مذہب کا سیاسی روپ

[تحریر: لال خان]
سوویت یونین کے انہدام، چین میں سرمایہ دارانہ رد انقلاب اور مزدور تحریک کی وقتی پسپائی کے بعد عالمی سطح پر جو نظریاتی اور سیاسی خلا پیدا ہوااس کا سب سے زیادہ فائدہ مذہبی سیاست اور بنیاد پرستی کے رجحانات نے اٹھایا۔ آج اسلام، یہودیت اور عیسائیت سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بنیاد پرست گروہ دنیا بھر میں مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ، عرب اور مسلمان ممالک میں بالخصوص یہ فرقہ وارانہ کشت و خون شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ قدیم خطہ لیوانت میں ISIL (موجودہ ’’ریاست اسلامی‘‘) کے سیاہ ابھار سے لے کر پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی نہ ختم ہونے والی خونریزی تک، سامراج کے پیدا کردہ یہ بے قابو جنونی دیو انسانی سماج کو بربریت کی اندھی وادی میں غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس عفریت کو جنم دینے والے سامراج آقا، آج انسانیت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور کارپویٹ میڈیا اپنا پورا زور سامراج کو ’’بنیاد پرستی کا دشمن‘‘ ثابت کرنے پر لگا رہا ہے۔
’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ (Clash of Civilizations)کا فرسودہ اور انسان دشمن نظریہ ’’ویت نام کے قصاب‘‘ اور سی آئی اے کے عیار نظریہ دان سیمول پی ہٹنگٹن نے 1992ء میں اپنے ایک لیکچر میں پیش کیا تھا۔ 1996ء میں موصوف نے اس موضوع پر ایک کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم اور ورلڈ آرڈر کی ترتیب نو‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ اس من گھڑت نظرئیے کاخلاصہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد کے عالمی منظر نامے میں تنازعات کی بنیاد مذہبی شناخت ہوگی۔ دنیا کا ہر نظریہ کسی طبقے یا سماجی گروہ کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ سی آئی اے کا یہ نظریہ، جسے مذہبی اور خاص کر اسلامی بنیاد پرستوں نے آسمانی حکم کی طرح قبول کیا، دراصل مذہبی تضادات کو ہوا دے کر محنت کش عوام کو تقسیم اور طبقاتی جدوجہد کی ابھرتی ہوئی لہروں کو زائل کرنے کی گھناؤنی واردات تھی۔ مذہبی بنیاد پرستی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہے لیکن سرمایہ داری اور سامراج نے اپنے مفادات کے تحت شعوری طور پر اسے نیا سیاسی کردار عطا کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار سے برآمد ہونے والے سماجی تعلقات اور تیسری دنیا کے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں اس نظام کے تحت ہونے والی انتہائی غیر ہموار ترقی، رجعت کے ادوار میں وہ زرخیرز معروضی حالات فراہم کرتی ہے جن میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب کی فصل خوب پھلتی پھولتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی کی جڑیں اگرچہ ماضی بعید میں پیوست ہیں لیکن ماضی قریب میں اس کی کئی ’’جدید‘‘ شکلیں بھی نمودار ہیں۔
تخلیق کے 67 سال بعد بھی وہ مقاصد اور نظریاتی بنیادیں متنازعہ ہیں جن پر یہ ملک قائم ہوا تھا۔ لبرل جناح صاحب کو سیکولر ثابت کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ریاست اور ملا اشرافیہ کا ایک وسیع دھڑا پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست قرار دیتا ہے۔ دونوں گروہ جناح صاحب کی مختلف تقاریر کو دلائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ’’اسلامی ریاست‘‘کا نعرہ لگانے والے سیاسی یا نیم سیاسی ملا خود فرقہ وارانہ، نظریاتی اور ’’مالیاتی‘‘ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم ہیں۔ مذہب کا کوئی ’ورژن‘ ایسا نہیں ہے جس پر سب متفق ہوں۔ ریاست کی نوعیت پر اٹھنے والے یہ غیر حل پزیر سوالات اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ تاریخی طور پر تاخیر زدہ اور مالیاتی طور پر نحیف اس ملک کا حکمران طبقہ چھ دہائیوں میں بھی ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست، یکجا قوم اور صحت مند معیشت تعمیر نہیں کر پایا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ’’آزاد‘‘ ہونے والے نوآبادیاتی ممالک کے ’’غیر ہموار اور مشترک‘‘ طرز ارتقا کا مشاہدہ پاکستان میں بخوبی کیا جاسکتا ہے جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی اور بھیانک پسماندگی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ جدید گاڑیاں خستہ سڑکوں پر رواں دواں ہیں، ہاتھ میں موبائل ہے مگر پیر میں جوتی نہیں اور جدید ترین موٹر وے سے چند سو فٹ کے فاصلے پر آباد انسان کسی اور ہی صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی لحاظ سے پاکستان ایک دیہی سماج ہے۔ تیزی سے پھیلنے والے شہروں پر بھی دیہی ثقافت کی چھاپ واضح ہے جس کی وجہ دیہات سے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہجرت ہے۔ خستہ حال سماجی اور معاشی انفراسٹرکچر میں آبادی کے اس بہاؤ کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
ہزاروں سالوں سے اس خطے کے دیہات سیکولر ثقافت اور طرز زندگی کا گہوارہ رہے ہیں۔ چند دہائیاں پہلے تک دیہات کے مولوی یا مذہبی پیشوا کا سماجی مرتبہ ثانوی اور معاشی حیثیت قابل رحم ہوا کرتی تھی۔ 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والی کالے دھن کی ریل پیل اور ریاستی سرپرستی میں لڑے جانے والے ڈالر جہاد نے مذہب کے سماجی کردار کو ہی بدل دیا ہے اور ملا سائیکل سے اتر کر لینڈر کروزر گاڑیوں پر چڑھ بیٹھا ہے۔ سماج جتنا بدحال ہوا ہے، مذہب کے ٹھیکیدار اسی تناسب سے ’’خوشحال‘‘ ہوئے ہیں۔ یہاں کی مسخ شدہ سرمایہ داری کے تحت دیہاتوں میں آنے والی ’’جدیدیت‘‘ بھی انتہائی بدنما اور جعلی ہے۔ سرمائے کی سرایت نے دیہات کی زندگی کے اشتراکی پہلو اور رنگین ثقافت کو برباد کر دیا ہے۔ فطرت کا حسن بگڑ گیا ہے، معاشی حالات بد تر ہوئے ہیں اور شعوری پسماندگی بڑھی ہے جس نے فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے کاروبار کے لئے سازگار حالات فراہم کئے ہیں۔ مذہب غربت کو قناعت اور صبر کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ معاشی، سماجی اور ثقافتی گراوٹ کے ان ادوار میں کسی مذہبی یا فرقہ وارانہ گروہ سے وابستگی، سماج کی پسماندہ اور بیگانہ پرتوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور طالبان جیسے مذہبی سیاست کے رجحانات کا تعلق سنی اسلام کے دیوبندی اور اہلحدیث مکتبہ فکر سے ہے۔ گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران بریلوی عقائد سے وابستہ بہت سے مسلح اور غیر مسلح گروہوں کی فرقہ وارانہ اور مین سٹریم سیاست میں شمولیت بھی بڑھی ہے۔ برصغیر میں شیعہ مسلک کے رجحانات کا بڑا ماخذ ایران رہا ہے۔ دیوبندی تحریک کا آغاز 1866ء میں اتر پردیش کے شہر دیو بند میں قائم ہونے والے ’دارلعلوم‘ مدرسے سے ہوا تھا اور یہ مکتبہ فکر 16ویں صدی میں نجد سے ابھرنے والی وھابیت کے نظریات سے قربت رکھتا ہے۔ تصوف سے متاثر بریلوی تحریک کا ماخذ بیسویں صدی کے آغاز میں اتر پردیش کے شہر بریلی میں قائم ہونے والا مدرسہ ’منظر اسلام‘ ہے۔ بریلوی مسلک کے طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک (PAT) دراصل دائیں بازو کی اصلاح پسند ی اور مذہب کا ملغوبہ ہے۔
مذہبی جماعتیں اور فرقہ وارانہ گروہ اپنی مالی آمدن اور سماجی بنیادوں میں اضافے کے لئے فلاحی کاموں اور قدرتی آفات کے دوران امدادی کاروائیوں کو خوب استعمال کرتے ہیں۔ جماعت الدعوۃ اس معاملے میں سب سے زیادہ ماہر ہے۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں ہے بلکہ عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کا پرانا تنظیمی طریقہ کار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن طالبان کے خلاف وزیرستان میں فوجی آپریشن ہو رہا ہے ان ہی کے ہمدرد آئی ڈی پیز کیمپوں میں سر عام ’’امدادی‘‘ کام کر رہے ہیں۔
صرف دو دہائیاں پہلے تک پاکستانی آبادی کا وسیع حصہ یا تو فرقہ وارانہ شناخت سے بالکل لاتعلق تھا یا پھر لا شعوری طور پر بریلوی رجحانات سے وابستہ تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر تک فرقہ وارانہ تعصبات سماجی زندگی سے بالکل خارج تھے۔ بریلوی دیوبندی یا دیوبندی وھابی جھگڑا تو دور کی با ت شیعہ اور سنی گھرانوں کے تعلقات، دوستاں اور شادیاں معمول کا حصہ تھیں۔ خونخوار ضیا آمریت کے تاریک اور رد انقلابی عہد میں محنت کش عوام کی تحریک پسپا ہوئی اور سماج پر رجعت مسلط کی گئی۔ اپنے اقتدار کو نظریاتی بنیاد اور جواز فراہم کرنے کے لئے ضیا الحق نے ریاست اور سماج کی ’’اسلام آئزیشن‘‘کا عمل شروع کیا۔ سماجی بنیادوں اور عوامی حمایت سے محروم ملاؤں نے آمریت کا بھرپور ساتھ دیا اور بدلے میں ملنے والی ریاستی پشت پناہی کو ریاست اور سیاست میں جگہ بنانے اور مال کمانے کے لئے استعمال کیا۔ افغان ڈالر جہاد کے لئے درکار افرادی قوت کو پورا کرنے کے لئے ملک کے طول و ارض میں مدرسوں کا نیٹ ورک قائم کیا گیا جو آج بھی پھیلتا چلا جارہا ہے۔ عوام کو تقسیم در تقسیم اور مزدور تحریک کو پسا رکھنے کے لئے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ گروہوں کو پروان چڑھایا گیا۔ آمریت کی سیاسی فصیل کی طور پر حکمران طبقے کی روایتی جماعت مسلم لیگ کو ازسر نو ترترتیب دے کر مضبوط کیا گیا۔ آج رنگ برنگ کی کئی مسلم لیگیں (نواز، ق، عوامی، ضیائی) ضیا آمریت کی ہی سیاسی اولاد ہیں۔
یہ مذہبی جماعتیں اور بنیاد پرست دہشت گرد گروہ اپنے منشور اور عزائم پر ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ کی کتنی ہی ملمع کاری کیوں نہ کر لیں، ان کا معاشی پروگرام سرمایہ داری سے شروع ہو کر اسی میں ختم ہوجاتا ہے۔ ان کی مجوزہ ’’اصلاحات‘‘ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت، منافع اور منڈی کی معیشت پر مبنی اس نظام کو کبھی چیلنج نہیں کرسکتیں۔ بنیاد پرستوں اور سامراج کا تضاد جعلی ہے۔ کمیونزم اور بائیں بازو کے خلاف بنیاد پرستوں نے ہمیشہ سامراج کے داہنے ہاتھ کا کردار ادا کیا ہے۔ مذہب کی سیاست وہ سیاہ رجعت ہے جسے کچھ ریاستی دھڑوں نے کالے دھن کی آکسیجن پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ عوام کی انقلابی تحریک اور طبقاتی جدوجہد کا ابھار مذہبی سیاست کا حقیقی چہرہ خود ہی بے نقاب کر ڈالے گا۔ اپنے عقائد دوسروں پر مسلط کرنے، مذہب کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانے اور نجی زندگیوں میں دخل اندازی کرنے والوں سے حساب لیا جائے گا۔ محنت کش طبقے کی انقلابی فتح اس نظام کا خاتمہ کر ے گی جس نے مذہب کو طبقاتی استحصال اورمالی و سیاسی مفادات کے حصول کا اوزار بنا دیا ہے۔

متعلقہ:
’’طالبان‘‘ کا مفروضہ
ایک سکے کے دو رخ
5 جولائی: چار دہائیوں پر محیط یومِ سیاہ
سیاست اور دہشت کے کاروبار
اقلیتوں کا مقدمہ
درندگی کا راج