ کی ہڑتال اور ان کے مظاہرے جو کہ وزارت تعلیم کے دفتر کے باہر ہوئے اس میں ان کے مطالبات میں جو سر فہرست تھا وہ ملازمتوں پر مستقل کیا جانا اور مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ تھا۔ اس مظاہرے میں مرد اساتذہ کے ساتھ ساتھ خواتین اساتذہ بھی شریک تھیں۔
اس کے علاوہ سعودی عرب میں موجودہ بحران کے باعث بحرین کی سرحد پر واقع قطیف نامی شہر میں عوام اپنے مطالبات کے لیے پر امن تحریک چلا رہے تھے، مگر سعودی حکومت کی جانب سے ان پر پرتشدد حملے کیے گئے۔ کئی بار ان پر فائرنگ کی گئی اور اس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں، قطیف کے لا تعداد نوجوان سعودی جیلوں میں طویل عرصے سے قید ہیں مگر سعودی حکومت نہ ان پر کیس چلا رہی ہے اور نہ ہی انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔ ایک بار قطیف میں ایک اجتماعی مظاہرے پر پانی میں تیزاب ملا کر کے لوگوں پر پھینکا گیا جس کے نتیجے میں کئی لوگ جھلس گئے۔ گزشتہ سال صفوا نامی شہر میں جو کہ مشرقی صوبے میں واقع ہے، وہاں درجنوں نوجوانوں نے مظاہرہ کیا اور ان افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں 1996ء میں خوبرنامی شہر میں امریکیوں کی بیرکوں پر حملے کے شک میں گرفتا ر کیا گیا۔ اس طرح قطیف میں ایک مظاہرہ ہوا جو کہ معاشی مسائل پر مبنی تھا، جس میں لوگوں نے بینر اٹھائے ہوئے تھے جس پر لکھا تھا
No Sunni ……….. No Shia………. We all for Freedom
قطیف کی آبادی کی اکثریت شعیہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور وہاں موجود تحریک کو حکمران فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیکن بینر کی یہ عبارت واضح کرتی ہے کہ یہ تحریک بحرین کے انقلاب کی طرز پر طبقاتی بنیادوں پر ابھر رہی ہے اور عوام میں فرقہ وارانہ تعصب موجود نہیں۔
اس طرح خواتین نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں ریاض شہر میں مظاہرہ کیا جس میں 60سے زیادہ خواتین شریک ہوئیں۔
گزشتہ سال 11مارچ کو سعودی عرب میں موجودہ سٹیٹس کو اور معاشی حالات سے تنگ نوجوانوں نے انٹرنیٹ پر موجود رابطوں کے ذریعے ملک گیر مظاہرے کی کال دی اور ریاض شہر میں مرکزی مظاہرے کا اعلان کیااس مظاہرے کے مطالبات میں عرب انقلابات کیساتھ اظہار یکجہتی، بحرین میں سعودی مداخلت کا خاتمہ اور انقلابیوں کے خلاب فوج کے ایکشن کو روکنا شامل تھا۔ اس دن کو Day of rageکا نام دیا گیا۔ اس دن کوئی مظاہرہ تو نہ کیا گیا مگر اس کال سے جو خوف و ہراس ریاست اور اس کی مشینری میں دیکھا گیا ایسا سعودی عرب میں پہلے کبھی نہ تھا۔ اس دن ریاض شہر میں کرفیو کا ساسماں تھا ہر جگہ ایجنسیوں، فوج اور پولیس کے لوگ موجود تھے، ایسا لگتا تھا جیسے شہر پہ کوئی بیرونی قبضہ ہونے والا ہے۔
2011ء ہی کے بڑے واقعات میں ایک واقعہ جدہ میں ہونے والا مظاہرہ تھا۔ جدہ سعودی عرب کے معاشی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ 2011ء کے سیلاب میں یہ شہر ڈوب گیا۔ 5-6گھنٹے کی بارش میں پورا جدہ شہر ڈوب چکا تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق 75سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔
اس سیلاب نے ریاست کے ترقیاتی کاموں کا پول عوام پر کھول دیا۔ سعودی عوام اس وقت تیونس اور مصر کے انقلاب کے بعد شعوری طور پر دہائیوں کا سفر بھی طے کر چکے تھے۔ ان کی شعوری سطح چند ماہ پہلے جیسی نہ رہی، نتیجتاًجدہ کے گورنر ہاؤس کے باہر ہزاروں افراد کا مظاہرہ ہوا، اور اس مظاہرے کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔ مگر مظاہرین اگلے روز پھر موجود تھے، تین دن تک یہ ہوتا رہا، چوتھے دن ریاست کو گرفتار مظاہرین کو رہا بھی کرنا پڑا اور یہ اعلان کرنا پڑا کہ لوکل سطح پر جلد انتخابات کروائے جائیں اور لوکل گورنمنٹ کو منتخب نمائندوں کے حوالے کیا جائے گا۔ مگر یہ اعلان کب پایہ تکمیل کو پہنچے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
گزشتہ سال کے بڑے دو واقعات میں خواتین کی بغاوت بھی ایک بڑا واقعہ ہے۔ خواتین جو کہ ایک لمبے عرصے سے حقوق سے محروم ہیں۔ عرب انقلاب کے نتیجے میں انہوں نے مختلف عرب تحریکوں سے طاقت حاصل کر کے ہوئے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ جس میں سرفہرست مطالبات
1۔ معاشی آزادی (کاروبار یا ملازمت کا اختیار )
2۔ڈرائیونگ کی اجازت
3۔محرم کی شرط کا خاتمہ
اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے مطالبات ہیں جن کی ایک لمبی تفصیل ہے۔
مختصر یہ گزشتہ سال خواتین نے ایک یوم بغاوت منانے کا اعلان کیا اور کہا کہ 17جون ’’یوم بغاوت‘‘کو خواتین سڑکوں پر خود گاڑیاں چلائیں گی۔ اور متعدد خواتین نے 12جون کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی چلائی اور ویڈیوبنا کر یو ٹیوب پر بھی شئیر کرد ی۔ یہ ایک علامتی احتجاج تھا مگر سعودی حکومت جو کہ عرب انقلابات سے انتہائی خوفزدہ تھی نے اعلان کیا کہ ان مسائل پر حکومت غور کرے گی، اور ایک مطالبہ کسی حد تک مانا کہ خواتین کے ملبوسات کی دکانوں پر خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی گئی مگر ایسے معاشرے میں خواتین کو آزادی کہاں تک مل سکتی ہے جہاں مرد بھی آزاد نہ ہوں۔
اسی طرح بہت سے مزید ایسے واقعات اس ملک میں ہرروز ہوتے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ پر سے بھی انہیں عائب کروایا دیا جاتا ہے۔
عرب انقلاب نے بہت سے فرعونوں کے تخت الٹے ہیں اور ان میں حسنی مبارک ‘ قذافی ‘ تیونس کا بن علی‘ یمن کا محمد صالح شامل ہیں۔ شام اور اردن اور بحرین میں تحریکیں ابھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ عالمی معاشی بحران کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا۔ آنے والے عرصے میں یہ مزید گہرا ہوگا۔ایسے میں رجعتی حکمران طبقات کے خلاف عوام کا غم وغصہ مزید ابھرے گا اور مختلف شکلیں لیتا ہوا انقلابات کی شکل میں اپنا اظہار کرے گا۔
سعودی عرب میں دہائیوں سے قائم بادشاہت کی بنیادیں عرب انقلاب نے ہلا دی ہیں۔ آنے والے عرصے میں عوامی طوفان اس کو مزید کمزور کریں گے اور انقلابی تبدیلی کا نقطہ آغاز بنیں گے۔