حکم اغیار پر تم نے یہ کیا کیا؟

حکم اغیار پر تم نے یہ کیا کیا؟
عدل و انصاف کو تم نے رسوا کیا

دار پر کھینچ لائے کبھی رہنما
تم نے زنداں میں رکھے کئی رہنما

تم نے لوگوں کو کوڑے لگائے کبھی
تم نے سڑکوں پہ مقتل سجائے کبھی

کبھی بیرک میں رہبر بلائے گئے
نوکِ سنگین سے پھر ڈرائے گئے

کیسے وردی کی طاقت دکھائی گئی
اور انسانیت پھر جھکائی گئی

سب کو بندوق سے جب ڈراتے ہوئے تم
سمجھو صحرا میں چپو چلاتے ہو تم

تم کو لوگوں کی خوشیاں گوارا نہیں
اپنی دھرتی پہ کیا حق ہمارا نہیں؟

بیٹھ کر خوش ہو بارود کے ڈھیر پر
آگ کے کھیل میں جل گیا سارا گھر

کیا یہ ممکن ہے دنیا میں ایسا بھی ہو؟
شعلے اٹھیں مگر تباہی کچھ نہ ہو

گو تمہیں ناز بوٹوں کی طاقت پہ ہے
پر ہمیں دکھ تمہاری حماقت پہ ہے

جو سیاست سے تم کو بہت پیار ہے
کیوں سمجھتے نہیں تم یہ بیکار ہے

سر اٹھا تھا جو آمر کے دربار میں
کب جھکا تھا وہ پھر بزم اغیار میں

عابد علی عابدؔ