عید آئے تو عید کرلینا

عید آئے تو عید کرلینا
روزکا واقعہ ہے کوئی
جب معمول حادثہ ہے کوئی
سانس الجھی ہے ہر رگ جاں سے
میرے اندر کا سانحہ ہے کوئی
مجھ سے پوچھا ہے میرے بچوں نے
خواہشوں کے دیے جلے ہوں گے
اپنے گھر میں بھی عید آئے گی؟
یا پلٹ جائے گی وہ رستے سے؟
اور بھی ہیں کیے سوال کئی
بابا گزرے ہیں ایسے سال کئی
تیری محنت کہاں گئی بابا؟
تجھ سے تو ہو گئے نہال کئی
ہم پہ اترا ہے صبر کا موسم
آج کے دن ہے بس یہی لازم
وہ خدا ہے! تو دیکھتا ہو گا
عید پر بے بسی کا ہر ماتم
زندگی کا حساب دینا ہے
خود کو یہ بھی عذاب دینا ہے
آج ہی یوم حشر ہے شاید
آج مجھ کو جواب دینا ہے
یہ نہیں مجھ کو تم سے پیارنہیں
عید ہی تو خوشی‘ اے یار! نہیں
ہم نے لڑنا ہے کام کرنا ہے
دیر ہے پر ہماری ہار نہیں
صبح ہوگی طلوع تو دیکھو گے
سلسلے رنگ ونور کے سارے
بھیگتا تم خوشی کی بارش میں
مسکرائیں گے دیکھ کر تارے
لمحہ لمحہ سعید کر لینا
عید آئے تو عید کرلینا
میرے اشکوں سے میری آہوں سے
اپنی خوشیاں کشید کرلینا