[تحریر:فارس]
حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ میں اس حوالے سے منفرد ہیں کہ ان کا انعقاد پاکستان کی تاریخ کے شدید معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں ہواہے۔ سماجی سطح پر عوام کے علاوہ حکمران طبقات بھی عین الیکشن کے انعقاد کے وقت تک بے یقینی کی کیفیت کا شکار تھے مگر انتہائی معاشی زبوں حالی، سیاسی انتشار اور ریاستی کمزوری کے سبب حکمرانی کے سب سے سستے طریقے پارلیمانی جمہوریت کا راستہ اپنایا گیا۔ فوجی جرنیلوں نے بھی کسی مہم جوئی کے بجائے پارلیمانی عمل میں بظاہرمعاونت کی پالیسی اپنائی اور یوں ایک ’اچھے‘، ’نیک‘ اور بزرگ چیف الیکشن کمشنر کی برکات سے الیکشن کا عمل ’’بخیر و عافیت‘‘ اختتام پذیر ہوا۔ الیکشن سے قبل میڈیا کا کردارالیکشن کے حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرتا رہا اور جعلی قومی جوش و خروش کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اب وہی اینکر پرسن قوم کو صبر، برداشت اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا واعظ کرتے نظر آرہے ہیں۔
جو بھی صورتحال ہمارے سامنے آئی اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی ریاست کی مستقبل کے حوالے سے تیاریوں کو سمجھا جا سکتا ہے اور نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مرکز میں ن لیگ کو واضح برتری ملی ہے تو پختونخواہ اور سندھ میں ن لیگ کو اپنی معاشی و سیاسی پالیسیوں اور انتظامی اعتبار سے اپنی نام نہاد حریف پارٹیوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ یعنی لوٹ کھسوٹ کی مفاہمتی پالیسی پچھلے پانچ سال کی طرح اب بھی جاری رہے گی۔ تاہم ن لیگی قیادت، جو اقدار کی پاسبانی کے دعویدار ہے، پیپلز پارٹی قیادت کے برعکس اعلانیہ مفاہمت کے بجائے خفیہ مفاہمت کا راستہ اپنانے کو ترجیح دے گی۔
الیکشن میں دوسری ’بڑی‘ سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے والی تحریک انصاف کی حقیقت میڈیاپرکئے جانے والے تبصروں، تجزیوں اور ’’تبدیلی‘‘ کے تاثر کے بر عکس دائیں بازو کے بحران میں پوشیدہ ہے۔ ن لیگ کے گردپیدا کی جانے والی خوش فہمیاں اور خوش گمانیاں جلد دم توڑ دیں گی لہٰذا آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کو ایک متبادل کے طور پر تیار کیا جارہا ہے۔ اگر چہ موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں تحریک انصاف کامتبادل کے طور پر ابھرنے کا کوئی زیادہ امکان نہیں ہے۔ خیبرپختونخواہ میں باقاعدہ حکومت بنانے سے پہلے ہی تحریک انصاف الیکشن مہم اور اس سے پہلے کئے گئے وعدوں اور دعوؤں سے پھر گئی ہے اور اس کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس پاکستان میں بسنے والے 18 کروڑ عوام کے مسائل کے حل کے لئے نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی اس کی قیادت نے عوام کے حقیقی مسائل پر کبھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی زحمت گوارہ کی ہے۔ تحریک انصاف بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے سیاست اور معیشت کو چلانے پر یقین رکھتی ہے۔ اگرمستقبل میں پاکستان کے محنت کشوں کی کوئی تحریک ابھرتی ہے تو وہ ریاست کے تیار کردہ جعلی متبادلوں کو مسترد کرکے اپنی ایک نئی قیادت تراشے گی۔
ایم کیو ایم کو بھی تقریباً 2008ء کے انتخابات جتنی ہی قومی اور سندھ اسمبلی کی نشستیں ملی ہیں مگراس کامیابی کے باوجود ایم کیو ایم شدیدداخلی اور سماجی دباؤ کا شکار ہے۔ ایک طرف وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر ایم کیو ایم کے اندرمختلف دھڑوں کے مابین لڑائی جاری ہے تو دوسری جانب سماجی حمایت میں گراوٹ مسلسل درد سر بنی ہوئی ہے۔ الیکشن کے بعد ایم کیو ایم کی دوبارہ تنظیم سازی اور بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ اس تلخ صورتحال کا اظہار ہے۔ ایم کیو ایم کی طرح دیگر مذہبی، قوم پرست اور علاقائی جماعتیں بھی اس جمہوری سرکس میں اپنی اپنی قیمت وصول کریں گی اور بدلے میں ان سے قومی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو سماج پر مسلط رکھنے کا کام لیا جائے گا۔
حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ووٹوں کے اعتبار سے پہلے سے تیسرے نمبر پر جا پہنچی ہے۔ پیپلز پارٹی کی شکست پچھلے پانچ سالہ دور اقتدار میں عوام دشمن پالیسیوں اور اقدامات کا نتیجہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی شکست پر دواہم ردعمل سامنے آئے۔ میڈیا نے فوری طور پر تاثر دینا شروع کر دیا کہ پیپلز پارٹی اب صرف سندھ کی پارٹی بن گئی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی قیادت نے اگرچہ کسی ٹھوس رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا تاہم پارٹی کی شکست کو ملکی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی طاقتوں کے سر منڈھنے کی کمزور سی کوشش ضرور کی گئی۔ یہ دونوں نقطہ نظر ادھورے ہیں۔ محنت کشوں نے پارٹی کی موجودہ قیادت کی کارکردگی اور پالیسیوںں کو مستردضرور کیا ہے مگر جس روایت کو محنت کشوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اپنے خون سے سینچا ہے اس کی بنیادیں کمزور سہی لیکن موجود ضرور ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف اگر اسٹیبلشمنٹ کی ’’سازشوں‘‘ کی بات کی جائے تو پارٹی قیادت نے گزشتہ پانچ سالوں میں اسٹیبلشمنٹ اور عالمی سامراج کی دلالی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، شکست کی ایسی بھونڈی توجیحات پیپلز پارٹی قیادت کی دھوکہ دہی کی نفسیات کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سے لے کر آج تک جو بھی پارٹی قیادت سامنے آئی اس نے محنت کش طبقے سے غداری کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو مسلط اور جاری رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ پیپلز پارٹی کے مستقبل کا حتمی فیصلہ آنے والے عرصے میں پارٹی کے اندر جنم لینے والے تنازعات، ملکی و عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور سب سے بڑھ کر محنت کشوں کی تحریک ہی کرے گی۔
نئے حکمرانوں کے گرد مڈل کلاس دانشوروں کی جانب سے قائم کی گئی خوش گمانیاں اور خوش فہمیاں جلد دم توڑ دیں گی۔ بے روزگاری، غربت، لاعلاجی اور پانی، بجلی اور گیس کے بحران کا کوئی حل اس نظام میں موجود نہیں ہے۔ پاکستانی معیشت کا پہیہ پھرسامراجی اور ملکی بینکوں سے حاصل ہونے والے قرضوں سے چلے گا۔ معیشت بحال ہونے کے بجائے مزید بحران میں دھنستی چلی جائے گی۔ اگر نجکاری کے ذریعے قومی اداروں کو نیلام کیا گیا تو محنت کش اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے اور اگر حکمران نجکاری کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو یہ بھی مزید غربت اور بے روزگاری کا سبب بنے گی۔
سٹاک ایکسچینج کے بنتے ٹوٹتے ریکارڈ پاکستان کے لوگوں نے پہلے بھی دیکھے ہیں۔ سٹے بازی کے اس اتار چڑھاؤ کاخط غربت سے نیچے رہنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بار بھی انڈیکس کے بلند اعشاریے دولت مندوں امیر تر کریں گے مگر محنت کشوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں ہوگی۔ میٹرو بس، ہاؤسنگ سکیمیں اور اس طرح کے دیگر نمائشی منصوبے شروع کئے جائیں گے مگر ان کا مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا نہیں بلکہ افسر شاہی کی موٹی توندوں کو بھرنا ہے جن پر ان حکمرانوں کے اقتدار کا انحصار ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہوں وہاں اقتدار حاصل کرنا آسان ہوتا ہے مگر اقتدار قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ محنت کش طبقہ نتائج اخذ کرتے ہوئے مختلف مراحل سے گزر رہا ہے۔ اگرآنے والے دنوں میں محنت کش طبقے کی تحریک اپنا اظہار کرتی ہے تو اسے قیادت کی غداریوں کے ذریعے زائل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ مارکسسٹوں کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے ان کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لیں محنت کشوں کی انقلابی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے انہیں انقلاب کے لئے منظم کریں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس پر چلتے ہوئے محنت کش طبقے کی نجات کی ضامن ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر اور تخلیق کی جا سکتی ہے۔ آگے بڑھو مستقبل سوشلزم کاہے!