درد کی رات طویل گزری ہے۔ ۔ ۔

درد کی رات طویل گزری ہے
پھر سے محبوس ہے چارہ گر میرا
عذر و علت کی گردانوں میں
مصلحتِ زیست کے پیمانوں میں
نیم خوابیدہ سے ایوانوں میں
کوئی نوحہ کوئی فریاد نہیں ہے لب پہ
کوئی امید کوئی آس نہیں ہے اب کہ
لب پہ پہرہ ہے ناخدائی کا
عقل پہ جبر کی تعزیریں ہیں
دل جو وحشی تھا سو وہ ہے اب بھی
آنکھ جو نم تھی سو وہ ہے اب بھی
مری دھرتی میں بہت خوب رسم نکلی ہے
ہر نئے جبر کی سو سو یہاں تاویلیں ہیں
قاتلِ بے رحم سے لڑنا تو رہا ایک طرف
ظلم کو ظلم سمجھنے پہ بھی تعزیریں ہیں
جانے اور کتنے جواں جسموں کا لہو
اپنے چہروں پہ ملیں گے تو یہ مانیں گے
جانے اور کتنی کلیوں کو مسلنے کے بعد
اپنے خوابیدہ خیالوں سے یہ جاگیں گے
ہاں مگر ہم نے بھی انساں کی قسم کھائی ہے
خونِ ناحق کو ہم ظلم و جبر لکھیں گے
بادِ صر صر کو گلشن کا زہر لکھیں گے
چاہے سولی پہ ہی اٹھ جائیں یہ آشفتہ سر
ہر در و بام پہ اناالحق کی صدا لکھیں گے
درد کی رات بھلے جتنی طویل ہو جائے
اس کا انجام وہی سرخ سویرا ہے جس میں
اپنے گلشن میں نکھار آئے گا!
دلِ وحشی کو قرار آئے گا!
عاطف علی