نجکاری کے خلاف پاکستان آرڈننس فیکٹری واہ کے محنت کشوں کی جدوجہد

[تحریر: کامریڈ چنگیز ملک]
پاکستان آرڈننس فیکٹری واہ کینٹ (POF) پاکستان کا سب سے بڑا ٹیکنیکل اور مینوفیکچرنگ ادارہ ہے جس کی بنیاد 1951ء میں رکھی گئی۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس ادارے میں33000 مزدور کام کرتے تھے جن کی تعداد ڈاؤن سائزنگ کی وجہ سے 18000 رہ گئی ہے۔ سٹاف اور آفیسرزکو بھی شامل کیا جائے توPOF میں کام کرنیوالے کل ملازمین کی تعداد تقریباً 27000 ہے۔ پاکستان میں تمام تر جدید دفاعی انڈسٹری POF کی مرہون منت ہے۔ لیکن اگر POF کے مزدوروں کے حالات زندگی کو دیکھا جائے تو بہت بڑے تضادات اور استحصال ہمارے سامنے آتا ہے۔ مزدوروں اور افسران کی تعداد کا تناسب ہی واضح کر دیتا ہے کہ مزدوروں کی حالت زار کیا ہوگی۔ مزدوروں کی تعداد میں کمی کی جا رہی ہے جب کہ افسران کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کے حالات زندگی کو متاثر کیاہے وہاں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں محنت کشوں کی زندگیاں پہلے سے کہیں زیادہ تلخ ہوگئی ہیں۔
پاکستان آرڈننس فیکٹریز، جس کو ’’پاکستان آفیسرز فیکٹری‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کے محنت کش پاکستان کی معیشت میں گزشتہ 62 سالوں سے اہم ترین کردار سرانجام دے رہے ہیں لیکن ان کے حالات زندگی دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ POF کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارہ منسٹری آف ڈیفنس پروڈکشن کے تحت آتا ہے لیکن یہاں کے مزدور کو دیفنس رولز کے تحت کوئی سہولت میسر نہیں، بلکہ ان کو تو سول ملازمین کے حقوق بھی پورے نہیں ملتے۔ 2011ء تک POF کے مزدور کا سٹیٹس ریگولریا عارضی ملازم کا تھا۔ اب کاغذی حد تک ریگو لر ملازم کا درجہ دیا گیا ہے لیکن ریگولر ملازمین کے رولز پو ری طرح لاگو نہیں کیے گئے ہیں۔ ہفتہ وار اوقات کار43 گھنٹے ہیں جبکہ باقی تمام سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں ہفتہ وار اوقات کار40 گھنٹے ہیں۔ گیٹ پاس(شارٹ لیو)کے بدلے تنخواہ میں کٹوتی کی جاتی ہے جو دوسرے کسی بھی سرکاری ادارے میں نہیں ہوتی۔ یہ سب عار ضی ملازمت کے سرمایہ دارانہ قوانین ہیں جو مستقل ملازمت میں عام طور پر نہیں ہوتے۔
POF کے محنت کشوں پر اوورٹائم کی لعنت کو مسلط کر کے ان کی عزت نفس اور خوداری کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ تنخواہ اور اجرتیں انتہائی کم ہیں۔ محنت کش کی اوسط تنخواہ 12 سے 15000 ہزار تک ہے جبکہ یہ محنت کش کروڑوں روپے کی پروڈکشن روزانہ کرتے ہیں۔ محنت کشوں نے جو حقوق جدوجہد کے ذریعے حاصل کئے تھے اب ایک ایک کر کے انہیں بھی چھینا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر:
*POF ہسپتال میں طبقاتی طریقہ علاج کے باوجو د بھی کسی حد تک ادویات تو مفت مل جاتی تھیں لیکن اب یہ سہولت بھی ختم کر دی گئی ہے اور غریب محنت کش اور ان کے اہل خانہ بازار سے مہنگے داموں ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔
*POF ویلفیئر ٹرانسپورٹ جو مزدوروں کی کمائی سے بنی تھی سہولت کی بجائے زحمت بن چکی ہے۔ محنت کش اور ان کے اہل خانہ کو سٹاپوں پر گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔
*POF کے ملازمین کے لیے بننے والے سکولوں اور کالجوں میں آج محنت کشوں کے بچوں کے لیئے صرف 30 فیصد کوٹہ مختص ہے۔ وہ بھی پورا نہیں دیا جاتا اور تعلیم کو بیو پار کی شکل دی جا رہی ہے۔
*POF ویلفیئر ٹرسٹ گزشتہ تیس سالوں میں کئی منافع بخش اداروں کا مالک بن چکا ہے لیکن ان اداروں میں محنت کشوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ واہ یونیورسٹی، واہ میڈیکل کالج، واہ انجینئرنگ کالج وغیرہ میں POF کے محنت کشوں کے بچوں کا صرف 3 فیصد کوٹہ ہے۔
*سرکاری رہائش کا جائزہ لیا جائے تو آفیسرز کیلئے کنالوں پر محیط بنگلے ہیں اور محنت کشوں کے لیئے اڑھائی مرلہ کے ڈربہ نما کواٹرز ہیں جہاں سانس لینا بھی مشکل ہوتا ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں رہائش کے حوالے سے کوئی واضح پا لیسی نہیں بنائی گئی۔ سٹاف اور آفیسرز کو 4 سے 5 سال کے عرصہ میں سرکاری رہائش کی سہولت مل جاتی ہے جبکہ محنت کشوں کو سرکاری کواٹر کے لیئے 15 سے16 سال انتظار کرنا پڑتاہے۔ 2013ء میں 200 نئے کواٹرز کی تعمیر کی منظوری دی گئی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
*فیکٹری کے گیٹوں پر تلاشی کا فرسودہ نظام جدید ترین مشینوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔ سکیورٹی اہلکار انتظامیہ کے حکم پر مزدوروں کو چوروں کی طرح ڈیل کرتے ہیں۔

ان حالات میں انتظامیہ غدار مزدور قیادت کو ساتھ ملا کے محنت کشوں کو مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ کسی ممکنہ بغاوت کا سد باب کیا جاسکے۔ آج پورے پاکستان کے قیمتی سرکاری اداروں کو اونے پونے داموں بیچ کر نجی مالکا ن کے حوالے کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ POF بھی نجکاری کے عمل میں شامل ہے اور’’پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ‘‘ جیسے بیہودہ فارمولے کے تحت POF کے سب سے زیادہ منافع بخش ادارے براس ملز کو نجی شعبہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف ادارے کا نقصان ہوا ہے بلکہ محنت کشوں کے مستقل ملازمت کے حق پر بھی ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ براس ملز، جو کہ پی او ایف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کی نج کاری سے کم از کم ایک ہزارمستقل ملازمت کی پوسٹوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا ہے اور آئندہ بھرتی کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر ہو گی۔ براس ملز میں موجود جدید اور قیمتی مشینری کو کوڑیوں کے بھاؤ میں نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ POF ورک مین ایسوسی ایشن کی قیا دت نے اس نج کاری پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اب محنت کشوں کو بہتر مستقبل کے جھوٹے سپنے دکھائے جا رہے ہیں لیکن ماضی میں نجی شعبے کے حوالے کیے گئے اداروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ نجکاری ایک لعنت ہے اور یہ محنت کشوں کی زندگیوں کو برباد کرتی ہے۔ اس کی واضح مثال PTCL اور KESC کی نج کاری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ بات طے ہے کہ آنے والے عرصہ میں POF کے مزید یونٹس کی نج کاری کی پلاننگ کی جا چکی ہے جس سے ہزاروں محنت کشوں کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا اور کام کے حالات تلخ ہوجائیں گے۔ چھانٹیاں اور کٹوتیاں کی جائیں گی۔ المیہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی قیادت مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور الٹا مزدوروں پر الزام تراشی کر رہی ہے۔
ُ POF کے محنت کشوں کی جدوجہد کی ایک سنہری تاریخ ہے۔ ستمبر 1957 ء میں POF کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اپنی جانوں کا نظرانہ دے کر عظیم تاریخ رقم کی تھی۔ پھر 1968-69ء کی ملک گیر تحریک میں بھی POF کے محنت کشوں نے پورے پاکستان کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتے ہوئے اپنی طاقت کا اظہا ر کیا۔ اس کے بعد 1978 ء میں بھی POF کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لئے شاندار جدو جہد کی۔ 1985ء میں پہلی دفعہ ایک کامیاب ہڑتال کر کے محنت کشوں نے حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دیا لیکن قیادت کی روایتی غداری نے مزدوروں کی طاقت کو توڑ کر استحصال کو پہلے سے زیادہ شدید کر دیا۔ آج POF کا محنت کش شدید اضطراب، ہیجان، بیگانگی اور ما یوسی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ سب سے بڑا المیہ قیادت کا ہے۔ ورک مین ایسوسی ایشن کی قیادت کو خود یہ علم ہی نہیں کہ محنت کشوں کے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر محنت کشوں کے مسائل کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔ POF کے محنت کشوں کو اپنی قیادت کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا اور ایسی قیادت کو آگے لانا ہو گا جو شعوری بنیادوں پر سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیوں کو سمجھتے ہوئے محنت کش طبقے کے مسائل کے حل کے لئے ایک انقلابی لائحہ عمل ترتیب دینے کی اہلیت رکھتی ہو۔
جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو انسان جینے کی ایک آخری اور بھرپور کوشش ضرور کرتا ہے۔ آج POF کے محنت کشوں کو بھی ایک ایسی ہی آخری اور بھرپور کوشش کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے آپ کو ازسر نو منظم کرنا ہوگا اور دوسرے تمام اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی اور جڑت بنا تے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے خلاف صف بندی کرنی ہو گی۔ محنت کش طبقے کے پاس کھو نے کو صرف زنجیریں ہیں اور جیتنے کو سارا جہاں پڑا ہے۔ سچے جذبوں کی قسم جیت محنت کشوں کی ہی ہو گی!