(سیلاب زدگان کے لیے)
ابھی اترا نہیں پانی
ابھی پانی بہالے جارہا ہے
ایک انتھک زندگی کی ماندپڑتی آب و تاب
مختلف عمروں کے خواب
اور تمناؤں کے گم گشتہ سراب
گھروں،گلیوں،محلوں اور بازاروں کے اندر
صورت خاشاک اڑتی آرزوئیں
حبس اگلتے کچے کمروں میں
جھلنگی چارپائیوں پر دھری بے زار نیند
آنگنوں میں کھیلتا بچپن۔۔۔ بہالے جارہا ہے
ابھی پانی بہالے جا رہا ہے
کچے رستوں اور شیشم
اور چناروں کی گھنی چھاؤں میں پلتی
دیسی گیندے کی طرح کی سادہ اور رنگیں محبت
اک ذرا دو چار دن خوش رہنے
اور آرام کرنے کی بہت مہنگی سی خواہش
آنسوؤں کی تیز اور نمکین بارش میں
بہالے جارہا ہے
ابھی پانی بہالے جارہا ہے
آنے والے موسموں کی ساری فصلیں
ہل، پنجالی، ڈھورڈنگر
اور جو کچھ روکھی سوکھی زندگی کی
شرم رکھنے کے لیے ہاری سے بن پڑتا ہے
وہ سب کچھ بہالے جارہا ہے
ابھی اترا نہیں پانی
ابھی کچھ دیر میں اترے گا پانی
ہر اک شے کی نشانی چھوڑکر اترے گا
اتر جائے گا جب پانی
گذر جائے گا جب پانی
تو پھر معدوم ہوتی زندگی کی
ہر نشانی کو دوبارہ زندگی دیں گے
نئی گلیاں! محلے! راستے! پگڈنڈیاں!
اورآنے والی زندگی کے خواب
مختلف عمروں کے خواب
زنگ آلودہ سے خواب
ایک ان تھک زندگی کی ماندپڑتی آب و تاب
اور تمناؤں کے صحرا میں چٹختے آئینوں جیسے سراب
جب قلعی ہوجائیں گے
تو پھر سے یہ سب عہد وپیماں
آپ لوگوں میں مساوی بانٹے جائیں گے
ابھی اترانہیں پانی، ابھی کچھ دیر ہے
زمیں کو خشک ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی ہے
ایوب خاور