’’قومی سلامتی‘‘ اور ’’مصالحت کی سیاست‘‘

[تحریر: لال خان]
سیاسی بازار میں ایک مرتبہ پھر ’’قومی سلامتی‘‘ کا منجن بیچا جارہا ہے۔ 1968ء اور اس کے بعد کے چند سالوں کی عوامی، انقلابی اور نظریاتی سیاست کے سوا، پچھلی چھ دہائیوں کے دوران عوام پر حکمرانوں کی سیاست ہی مسلط رہی ہے۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کا نعرہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے حکمران حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے قوم پرستی اور قومی شاونزم پر مبنی ایسے ہی نعروں کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کی ’’قومی سلامتی‘‘ چونکہ ہمیشہ سے ہی خطرے میں رہی ہے لہٰذہ اس نعرے کی افادیت بھی برقرار ہے، بلکہ بڑھتی ہوئی سماجی اور معاشی تباہی کے ساتھ ’’قومی سلامتی‘‘ کے شور میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
آج کل’’مصالحت کی سیاست‘‘ کا بھی فیشن چل نکلا ہے، بلکہ یہ ’’مصالحت‘‘ تو اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ زرداری صاحب نے اپنے آخری بیان میں یہ تک کہ دیا ’’نواز شریف کی قیادت میں ملک کو مضبوط بنائیں گے‘‘۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کو لاحق خطرات کے پیش نظر ’’مصالحت کی سیاست‘‘ تحت منعقد ہونے والی ایک اور ’آل پرٹیز کانفرنس‘ (APC) میں ایک اور قراردار ’’متفقہ‘‘ طور پر پاس ہوئی ہے جس پر ہمیشہ کی طرح کبھی عملدرآمد نہیں ہوسکے گا۔ طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں عسکری اور سیاسی قیادت کے ایک ’’پیج‘‘ پر اکٹھے ہونے کو میڈیا حکمرانوں کے بہت بڑے ’’کارنامے‘‘ کے طور پر پیش کررہا ہے، تاہم بری خبر یہ ہے کہ ’’طالبان‘‘ کے ڈیڑھ دو درجن گروہ فی الحال ایک پیج پر اکٹھے نہیں ہوئے ہیں! اغواہ برائے تاوان، منشیات، بھتہ خوری، سمگلنگ اور اس طرح کے دوسرے دھندوں میں ملوث ان گروہوں کو مختلف ریاستی اور سامراجی عناصر کی سرپرستی حاصل ہے اور ان کی وفاداریاں بوقت ضرورت بدلتی رہتی ہیں۔ اس گھن چکر میں ’’طالبان‘‘ کو ایک اکائی سمجھ کر ان سے مذاکرات کی باتیں عوام کے ساتھ سراسر دھوکہ دہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان مصالحتوں، اتحادوں اور ان کے نتیجے میں بننے والی مخلوط حکومتوں کا سلسلہ کوئی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ یہ عمل سوویت یونین کے انہدام اور چینی افسر شاہی کی سرمایہ دارانہ زوال پزیری کے نتیجے میں بائیں بازو کے رہنماؤں اور دانشوروں میں پھیلنے والی مایوسی اور نظریاتی شکست خوردگی کا نتیجہ تھا۔ اس عہد میں مصالحت پر مبنی ایک نئی طرز کی سیاست شروع ہوئی۔ سوویت یونین میں ’’سوشلزم‘‘قائم ہوجانے کی غلط فہمی میں مبتلا بائیں بازو کے یہ دانشور یا تو حقیقتاً جاہل تھے یا پھر شعوری طور پر نظریاتی بے ایمانی کررہے تھے۔ بالشویک انقلاب کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے سوویت یونین کے انہدام سے کئی دہائیاں پیشتر وہ شرائط لکھ دیں تھی جن کے پورا نہ ہونے کی صورت میں انقلاب کی تنزلی ناگزیر تھی۔ لینن نے جولائی 1921ء میں کامنٹرن (تیسری انٹرنیشنل) کے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ اگر یہ انقلاب جرمنی اور یورپ کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں نہیں پھیلتا تو زوال پذیرہو کر رہے گا۔ اسی طرح لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی عظیم تصنیف ’’انقلاب سے غداری‘‘ میں واضح کردیا تھا کہ سوویت یونین کا انہدام کیسے اور کیونکر ہوگا۔ بہرحال، ماسکو کو اپنا قبلہ ماننے والے یہ ’’عظیم کمیونسٹ‘‘ حضرات سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد راتوں رات سوشلزم سے ’’تائب‘‘ ہو کر این جی اوز اور سرمایہ دارانہ پارٹیوں میں غرق ہوگئے۔ پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کا تاثر دینے والے سوشل ڈیموکریٹ عناصر اور سٹالن اسٹ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے قیادتیں 1980ء کے اواخر تک عوام میں مقبول بائیں بازو کے پروگرام سے انحراف کر کے سرمایہ دارانہ نظام کی تابع اور آلہ کار بن گئیں۔
سامراجیوں کے پالیسی ساز ادارے سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت کے ساتھ ساتھ اس کی سیاست کو چلانے اور قائم رکھنے کے لئے بھی نت نئے طریقے اور ہتھکنڈے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ 1945ء سے 1990ء تک کے عہد میں چلی سے لیکر پاکستان تک، سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے اور عوامی بغاقتیں کچلنے کے لئے جابر آمریتوں کا استعمال امریکی سامراج کا وطیرہ رہا۔ 1953ء میں ایران میں سی آئی اے کے ذریعے صدر محمد مصدق کا تختہ الٹاگیاکیونکہ اس نے تیل کی برطانوی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا، 1973ء میں چلی میں سوشلسٹ صدر سلواڈور ایاندے کو فوجی بغاوت کے ذریعے قتل کروا دیا گیا، 1977ء میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر درندہ صفت فوجی آمر کی حکومت قائم کروائی گئی اور بعد ازاں 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروا دیا گیا۔ دنیا بھرکے ممالک میں در اندازی کر کے ’’ناپسندیدہ‘‘ حکومتوں کاخاتمہ کرنے والا امریکی سامراج آج ’’جمہوریت‘‘، انسانی حقوق‘‘، ’’امن‘‘ اور ’’مصالحت‘‘ کی سیاست کا سب سے بڑا علمبردار بنا پھر رہا ہے۔ لیکن دنیا بھر کے عوام اب جان چکے ہیں کہ امریکی سامراج کی عطا کردہ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ اپنے ساتھ لاکھوں انسانوں کو ہلاک یا اپاہج کرنے والے کروز میزائل، کلسٹر اور ڈیزی کٹر بم بھی لاتے ہیں۔ 1989ء کے اواخر میں فرانسس فوکویاما کا End of History (تاریخ کا خاتمہ) کا تھیسس سامراج کے وظیفہ خوار دانشوروں کے ذریعے دنیا بھر میں عوامی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں ناکامی کے بعد سی آئی اے کے ایک اور پروفیسر و سامراجی مفکر (جو ویت نام کے قصاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) سیموئل پی ہٹنگٹن کے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے رجعتی اور وحشیانہ نظرئے کادنیابھر میں کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے پرچار کیا گیا جس سے ایک طرف طبقاتی جڑت اور جدوجہد کو قدیم مذہبی تعصبات کے ذریعے توڑنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف سامراجی جارحیتوں اور مذہبی دہشتگردی کو فروغ دیا گیا۔ اسی عہد میں سامراج اور اس کے نظام کی وحشت کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو زائل کرنے کے لئے Reconciliation یا مصالحت کا نظریہ پروان چڑھایا گیا۔ اس نظرئے کا ’’موجد‘‘ امریکی صدر بل کلنٹن تھاجس نے اس زہریلی منافقت کے ذریعے عالمی طور پر محنت کش طبقے کے شعور کومجروح کرنے کی کوشش کی۔
آپسی سمجھوتوں کے تحت عوام سے لوٹی گئی دولت کی ’’جمہوری حصہ داری‘‘ کر کے حکمران ’’مصالحت کی سیاست‘‘ تو چمکا لیتے ہیں لیکن اس جمہوریت اور مصالحت کا ظلم و جبر مہنگائی، بے روزگاری، مفلسی، دہشتگردی اور بیماری سے بدحال رعایا کو ہی برداشت کرنا پڑا ہے۔ کراچی، بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں مصالحت کی اس سیاست کے سائے تلے آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس میں صرف غریب عوام کا ہی لہو بہہ رہا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ اس کالے دھن کی معیشت کے خاتمے سے مشروط ہے جس پر دہشتگردی کی صنعت چلتی ہے۔ دہشت گردی کے اس وسیع و عریض نیٹ ورک کو چلانے کے لئے پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو اس درندگی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کر کے منافعے کماتے ہیں؟ کیا ان کی شناخت نہیں ہوسکتی؟ یا پھر وہ بھی اس ’’مصالحت کی سیاست‘‘ میں حصہ دار ہیں؟ جس ریاست کی مشینری کرپشن کے زنگ سے کھوکھلی اور لاغر ہوچکی ہے وہ دہشت گردی کو بھلا کیسے ختم کرسکتی ہے؟ عوامی تحریکوں کو روکنے اور طبقاتی جدوجہد میں دراڑیں ڈالنے کے لئے مذہبی و فرقہ وارانہ منافرت اور تعصب کی آگ بھڑکانے والے’’ لبرل‘‘ اور ’’جمہوری‘‘ سیاستدان بھلا مذہبی جنونیت کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں؟
آج کے حکمرانوں کی آپسی لڑائیاں کسی نظریاتی تفریق پر مبنی نہیں ہوتیں۔ وہ لوٹ مار اور کرپشن میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے لڑتے ہیں چنانچہ ان کے درمیان مصالحتوں کے ساتھ ساتھ تضاد اور تصادم بھی چلتے رہتے ہے۔ ذرائع ابلاغ عوامی شعور کو حکمرانوں کے ان تماشوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ جس طرح اندھیرے اور روشنی کا ملاپ نہیں ہوسکتا اسی طرح محنت اور سرمائے کی کشمکش میں کبھی مصالحت نہیں ہوسکتی۔ یہاں ایک طبقے کا نفع دوسرے کا نقصان بن جاتاہے۔ محنت کشوں کی جیت سرمایہ داروں کی ہار ہوتی ہے۔ پچھلے لمبے عرصے سے حکمران طبقہ اپنی سیاست، ثقافت، تعلیمی نصابوں، مذہبی پیشواؤں، ٹیلی وژن ڈراموں، فرسودہ فلموں، کرکٹ اور دوسرے کھیل تماشوں، انسانیت کے ٹھیکیدار مخیر اور ’’نیک دل‘‘ حضرات اور اپنے دوسرے ریاستی اور سماجی اداروں کے ذریعے محنت کش طبقات کی اجتماعی سوچ کوانفرادیت اور خود غرضی کی غلاظت میں ڈبونے کی کوشش کرہا ہے، لیکن اذیتوں کے بھنور میں گھرے محنت کش عوام ہمیشہ کیلئے ڈوب نہیں سکتے، وہ مر نہیں سکتے۔ ۔ ۔ مٹ نہیں سکتے۔ ذلت اور رسوائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہر رات کے بعد ایک نئی سحر طلوع ہوتی ہے۔ ہر طبقاتی معاشرے میں طبقاتی بغاوت پھوٹ کر رہتی ہے۔ یہ کائنات کا قانون ہے۔ عوام کے دلوں میں اس وحشی نظام کے خلاف لاوا پک رہا ہے، یہ آتش فشاں بن کر پھٹے گا، سب مصالحتیں بھسم ہوجائیں گی۔ نجات، آزادی اور خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔