[تحریر: لال خان]
اگرچہ میڈیا میں غضب ناک سیاسی لفاظی اور بحثوں کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کا سیاسی شور و غوغہ عروج پر ہے لیکن عام عوام سیاست سے بالکل لا تعلق ہیں۔ اس ہنگامے میں عوام گہرے سکوت میں ہیں اور ایسا بے سبب نہیں۔ سماج کو تاراج کرنے والی سیاست اور پالیسیوں میں کروڑوں عوام کی دلخراش محرومیوں کا کوئی حل نہیں۔ حل تو در کنار، سماج پر مسلط شدہ سیاسی بحثوں میں عوام کو درپیش مسائل، ان پر ڈھائے جانے والے مصائب اور ان کی تکالیف کی کوئی آواز ہی نہیں، ان کے متعلق کوئی گفتگو ہی نہیں۔ اگرچہ حکمران اس وقتی جمود کو ابدی سمجھ بیٹھے ہیں لیکن سطح کے نیچے اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔
اشرافیہ کی غالب سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی فرق مِٹتا جا رہا ہے اور یہ سب جس سرمایہ دارانہ نظام کے پجاری ہیں وہ بظاہر ایک ناقابلِ حل بحران میں گھر چکاہے۔ اس نظام کے منصوبہ سازوں کے پاس اس بحران سے جنم لینے والے معاشی زوال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ در حقیقت انہوں نے اس معاشی تنزلی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن گئے جب معاشی ماہرین، معیشت کو ترقی کی راہ پر لانے اور غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کی کم از کم کوشش ضرور کیا کرتے تھے۔ مایوسی اور پژمردگی کے اس عہد میں بورژوا ’’ماہرین‘‘ کے پاس آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تباہ کن نسخوں کو آنکھیں بند کر کے لاگو کرنے کے سوا لوئی چارہ نہیں ہے۔ در حقیقت نجکاری، ڈی ریگو لیشن، ری سٹرکچر نگ، لبرلائیزیشن اور کٹوتیوں کی پالیسیاں سماج کو برباد کرنے والی معاشی ابتری کو حل کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کر رہی ہیں۔
ضیا کی وحشت ناک آمریت میں1980ء کی دہائی سے لے کر بے ضابطہ (Informal) معیشت ایک سرطان کی طرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جو وقتاً فوقتاً معیشت کو سہارا بھی دیتی رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے اس طرح سے نقصان پہنچایا کہ معیشت کو کو کالے دھن کی لت پڑ چکی ہے۔ کالے دھن کے اس پھوڑے کا حجم اب مجموعی قانونی معیشت سے بھی بڑھ چکا ہے۔ کالے دھن کی سرمایہ کاری قلیل دورانیے کے لیے سہولیات (سروسز) اور سماجی شعبے میں کی جاتی ہے جہاں بے پناہ سماجی دولت کو لوٹا جا سکتا ہے۔ معاشی انتظام اور سرمایہ کاری کے ان طریقوں میں سماجی عدم استحکام اور انتشار کا بڑھنا نا گزیر ہے۔ پاکستان جس تشدد، دہشت اور جرائم کی لپیٹ میں ہے وہ اسی سماجی و معاشی ملغوبے کی پیداوار ہیں جس میں با ضابطہ معیشت اپنے سے بڑی بے ضابطہ معیشت کے ساتھ مدغم ہے جو ریاست کے کنٹرول، ٹیکسوں، آڈٹ اور جانچ پڑتال کی پہنچ سے باہر ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست معیشت کا نچوڑ ہوتی ہے‘‘۔ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اس کی معاشی بنیادوں کا عکس ہے۔ معاشی بنیادوں کے پر انتشار اور مہلک کردار کا نتیجہ بے قاعدگی سے با قاعدہ سیاسی ہیجانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے جن میں زیادہ تر دائیں بازو کے نعرہ باز پیٹی بورژوازی اور سماج کی پسماندہ پرتوں کے کچھ حصے وقتی طور پر متحرک ہونے کے بعد گوشہِ گمنامی میں کھو جاتے ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی اور اپوزیشن ایک دوسرے پر بے سرو پا الزامات لگا کر موجودہ کیفیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں جس میں وہ بے پناہ دولت کما رہے ہیں اور اس لوٹ مارکے نتیجے میں مجبور عوام پر لگنے والے زخموں سے بے پرواہ ہیں۔ وہ بہت تیزی سے مال لوٹنے میں مصروف ہیں کیونکہ انہیں اپنے معاشی نظام کے مستقبل پر کوئی بھروسہ نہیں۔
عوام کی وسیع اکثریت کو برباد کرنے والے سلگتے ہوئے حقیقی ایشوز کو حل کرنے میں حکمران اشرافیہ ناکام ہو چکی ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے عوامی شعور پر نان ایشوز کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن اور عبوری یانگران حکومت کے معاملے پر موجودہ کشمکش حکمران طبقات کے اندر لوٹ مار میں اپنا حصہ بٹورنے کے لیے اقتدار کے امید واروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ظاہر کر رہی ہے۔ نگران حکومت کا سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سخت ترین معاشی فیصلہ جات مثلاً آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کی ری شیڈولنگ کے معاہدے اور نئے قرضوں کا حصول اس سے وابستہ ہے۔ نئے قرضے کہیں زیادہ کڑی شرائط پر حاصل کیے جائیں گے۔ کٹوتی کے دیگر اقدامات کے علاوہ آئی ایم ایف روپے کی قدر میں بڑی کمی کا مطالبہ کرے گی جس کی قدر فی الوقت مصنوعی طور پر زیادہ رکھی گئی ہے۔ اس سے افراطِ زر میں تیزی سے اضافے کے ساتھ معاشی سرگرمی میں جمود آئے گا۔ تیزی سے ختم ہوتے زر مبادلہ کے ذخائر کے ساتھ قرضوں اور سود کی ادائیگیاں خزانے پر بہت بھاری ہیں۔ نو منتخب شدہ حکومت کو یہ تباہ کن اقدامات کرنا پڑیں گے جو کہ قوی امکان ہے کہ موجودہ حکومت کی نسبت زیادہ لاغر، زیادہ جماعتوں پر مشتمل اور زیادہ پر انتشار ہو گی۔ اس مرتبہ سامراجیوں اور حکمران طبقے کے ماہرین کے لیے انتخابات کے نتائج کو اپنی منشا کے مطابق موڑنا اور ایک پائیدار حکو متی اتحاد قائم کرنا بہت مشکل ہو گا۔
عدلیہ کی سرگرمی، مسلح افواج میں انتشار، پولیس اور سکیورٹی فورسز میں پھیلی مایوسی اور بیو رو کریسی میں دراڑیں ریاست کے اہم ستونوں کو لاحق مرض کی علامات ہیں جس کی وجہ سماج کا شدید معاشی اور سماجی بحران ہے۔ نگران حکومت کے دورانیے میں طوالت کی بحث اور انتخابات کے بارے میں ابہام حکمرا ن طبقات کے ٹوٹتے اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری مسلح بغاوت، کراچی میں غارت گری، ڈرون حملوں کی سامراجی جارحیت اور اسلامی بنیاد پرستی کی تاریک دہشت، ریاست کی ختم ہوتی عملداری کو عیاں کر رہے ہیں۔ اندرونی تضادات ریاست کی یکجہتی اور نظم و ضبط میں تناؤ ڈال رہے ہیں۔ جن طاقتوں سے اسے لڑنا چاہیے وہی اس کے اندر سے در پردہ حمایت پا رہی ہیں۔ انتہائی رجعتی عناصر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور ٹی وی پر بلا روک ٹوک زہریلی تقاریر کر رہے ہیں۔
زیادہ تر بورژوا تجزیہ نگار نا امید ی کا شکار ہیں اور ملک کے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔ وہ انتخابات کے دوران مزید خون خرابے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ جہاں حکمران طبقے کا عوام کی جانب رویہ تحقیر آمیز اور گھناؤنی بے حسی پر مبنی ہے وہیں عوام میں اس جابر نظام کے خلاف غصہ سلگ رہا ہے۔ عوام کے سامنے اس کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ عوام کے اوپر دو آسمان ہوتے ہیں۔ ایک نیلا آسمان اور اس کے علاوہ ایک پیلا آسمان بھی، جس پر سیاسی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور دوسرے شعبوں کے مشاہیر مختلف کھیل رچا تے اورتماشے کرتے ہیں۔ عام حالات میں عوام اس تماشے کے فریب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن پھر وہ وقت آتا ہے جب وہ اس پیلے آسمان کو نیچے کی بجائے اوپر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ تب ایک جھلک میں ہی حکمران طبقات کی غلاظت، منافقت، فریب، دھوکہ دہی اور حقیقت ان پر عیاں ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے محنت کش جب اس آسمان کو اوپر سے دیکھیں گے تو فریبِ نظرٹوٹ جائے گا اور سلگتی ہوئی نفرت حکمران نظام کے ہر میعار، اخلاقی قدر اور قانون کے خلاف ایک کھلی بغاوت کی شکل میں پھٹ پڑے گی۔ پاکستان میں یہ گھڑی تیزی سے قریب آ رہی ہے۔ اصل لڑائی کا آغاز تو تب ہو گا!