| تحریر: لال خان |
پاکستان اور دنیا کے اکثر ممالک میں عوام نام نہاد جمہوری سیاست کے تماشے سے بیزار ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں کئی ممالک خصوصاً سابقہ نو آبادیاتی خطوں میں انقلابی تحریکیں ابھریں۔ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے سامراجیوں نے جابر فوجی آمریتوں کا استعمال کیا۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں، خصوصاً سوویت یونین کے انہدام کے بعد سامراجی نام نہاد جمہوری حکومتوں کا طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ سابقہ بائیں بازو کا سرمایہ داری کے آگے گھٹنے ٹیک دینا اور اس کا مقصد عوام کو فریب دینا ہے۔ در حقیقت یہ جمہوریت امیروں کے لیے امیروں کی حکومت اور سرمائے کی آمریت ہی ہے۔
نام نہاد جمہوری حکومتوں میں ہونے والی سماجی اور معاشی بربادی کے بعد آج پاکستان میں عوام اشرافیہ اور ان کی سیاست سے لا تعلق اور متنفر ہیں۔ عوام میں عمومی طور پریہ تاثر بن چکا ہے جو کہ بالکل درست بھی ہے کہ جمہوریت کا یہ دکھاوا ایک فریب ہے اور معیشت، سیاست اور ریاست کے اصل فیصلے امریکہ اور دوسری سامراجی طاقتیں اور پاکستان میں ان کے کارندے اور نام نہاد ’’مخالفین‘‘ پہلے ہی پس پردہ کر چکے ہوتے ہیں۔ تمام اہم فیصلے، رہنما اصول، خارجہ اور داخلی پالیسیاں اور معاشی پروگراموں کا تعین اقتدار کے ایوانوں میں مقامی حکمران اور سامراجی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت ہی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ نام نہاد ’’جمہوری‘‘ حکومتوں کے حکمران بھی پہلے ہی طے کر لیے جاتے ہیں۔ انتخابات اور جمہوری ناٹک محض عوام کو فریب دینے کے لیے ہیں۔ عوام کا یہ ادراک نہ صرف مارکسی تجزیے سے درست ثابت ہوتا ہے بلکہ اب حکمران طبقے کے گنتی کے نسبتاً با صلاحیت بورژوا معیشت دانوں میں شامل پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے اپنی کتاب میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن یہ وزیر اعظم بھی سرمایہ دارانہ معیشت میں اپنی تمام تر صلاحیت اور قابلیت کے باوجود اپنے دور اقتدار میں پاکستان کے بوسیدہ اور متروک سرمایہ دارانہ سماج کو معاشی ترقی دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
حال میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’بینکاری سے پر خار سیاست تک‘ میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے بیان کیا ہے کہ کس طرح سے امریکہ پاکستان کے کرپٹ اور نااہل حکمران طبقے کے نمائندوں پر زور چلا کر اپنے سامراجی مقاصد کے لیے پالیسیاں تشکیل کرواتا ہے۔ شوکت عزیز کے مطابق نواز شریف کی جان بخشی اور مشرف اور بے نظیر کے درمیان ’شر اکتِ اقتدار کی ڈیل‘ امریکہ کے حکم پر ہی ہوئی تھی۔ لیکن شوکت عزیزچونکہ سرمایہ داری کی حدود سے باہر نہیں سوچ سکتا لہٰذا ما یوس ہو کر ’’استحکام اور بہتر حکمرانی کے لیے ملک کو صدارتی نظام حکومت اختیار‘‘ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس سے سیاست میں اس کی سادگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس نے نواب اکبر بگٹی کے متنازعہ قتل اور لال مسجد میں انتہا پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن میں مشرف کے کردار کے بارے میں لکھنے سے گریز کیا ہے، شاید اس کی وجہ اس کا محدود نوعیت اقتدار تھا۔ لیکن اس نے نواز شریف اور اس کے خاندان کی سعودی عرب ’جلا وطنی‘ کے معاملے میں اقتدار کی سیاست اور لالچ کو بے نقاب کیا ہے۔ نواز شریف کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمے کا سامنا تھا اورشوکت عزیز کے مطابق اسے بچانے کی پہلی اہم کوشش پاکستان میں قیام کے دوران امریکی صدر بل کلنٹن نے کی۔ بل کلنٹن کے اس دورے کی ’’نہ تو تصاویر کھینچی گئیں نہ ویڈیو بنائی گئی‘‘۔ شوکت عزیز کے مطابق بل کلنٹن نے مشرف سے کہا ’’بہت احتیاط برتیں؛ ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔ آپ کو لوگوں سے نظر ملانے کے قابل ہونا چاہیے…‘‘ مشرف نے تابعداری سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں کینہ پرور آدمی نہیں اور آپ کی بات سمجھ رہا ہوں۔ نواز شریف کی جان کو خطرہ نہیں ہو گا‘‘۔
شوکت عزیز کے مطابق بل کلنٹن کے ’’دورے کا سرکاری موقف واضح تھا۔ وہ نواز شریف کو معافی اور ملک چھوڑنے کی اجازت چاہتا تھا‘‘۔ کلنٹن کے دورے کے دو ہفتے بعد ہی نواز شریف پر دہشت گردی اور ہائی جیکنگ کا الزام ثابت ہو گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ’’اہم بات یہ ہے کہ اسے سزائے موت نہیں ہوئی‘‘۔ شوکت عزیز کے مطابق اقتدار کی اس سیاست میں ایک اور اہم کھلاڑی سعودی عرب تھا۔ کتاب کے مطابق ’’سعودی ولی عہد عبداللہ کے ایما پر رفیق حریری نے نواز شریف کی رہائی کے لیے مذاکرات کے عمل کا آغاز کیا اور نواز شریف سے بات کرنے کے لیے اپنے بیٹے سعد کو پاکستان بھیجا۔ سعد حریری کے دوروں کو کاروباری دورہ بنا کر پیش کیا جاتا اور وہ پاکستان پہنچنے پر سیدھا نواز شریف کو ملنے اٹک قلعے کے جیل میں جاتا تھا… نواز شریف کی جان بچانے اور اسے پاکستان سے باہر بھیجنے میں سعودی عرب اور امریکہ کا بنیادی کردار تھا‘‘۔
مشرف اور بے نظیر کی بدنام زمانہ ڈیل پر وہ لکھتا ہے کہ ’’کافی مشاورت کے بعد، امریکیوں نے مشرف کو تجویز دی کہ وہ آرمی چیف کی حیثیت سے مستعفی ہونے کے بعد صدارت کا عہدہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے جبکہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم ہو گی‘‘۔ پاکستا ن میں امریکہ کا سابق سفیر ’ریان کروکر‘ اس سارے عمل میں بہت زیادہ شریک تھا۔ اس نے شوکت عزیز کو بتایا کہ ’’فوجی حکومت ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتی تھی۔ ہم نے بے نظیر کو واپس لانے اور مشرف کو صدر برقرار رکھنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ اگر وہ قتل نہ ہوتی تو یہ چل سکتا تھا… (مشرف) ان مذکرات کو اپنی حکومت سے بھی خفیہ رکھ رہا تھا اور وہ آتے جاتے دبئی میں قیام کرتا جہاں بے نظیر رہائش پذیر تھی‘‘۔
شوکت عزیز لکھتا ہے ’’اکتوبر2007ء میں جب محترمہ بھٹو واپسی کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں تو کونڈلیزا رائس اس سارے عمل میں شامل ہو گئی۔ اس نے مشرف سے کہا کہ اسے (بے نظیر کو ) بغیر کچھ طے کیے بھی واپس آنے دو۔ اگر تم اس کی واپسی میں سہولت دو گے تو تم دونوں آپس میں تعاون کا راستہ تلاش کر سکتے ہو… کافی پس و پیش اور بات چیت، مس رائس اور بے نظیر کی دو گھنٹے کی فون کال جس میں امریکی وزیر خارجہ نے جنرل مشرف اور پی پی پی کی لیڈر کے درمیان کئی معاملات سلجھائے، کے بعد شرکتِ اقتدار کی ڈیل کا اعلان کیا گیا جس میں فوجی حکمران (مشرف) نے محترمہ بھٹو اور انکے ساتھیوں پر سیاسی اور کرپشن کے الزامات ختم کرنے کے لیے متنازعہ این آر او پاس کر کے ان کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار کی‘‘۔
شوکت عزیزکے یہ انکشافات ایک بار پھر راز فاش کرتے ہیں کہ جسے ایک ’’جمہوری تبدیلی‘‘ کہا جا رہا تھا اس کا عوام کی امنگوں اور فیصلوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ سامراجیوں اور پاکستان میں ان کے مکار کارندوں نے عوام کے مفادات، ان کی امنگوں اور سیاسی رجحانات کے ساتھ دھوکہ اور کھلواڑ کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت کے کہ نظام کے شدید بحران کی وجہ سے بعض اوقات مقامی لیڈر وں کو سامراجی منصوبوں کے بر خلاف جانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں سامراجی اپنے معاشی غلبے کی جکڑ کو استعمال کرتے ہیں اور اس نظام پر یقین رکھنے والا کوئی مقامی لیڈر جتنا بھی دلیر کیوں نہ بنے جلد یا بدیر سامراجی عزائم کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔
اس نظام میں کرپشن اور کالے و سفید سرمائے پر کھڑی اقتدر کی سیاست عوام کی جدوجہد اور ان کی سیاست پر حاوی ہے اور اسے کچلتی رہے گی۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست معیشت کا نچوڑ ہوتی ہے‘‘۔ سرمایہ داروں کی معیشت میں محنت کشوں اور عوام کی حقیقی سیاست ممکن نہیں ہے۔ مزدور جمہوریت اور عوام کے مفادات کی نمائندہ سیاست کے لیے طبقاتی جدوجہد کے ذریعے سرمائے کی معاشی اور سیاسی جکڑ کو اکھاڑ پھینکنا لازم ہے۔
متعلقہ: