[تحریر : لال خان، ترجمہ: فرہاد کیانی]
پاکستان کے مجبور و محکوم عوام پر چھائی سیاسی بے حسی، سماج میں سرائیت شدہ گہری پژمردگی اور نا امیدی کا اظہار ہے۔آج سے پانچ برس قبل 18اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی سے واپسی نے عوا م میں ایک نئی امید جگا دی۔ کراچی میں ہونے والا عظیم استقبال اوراس کے بعد کی انتخابی مہم نے جو ایک شہ زور تحریک کی شکل اختیار کر گئی، اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال پربا کر دیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں رجعتی حلقوں نے اس طوفان کے مرکز کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بے نظیر بھٹو اس وحشیانہ انتقام کا نشانہ بن گئی اور سامراجی بروکر اور ریاست میں موجود اصلاح پسند ششدر اور خصی تماشائی بنے رہ گئے۔ اس نظام اور ریاست کے لیے خطرہ بنتی تحریک سے وہ بھی کچھ کم خوفزدہ نہیں تھے۔تاہم، واشنگٹن اور لندن میں موجود آقاؤں کے پاس اس صورتحال کے لیے متبادل منصوبہ موجود تھا۔ سی آئی اے کے شاطر اہلکار زلمے خلیل زاد نے تحریک کو سوگ اور مایوسی کی گہرایوں میں دھکیلنے کے لیے اقتدار کی منتقلی کا بندوبست کیا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتائج ’مصالحت‘ کی سامراجی پالیسی کی روشنی میں واشنگٹن میں تیار کیے گئے۔ ایک مخلوط حکومت بنائی گئی جس کا مقصد پہلے سے بدحال کروڑوں پاکستانی عوام پر انتہائی وحشیانہ معاشی اور سماجی حملے کرنا تھا۔
پانچ برس بعد بھی محنت کش عوام جمہوری رد انقلاب کی شکل میں اس کرب ناک شکست کے ا ثرات سے مکمل طور پر باہر نہیں آ سکے۔ بے نظیر مہنگائی، بے روزگاری، غربت، مشقت، تشدد، قلت، دہشت گردی کا ستم اور ریاستی جبر نے سماج کو تاراج اور عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ عوام کو ان کے مصائب سے نجات دلانے کے لیے اس وقت سیاسی افق پر کوئی حقیقی متبادل نہیں ہے۔ حالیہ واقعات سے بے حد تشہیر شدہ نجات دہندہ عمران خان مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ گلیمر، انصاف، ایمانداری اور لبرل ازم کا باریک لبادہ چاک ہو گیا ہے اور قدامت پرستی اور دائیں بازو کے شاونزم کا حقیقی چہرہ سامنے آ گیا ہے جس میں بنیاد پرستانہ جنونیت کے رجحانات شامل ہیں۔ مسلم لیگوں کے بشمول دوسری دائیں بازو کی پارٹیوں سے کوئی حقیقی امید وابستہ نہیں۔ ریاست اور میڈیا کے اہم حلقوں کی حمایت کے باوجود انتہائی دائیں بازو اور اسلامی جماعتوں کی سیاسی بنیاد یں بکھر گئی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی وجہ سے عوام میں کالے دھن اور مذہبی رجعت کے ان سوداگروں کے خلاف نفرت اور حقارت پیدا ہوئی ہے۔ نیو فاشسٹ ایم کیو ایم مافیا کے سرغناؤ ں نے دہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے، اور انہیں سندھ کے شہری علاقوں میں مجرمانہ بھتہ خوری اور خوف و ہراس کو جاری رکھنے اور اسے تحفظ دینے کے لیے پہلے سے کہیں بڑھ کر ریاستی طاقت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ پراکسی جنگوں میں برسر پیکار مخالف قوتوں کے حمایت یافتہ علاقائی قوم پرستوں نے کسی بھی قسم کا ترقی پسندانہ یا سماجی و معاشی پروگرام ترک کر دیا ہے جو محکوم قومیتوں کے محنت کش عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔
استحصال زدہ عوام نے ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تبدیلی کا ذریعہ سمجھ کر ووٹ دیا ہے۔ لیکن موجودو حکومت کے تجربے کے بعد امید کا یہ دیا ٹمٹما رہا ہے۔ کسی بڑے انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں یہ لڑکھڑاتی ہوئی چلے جا رہی ہے۔ حال ہی میں پی پی پی پنجاب کے سربراہ کے طور پر منظور وٹو کی تقرری سے واضح ہے کہ قیادت کس جانب بڑھ ہی ہے۔ یہ چالباز بورژوا سیاست دان ہر ایک گھٹیا فوجی اور سولین حکومت سے ساتھ ساز باز میں شریک رہا ہے۔ وہ انتہائی عیار ہے اور پسِ پردہ سودے بازیوں، سیاسی غداریوں، سازشوں، فتنے پیدا کرنے اور خفیہ چالبازیوں کے لیے مشہور ہے۔ قیادت کئی دہائیوں سے پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کی مزید چاپلوس، غیر سرگرم اور ان کے لیے مزید قابل قبول بنانے کی کوشش میں ہے۔ سامراجی اور سیاستی حکام نے کبھی بھی پیپلز پارٹی پر مکمل اعتماد نہیں کیا۔ ایسا نہیں کہ انہیں قیادت کی چاپلوسی کی سچائی پر شک ہو، لیکن وہ پی پی پی کو حاصل عوامی حمایت کی بنیادی وجہ سے ہمیشہ سے خوفزدہ ہیں۔لیکن اس مرتبہ پی پی پی کی قیادت تحریک کے ابھار کی بجائے دسمبر 2007ء کے غم انگیز واقعات کے بعد تحریک کی وحشیانہ شکست میں بر سرِ اقتدار آئی تھی۔ انہیں نیچے سے کسی خاص دباؤ کا سامنا نہیں تھا چناچہ اصلاحات کی بجائے انہوں نے اسکا الٹ کیا اور آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق شدید کٹوتیاں اور حملے کیے۔ ٹریکل ڈاؤن معیشت کی بد اندیش پالیسیوں نے عوام کو تباہ کر دیا ہے۔ ان خونخوار پالیسیوں کو بائیں بازو کا سہارا دینے کی کوشش کرنے والے عوام کے خلاف کیے گئے ان جرائم میں بد ترین گناہ گار ہیں۔
جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا کہ روا یت کا بار محنت کش طبقات کے شعور پر ہمالیہ کے بوجھ کی طرح ہوتا ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقات کو پی پی پی قیادت نے شدید مایوس اور بد ظن کیا ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ان کے پاس، ابھی تک، کوئی متبادل موجود نہیں۔جمود اور ہلکی رجعت کے عہد میں اسے مصنوعی طور تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حالات کا ستم یہ ہے کم ہوتی مقبولیت، جس کا اظہار آنے والے انتخابات میں عوام ووٹ نہ ڈال کے کر سکتے ہیں، اور تحریک کے موجود نہ ہونے کی صورت میں سامراجی آقاؤں اوراسٹیبلیشمنٹ کے لیے پی پی پی زیادہ کارآمد نہیں رہے گی۔ لیکن اس کی جدلیاتی ضد یہ ہے کہ عوامی تحریک جب ابھرے گی، ابتدا ء میں اس کا جھکاؤ پی پی پی کی جانب ہی ہو گا۔لیکن یہ دو دھاری تلوار ہو گی جو نہ صرف آگے بڑھتے ہوئے سرمایہ داری کی زنجیروں کو کاٹ ڈالے گی بلکہ یہ پیپلز پارٹی کو بھی طبقاتی بنیادوں پر چیر دے گی۔ پارٹی کے نام نہاد ڈھانچوں پر قیادت کی گرفت حکومت میں ہونے کی وجہ سے ملنے والی مراعات، عیاشیوں اور مالیاتی فوائد کی وجہ سے ہے۔ جب پی پی پی کی موجودہ قیادت ریاستی اقتدار سے الگ ہو گی تو پارٹی میں شدید ہنگامہ اور شورش برپا ہو گی۔پی پی پی صحیح معنوں میں پارٹی بھی نہیں ہے جس کے منظم ڈھانچے، اندرونی جمہوریت، انتخابی کالج، نیشنل کانفرنس یا پارٹی کانگریس ہوتی ہو۔ آخری نیشنل کانفرنس 1972ء میں منعقد کی گئی تھی۔ ماضی میں پارٹی میں بائیں اور دائیں بازو کی تقسیمیں اور علیحدگیاں ہوتی رہی ہیں لیکن وہ غیر اہم رہیں، کیونکہ ریاست اور دائیں بازو کی جانب سے کئے جانے والے حملوں سے پارٹی قیادت کے درجات کو نئی زندگی ملتی رہی۔ لیکن موجود کیفیت میں جب پارٹی کی حمایت گرتی جا رہی ہے پارٹی میں ہونے والی تقسیمیں اورتنازعات فیصلہ کن اور ممکنہ طور پر طبقاتی بنیادوں پر ہو سکتے ہیں۔ زرداری کو اپنی بیوی سے پارٹی تو وراثت میں مل گئی لیکن اس کی اتھارٹی اور شخصیت کی کشش نہیں۔ اس افرا تفری میں اگر بایاں بازو منظم نہ ہوا تو لوگوں کا اعتماد کھو چکی اور کرپٹ قیادت کے جانے سے پیدا ہونے والے خلاء میں حادثاتی اور عوامی جذبات کی نعرہ بازی کرنے والی شخصیات ابھر سکتی ہیں۔ جبکہ ایک مارکسسٹ لیڈر شپ اور لینن اسٹ تنظیمی ڈھانچے کے زیرِ اثر ایک انقلابی قوت ابھرے گی جو پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام کو عملی جامہ پہنا کر1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تکمیل کرے گی جس انقلاب نے پاکستان پیپلز پارٹی کو عوامی بنیادیں فراہم تھیں اور پاکستان کے محنت کش طبقات کی روایت بنایاتھا۔