[تحریر: قمرالزماں خاں]
انقلابی نظریات کے بغیر استوار سرگرمی خواہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو، وہ نہ تو دیرپا اثرات مرتب کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ دھرنوں کی سیاست کے پیچھے عوامل، متنازعہ بیان بازی کے باوجود مخفی نہیں رہے۔ ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ لینے والا نوازشریف ’’ہندوستان سے دوستی‘‘ اور ’’بغیر مداخلت کے افغانستان‘‘ کے عزم سے دستبردار ہوکر، خارجہ پالیسی کو ’’فیصلہ کن قوت‘‘ کے رحم وکرم پر چھوڑ کر، اپنی محدود ذمہ داریوں اورمحفوظ ’’بیرونی دوروں‘‘ کی مصروفیت میں محو ہوچکا ہے۔ قادری اپنی گزشتہ روش کے مطابق اپنی ’’چابی‘‘ پوری ہونے پر دھرنوں اور عمران خان کی معیت، دوستی کے دعووں، وعدوں اور بیان بازیوں سے منحرف ہوکر مختلف قسم کی کہانیوں کے مندرجات کا شکار ہوچکا ہے، اب اس کے جلسے خفت مٹانے کی ایک کوشش قراردئے جاسکتے ہیں۔ قادری کے اسٹیج پر اپنی قد وقامت کو ’’بونا‘‘ کرنے والے ماضی کے بیشتر ’’عظیم‘‘سیاسی زعماواپس گمنامی کی تاریکیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ شریف خاندان کے سابق حلیف اور ضیاالحق کے پروردہ چوہدری برادران نڈھال اور نیم جان سندھی قوم پرستی میں جان ڈالنے کے لئے اس ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کی نعرے بازی کرنے میں مشغول ہیں جس کو انہوں نے اپنے محسن و مربی، وردی والے پرویز مشرف کے ہمراہ بااختیار اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی ’’لفٹ‘‘ نہیں کرائی تھی۔ غیر نظریاتی سیاسی سرگرمیاں تضادات کو جنم دینے میں تامل نہیں کرتیں۔ پرویز مشرف باقیات، ریفرنڈم اور سات نکاتی پروگرام کی حمایت کرنے والے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ عمران خان لاڑکانہ میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت کررہا ہے اور پرویز الٰہی کالا باغ ڈیم بنانے کی ناگزیریت پر دلائل دے رہا ہے، یہی غیر نظریاتی اتحادوں کا انجام ہوتا ہے۔
عمران خان کے پاس سندھ کے کروڑوں لوگوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح متوسط طبقے کے نوجوانوں کی کچھ تعداد اور مڈل کلاس کے ہی آڑھتی، دوکاندار، نچلے اور بالائی سطح کے سرمایہ دار، جاگیردار اور زمین دار لاڑکانہ کے جلسے کی رونق بڑھانے کا باعث بنے۔ ایک چھوٹی سی تعداد ایسے غریبوں کی بھی ہے جو میڈیا مہم، سطحی بیان بازی اور جذباتی بڑھکوں سے مغلوب ہوکر ’’واقعتا‘‘ کسی قسم کی تبدیلی کی خواہش میں ان جلسوں میں آتے ہیں، ان کے دکھ اور زندگی کے کرب ان کو ہر در جانے پر مجبورکرتے ہیں۔ وہ صدیوں سے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کا خاتمہ اورتلافی چاہتے ہیں ۔ اس خواہش کی شدت نے ا ن کو اپنے دشمن طبقات کے پاس نجات کی تمنا لے کر جانے اور باربار دھوکہ کھانے کی سزا دی ہے۔
ضلع رحیم یارخاں، گھوٹکی، خیر پوراور دیگر اضلاع سے غوثیہ تنظیم اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اور لائے گئے شرکا کی تعداد کو زیر بحث لائے بغیر ہم اس جلسے کے پیغام اور اثرات کا جائزہ لیں تو یہ خاصے مایوس کن ہیں۔ یہ جلسہ ان حالات میں کیا گیا جب اندورون سندھ بالخصوص اور بالعموم پورے سندھ کے لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کی نااہلی، بدعنوانی، بدنظمی اور پارٹی قیادت کی آمریت سے پریشان اور نالاں ہیں۔ دیہی سندھ کا ایک وسیع حصہ علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہے۔ کروڑوں بے روزگاروں کی ایک فوج مایوسی میں شکست وریخت کا شکار ہوکر جرائم، منشیات، خودکشیوں، انتہا پسندی، قومی شاونزم، فرقہ واریت اور دیگرمنفی سرگرمیوں کا شکار ہورہی ہے۔ ناقص نظام تعلیم اور تعلیم کی مد میں رکھا جانے والا قلیل بجٹ اس عہد کی تعلیمی ضروریات کے تقاضوں سے کسی طور مماثلت نہیں رکھتا۔ سندھ کے گدی نشینوں، جاگیرداروں، وڈیروں، قبائلی سرداری نظام اور پسماندگی نے محنت کشوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ وڈیروں کی نجی جیلوں میں سسکتے ہوئے ہاری، کسان اور مزارعے، نجات دھندے کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ تھرکے کوئلے کے پہاڑوں میں مبحوس کان کن آج بھی ایک ’’ ترقی پسند پارٹی ‘‘ اور ایک لیبر فیڈریشن کے مرکزی عہدے دارکے تسلط میں صدیوں پہلے کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پھر تھر پارکر کے ریگستانوں میں ہزاروں خاندان پتھرائی ہوئی آنکھوں سے امید کی کسی کرن کو تلاش کررہے ہیں۔ اس دوران آمریتوں اورسرمایہ دارانہ جمہوریتوں کی میوزیکل چیئر کے کئی دور آئے اور آکر گزرگئے۔
سندھ کا المیہ زیادہ شدید ہے۔ آبادیوں کا توازن بدل جانے کی وجہ سے قدیم سندھی آبادی کراچی میں اقلیت میں بدل چکی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں مسٹر جناح کی شکل میں اور بٹوارے کے بعد پورے پاکستان پر، سندھ سے جنم لینے والی بہت سی قیادتوں کا طوطی بولتا چلا آتا ہے مگر سندھ کی پسماندگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ وہ سیاسی جگادری جو ’’جمہوریت‘‘ کے ’’وظیفے‘‘ کو اقتدارکے تسبیح دانوں پرپڑھنے سے فرصت نہیں پاتے، ان کے اپنے علاقوں میں ماضی قدیم کی قبائلیت، سرداری اور جاگیرداری کی وحشت خونی گدھ کی طرح پنجے گاڑے انسانیت کو نوچ رہی ہے۔ یہاں الیکشن تو الیکشن کمیشن والے کراتے ہیں مگر الیکشن کے اصول وضوابط، ووٹر کی اہلیت، جیتنے اور ہارنے کا تعین گدیوں اور جاگیروں پر براجمان زمینی قوتیں کرتی ہیں۔
اس تناظر میں عمران خان کا لاڑکانہ کا جلسہ شغل میلے، دھمکیوں اوربڑھکوں سے آگے بڑھ کر کوئی سنجیدہ پیغام نہ دے سکا۔ اسٹیج پر گدی نشین، جاگیر دار، سرمایہ دار، آمریتوں کی باقیات، محنت کشوں کے دشمن اور غریبوں سے نفرت کرنے والوں کے جھرمٹ میں عمران خا ن اور اس کی ’’ٹیم‘‘ پیپلز پارٹی پر حملہ کرتے ہوئے کوئی نیا نظریہ، فلسفہ، منشور، پروگرام دینے کی اہلیت سے عاری رہے۔ اگر زرداری اور اسکا بیٹا بھٹو کے فلسفے سے نابلد اور منحرف ہیں تو پاکستان تحریک انصاف اس فلسفے کے متضاد اور دشمن نظریات کی حامل ہے۔ اگر زرداری گالی کا مستحق قراردیا جاتا ہے تو اسی کردار، ذہنیت اور نظریات کے حاملین، عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے حضرات کو کن القابات سے نوازا جائے؟غریب کسانوں، بے بس ہاریوں، دکھوں اور مسائل سے چوُرمزارعوں کے سامنے جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، نادراکمل لغاری اور لاڑکانہ کے میزبان جاگیردار کو کھڑ اکرکے عمران خان کون سی ’’تبدیلی‘‘ لا رہا ہے؟تحریک انصاف کی ضلعی، صوبائی اور ملکی قیادت بھانت بھانت کے سیاسی لوٹوں اور ضمیر فروشوں کا ’’کباڑ خانہ‘‘نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ صاحبان پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور ہر قسم کے اقتداروں میں عیش وعشرت کرچکے ہیں۔ اگر غربت، بیماری، جہالت، پسماندگی، کرپشن اور نا انصافی کی ذمہ داری آصف علی زرداری اور نوازشریف پر ہے تو ان کی کابینہ اور پارٹیوں کا حصہ رہنے والے تحریک انصاف کے عہدے داران کو کس اصول کے تحت پاکباز قرار دیا جاسکتا ہے؟ مشرقی پاکستان میں مظلوم بنگالیوں کے قتل عام اور معصوم عورتوں کی آبروریزی کے بڑے مجرم جنرل عمر کے دو صاحبزادوں میں سے ایک نواز لیگ کی وزارت پر قابض ہے تو دوسرا پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی عہدے پر فائز۔ ایسی درجنوں مثالیں انگلیوں پر گنوائی جاسکتی ہیں۔
یہ دھرنے، جلسے، بیان بازیاں، ذو معنی جملوں کے تبادلے اور اقتدار تک پہنچنے کے راستے فراہم کرنے والی انتخابی اصلاحات کے مطالبا ت کاشور وغوغا اقلیتی طبقے کے تماشے ہیں تاکہ اکثریت کو اپنی قابل نفرت سیاست میں مشغول اور مصروف رکھ کرسرمایہ دارانہ نظام کے جرائم کو آڑ فراہم کی جاسکے۔ ’’قصوریوں‘‘ کے ہوتے ہوئے طبقاتی نظام تعلیم کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟خود تحریک انصاف کی ساری قیادت Chiefs College (سرداروں کا کالج، ایچی سن کا پرانا نام) کے ’’فیلوز‘‘ پر مبنی ہے۔ انکی نفسیات ہی غریب کو غریب اور امیر کو امیر تر بنانے کے فلسفے پر مبنی ہے۔ نجی تعلیم کی حقانیت پر یقین رکھنے والے تعلیم خریدنے کی سکت سے عاری لوگو ں کو کس طرح خواندگی سے ہمکنار کرسکتے ہیں؟اسی طرح جب تک علاج کا بیوپار موجود ہے، اسپتال اور ادویات ساز ادارے نجی ملکیت میں چل رہے ہیں، انسان کی اذیت پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے، بیماریاں ختم نہیں ہوسکتیں۔ جن کی شوگر ملوں میں انسان زندہ جل جائیں اور ذمہ داران کے خلاف سالہاسال گزر جانے کے باوجود کوئی انکوائیری کمیٹی تک نہ بنی ہو، وہاں سے کروڑوں لوگوں کو ’’انصاف‘‘ کی فراہمی کا نعرہ ایک مکروہ فریب نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر خواہش زرداری اور نواز کے نظام، یعنی منڈی کی معیشت کو قائم رکھنے کی ہے تو کون سی ’’تحریک‘‘ اور کیسا ’’انصاف‘‘؟ اس نظام میں اگر عمران خان بھی اقتدار میں آجائے تو بڑی اصلاحات تو دور کی بات، پینے کا صاف پانی تک فراہم نہیں کرسکتا۔ صاف پانی اگر ٹوٹی میں آئے گا تو پانی بیچ کر سینکڑوں ارب کمانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں کہاں جائیں گی؟
سندھ سمیت پاکستان بھر کے محنت کش عوام کو اپنی صفوں میں سے وہ سیاسی قوت اور انقلابی قیادت تیار کرنا ہوگی جس کا نظریہ اقلیتی سرمایہ داروں کے مفادات کی بجائے محنت کش طبقے کے مفادات کی تکمیل ہو۔ اس بھیانک سامراجی نظام کے تمام رکھوالوں کے نام اور پارٹیاں مختلف مگر عزائم اور اہداف ایک ہی ہیں۔ محنت کش طبقے کو سوشلسٹ انقلاب کے نظریات پربالشویک پارٹی تعمیر کرنا ہو گی تاکہ ہر ظلم کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالے سیاسی بہروپیوں کو حتمی شکست دے کر اکثریتی محنت کش طبقے کا راج قائم کیا جاسکے۔
متعلقہ: