[تحریر: لال خان]
یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کل پیپلز پارٹی قیادت نواز شریف کی تعریفوں کے پل باندھنے کے لئے کسی موقع کی تلاشِ مسلسل میں مصروف رہنے لگی ہے۔ 12 مئی کو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھنے کے اقدام کو نواز شریف کا عظیم کارنامہ قرار دیا ہے۔ یہ سیاستدان بھی کیسے بھلے مانس ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ خارجہ پالیسی کا تعین کہیں اور ہوتا ہے، ایک دوسرے کو کبھی لعن طعن تو کبھی مبارک بادیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ریاست، سیاست اور معیشت کے ایسے کلیدی فیصلے سیاسی حکمران نہیں بلکہ مالیاتی سرمائے کے حاوی دھڑے اور سامراجی آقا کرتے ہیں۔
ایران سے پاکستان اور ہندوستان تک گیس برآمد کا منصوبہ ایک طویل عرصے سے بنتا بگڑتا رہا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کی اجازتوں اور پھر رکاوٹوں کے پیچھے بہت سے اندرونی اور بیرونی سیاسی، سفارتی اور مالیاتی مفادات کارفرما ہیں۔ امریکی سامراج، ایران کی ملا اشرافیہ، پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کے مفادات کا کبھی اشتراک اور کبھی ٹکراؤ اس منصوبے کو مسلسل غیر یقینی صورتحال سے دوچار کرتا رہا ہے۔ اس معاملے میں عرب بادشاہتوں اور خطے کی دوسری علاقائی طاقتوں کی دخل اندازی بھی موجود ہے۔
پیپلز پارٹی حکومت کے دوران طے پانے والے گیس پائپ لائن کے معاہدے میں پاکستان، بھارت اور ایران شامل تھے۔ بعد ازاں ٹھیکوں اور رائلٹی پر جھگڑوں کی وجہ سے بھارتی حکمرانوں نے منصوبے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ آصف زرداری کے ذریعے وقتاً فوقتاً بیان دلوا کر پاکستانی ریاست یہ باور کروانے کی کوشش کرتی رہی کہ امریکی دباؤ کے باوجود پائپ لائن کی تعمیر جاری رہے گی۔ اس وقت امریکہ نے تنبیہ کر رکھی تھی کہ ایران سے بڑے پیمانے کی تجارت یا مشترکہ منصوبہ سازی کرنے والے ممالک بھی ’’تجارتی پابندیوں‘‘ کی زد میں آسکتے ہیں۔ جب تک ایران اور امریکہ کے درمیان ’’ایٹمی اختلافات‘‘ موجود رہے یہ منصوبہ سست روی کا شکار رہا اور ایشو بتدریج ٹھنڈا ہوگیا یا کردیا گیا۔ لیکن اب امریکہ ایران تعلقات کی ’’ظاہری تلخی‘‘ جنیوا مذاکرات کے بعد کسی حد تک کم ہونے پر پاکستان کے حکمرانوں کو بھی پائپ لائن دوبارہ یاد آگئی ہے۔
آج کی عالمی سفارتکاری بھی معیشت کی طرح بحرا ن اور انتشار کا شکار ہے۔ امریکی سامراج کی معاشی بدحالی اس کی لاغر خارجہ پالیسی، سفارتی کمزوری اور عسکری بے بسی سے ظاہر ہے۔ شام اور یوکرائن کے تنازعات میں امریکی حکمرانوں نے صرف بڑھکیں مارنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اسی طرح عراق کو شعلوں میں دھکیل کر فرار اور افغانستان سے انتہائی غیر یقینی صورتحال میں پسپائی کی تیاریاں امریکی سامراج کے کھوکھلے پن اور موضوعی کمزوری کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایران اور عرب ممالک میں امریکہ کی دلچسپی وسیع معدنی زخائر، خاص کر تیل کی وجہ سے ہے۔ مشرق وسطیٰ سے متعلق اس کی تمام تر پالیسیوں کا مقصد سامراجی استحصال اور تیل کی اجارہ داریوں کی لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنا ہے۔ دوسری طرف عرب بادشاہ اور آمر امریکہ سے ’’رشتہ داری‘‘ کو اپنے تحفظ کا ضامن سمجھتے ہیں۔ اس دوہرے استحصال کی چکی میں پسنے والے مشرق وسطیٰ اور خطہ عرب کے عوام، فلسطین سے لے کر یمن تک، گزشتہ نصف صدی سے خونریزیوں، بربادی اور غربت کا شکار ہیں۔
ایران کی طرف امریکہ کا سامراجی رویہ بہت پرانا ہے۔ ایران میں دہائیوں تک پہلوی خاندان کی بادشاہت مسلط رکھ کر تیل کے زخائر کو لوٹا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعداس سامراجی جبر کے خلاف انقلابی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایرانی عوام کے دباؤ سے برسر اقتدار آنے والے پاپولسٹ لیڈر محمد مصدق نے یکم مئی 1951ء کو ’’اینگلو ایرانی آئل کارپوریشن‘‘ (جو بعد میں BP بنی) کوقومی تحویل لیا تو برطانوی خفیہ ایجنسی MI6 کی درخواست پر سی آئی اے نے ’’آپریشن ایجیکس‘‘ شروع کیا۔ 1953ء میں مصدق کو معزول کروا کے گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے اپنی زندگی کے باقی دن نظر بندی میں گزارے۔ 1967ء میں وفات کے بعد مصدق کو نظر بندی کے مقام پر ہی دفن کر دیا گیا تاکہ اس کا جنازہ کوئی نیا انقلابی طوفان نہ کھڑا کر دے۔ مصدق کی معزولی کے بعد اگلے 26 سال تک رضا شاہ پہلوی کی بدنام زمانہ ’’ساواک‘‘ خفیہ ایجنسی کے ذریعے ایرانی عوام اور انقلابیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے جاتے رہے۔
1979ء کے ایرانی انقلاب کی قیادت ابتدا میں تودہ (کیمونسٹ) پارٹی کے پاس تھی لیکن ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کی بیہودہ تھیوری پر عمل پیرا پارٹی لیڈر شپ نے انقلاب ملاؤں کی جھولی میں ڈال دیا۔ ملاؤں نے برسر اقتدار آکر سب سے پہلے تودہ پارٹی کو راستے سے ہٹایا اور ہزاروں پارٹی کارکنان کو قتل کردیا گیا۔ صرف 1988ء میں 30 ہزار سے زائد بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کو پھانسیاں دی گئیں۔
ملاؤں کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ ایران تعلقات بظاہر بہت کشیدہ ہوگئے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ 1979ء سے آج تک کئی تضادات کے باوجود امریکی سامراج اور ایرانی ملا اشرافیہ نے کئی مواقع پر خفیہ الحاق کے تحت ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا ہے۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کو ایرانی ملاؤں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اسی طرح عراق میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں امریکی فوجوں کے خلاف ہونے والی مسلح بغاوتوں کو زائل کرنے میں ایرانی ملاؤں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ آج کل ایران امریکہ تعلقات میں دوبارہ گرمجوشی آرہی ہے جس سے عرب بادشاہتیں اور اسرائیلی حکمران سخت ناخوش ہیں۔
پاکستانی ریاست کے کچھ طاقتور دھڑوں اور امریکی سی آئی اے کے تعلقات بھی متضاد نوعیت کے ہیں۔ یہی کیفیت پاک ایران تعلقات میں بھی نظر آتی ہے۔ پاکستانی ریاست کے کچھ حصے ایران کے ساتھ زیادہ ’’یاری دوستی‘‘ نہیں چاہتے ہیں کہ اس سے عرب بادشاہ ناراض ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کی پراکسی جنگ پہلے ہی پاکستان کے مختلف خطوں، خصوصاً بلوچستان میں بے گناہ لوگوں کا خون بہا رہی ہے۔ سفارتی پالیسی عمومی طور پر اور پائپ لائنوں کی ڈپلومیسی خصوصی طور پر حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے مالی مفادات کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ان سودہ بازیوں میں ملوث بڑے سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کے معاشی مفادات کو عوام کے سامنے ’’قومی مفادات‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے باعث یہ کاروباری رشتے اور معاہدے نازک ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پہلے کئی سال لگتے تھے لیکن اب مہینوں بلکہ دنوں میں خارجہ پالیسیاں اور وفاداریاں بدل جاتی ہیں۔ دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہیں اور دشمنوں کو گلے لگا لیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی آپسی لڑائیاں کبھی جنگوں، کبھی خانہ جنگی تو کبھی پراکسی وارز کی شکل میں سماج کو برباد کررہی ہیں۔ سفارتکاری اور خارجہ پالیسی عوام کے مفاد میں تب ہی مرتب ہوسکتی ہے جب معیشت چند ہاتھوں سے نکل کر پورے سماج کی اشتراکی ملکیت بنے۔ بصورت دیگر ہر پالیسی کا تعین ذرائع پیداوار پر براجمان ایک اقلیتی طبقہ ہی کرے گا، اکثریت کے لئے اس کے نتائج چاہے کچھ بھی ہوں!
متعلقہ:
ایران: روحانی حکومت کی پہیلی کھل گئی
ترقی کے دوہرے معیار