سنیئر وائس پریذیڈنٹ پیپلز یونٹی پی آئی اے راولپنڈی/اسلام آباد، کامریڈ شعیب خان کا انٹرویو

[انٹر ویو: کامریڈ چنگیز]
کامریڈ شعیب خان نے 1983ء میں طلبا تنظیم DSF کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا اور آجکل پی آئی اے میں پیپلز یونٹی کے پلیٹ فارم سے محنت کشوں کی سیاست کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں یونین آفس میں ایک ملاقات میں انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر اور موجود سیاسی صورت حال پر ایک تفصیلی انٹرویو دیا جو ہم طبقاتی جدوجہد کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

آپ نے طلبا سیاست سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اس کی تفصیلات ہمارے قارئین کو بتائیں گے؟
ج: جی ضرور!میں نے 1982ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1983ء میں فرسٹ ائیر میں کالج ایڈمیشن لینے کے بعد DSF کو باقاعدہ جوائن کیا جو پور ے پاکستان کی طرح پشتونخواہ میں مقبول ترین طلبا تنظیم تھی جس نے ضیاء الحق آمریت میں بھی بائیں بازو کی سیاست کا علم بلند رکھا، مشکل ترین حالات میں بھی ہم نے پشتونخواہ میں بڑے طلباء کنونشن کیئے اور طلباء حقوق کی بحالی اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نوجوانوں کو منظم کیا۔ گو کے ضیاء آمریت میں بائیں بازو کی سیاست کرنا شجرِ ممنوعہ قرار دیا جا چکا تھا۔ لیکن مارکسزم عہد حاضر کا وہ واحد سچ ہے جو آپ کو بڑے سے بڑے آمر اور کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی کلمہ حق کہنے کی جرأت عطا کرتا ہے۔

مزدور سیاست کا آغاز کب کیا؟
ج:1990ء میں لاء گریجویٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد PIA میں ملازمت اختیار کی اور پیپلز یونٹی کو مزدور سیاست کیلئے منتخب کیاتب سے پیپلز یونٹی کے ساتھ منسلک ہوں اور اپنی بساط کے مطابق مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

مزدور سیاست کے زوال کی کیا وجوہات ہیں؟
ج: اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن چند چیدہ وجوہات کا ذکر ضرور کروں گا۔ روائتی پارٹیوں کی سیاست یا ٹریڈ یونین کی سیاست میں جب نظریات، سوچ، فکر کو پسِ دیوار کر دیا جائے اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی جائے تو عمومی صورتحال پراگندگی، ذاتی مفادات، مطلب پرستی جیسی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ جس سے معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی اقدار گراوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور سماجی ابتری معمول کا حصہ بن جاتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ ٹریڈ یونین کی سیاست میں سیاسی پارٹیوں کی بے جا مداخلت ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی پروردہ یونین کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتی ہے نہ کہ مزدوروں کے مفادات اورادارے کے استحکام کیلئے، اس کے علاوہ بہت سی بڑی بڑی فیڈریشنز، کنفیڈریشنزجن کے لیڈران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بھی اندرونِ خانہ اپنی ذاتی مرعات اور مفادات بھرپور طریقے سے حاصل کرتے ہیں۔

موجودہ سیاسی صورتحال میں بحیثیت ایک سیاسی طالب علم ایک ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پر پاکستان میں مزدور تحریک کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
ج: ایک سیاسی طالب علم کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کے سب سے پہلے تو ہمیں ہر ادارے کے محنت کشوں کو اُن کی طاقت کا ادراک دلانے کی ضرورت ہے۔ اور دوسرا اُن کووہ اعتماد و حوصلہ دینے کی ضرورت ہے جو چند مفاد پرست ٹریڈ یونین لیڈروں کی وجہ سے محنت کش طبقے کا اپنی قیادت پر اعتماد نہیں رہا۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ محنت کش طبقہ بے حس ہو چکا ہے بلکہ وہ سیاسی پارٹیوں کے سیاسی پنڈتوں اور مفاد پرست ٹریڈ یونین لیڈروں کی حرکات و سکنات بڑے غور سے دیکھ بھی رہا ہے اور نتائج بھی اخذ کر رہا ہے۔ وقتی طور پر اظہار نہیں کر رہا لیکن ایک بات طے ہے جو ہم نے مارکسزم کے ایک ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے سمجھی ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ اور میں اپنی ساری سیاسی زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔ ایک روشن مستقبل پر میرا سائنٹفک یقین ہے۔

موجود ہ حکومت سے کیا تو قعات ہیں؟
ج: ایک عام آدمی کی حیثیت سے میری بھی شاید کوئی توقعات تھیں۔ لیکن حالیہ بجٹ نے اُن تمام اُمیدوں کو خاک میں ملا دیا، تمام تر مراعات پہلے سے مراعات یافتہ طبقات کیلئے مختص کی گئیں عوام پر IN DIRECT ٹیکس کے ذریعے جو معاشی حملے کئے گئے ہیں اُس نے عوام پرموجودہ حکومت کے اصلی چہرے کو عیاں کر دیا ہے۔ سابقہ
حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی IMF اور سامراجی پالیسیوں کو ناصرف جاری رکھے گی بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ IMF کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کو لاگو کرے گی، جس سے بھوک، بے روزگاری، بیماری اور لا اعلاجی میں مزید اضافہ ہوگا۔

آپ نے کہا موجودہ حکومت بھی نجکاری جیسی پالیسیوں کو جاری رکھے گی تو اس صورت حال میں اگر PIA کی نجکاری کی جاتی ہے تو آپ کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟
ج: پہلے تو ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ نجکاری اور اس جیسی تمام پالیسیوں سے چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک میں یا ترقی پذیر ممالک میں اس سے چند سرمایہ دار اور بڑی بڑی کمپنیاں تو ضرور اربوں کھربوں روپے کماتی ہیں لیکن محنت کشوں اور عوام کے معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کی مثال ہم امریکہ یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کروڑوں لوگوں کی بے روزگاری کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ رہا سوال PIA کی نجکاری کا تو آپ کو یاد ہوگا کہ 2011ء کے اندر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ترکش حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کی جو بنیادی طور پر نجکاری کی ہی ایک شکل تھی ہم نے تمام تر سیاسی دباؤ کے باوجود اس معاہدے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ 4دن کی شاندار ہڑتال کے بعد وہ معاہدہ منسوخ کروایا اور PIA کے محنت کشوں کی تحریک پاکستان بھر کے محنت کشوں کیلئے مثال بنی ہم نے تمام یونینز اور ایسوسی ایشنز پر مشتمل ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی تھی لیکن ہماری اس تحریک کو طاقت PTUDC، واپڈا ہائیڈرو یونین، ریلوے لیبر یونین، اٹک آئل ریفائنری ایمپلائز یونین، آل پاکستان ٹینکرز ایسوسی ایشن، محکمہ پوسٹ کی مختلف یونینز، طلبہ تنظیموں اور دیگر اداروں نے دی۔
ہم پر حملے کی ابتدا ہوچکی ہے ائیر لیگ جو موجودہ حکومت کی ایک پروردہ یونین ہے کہ ذریعے ہمارے دفاتر پر اور دیگر جگہوں پر باقاعدہ طور سے حملے کئے گئے اور ہم نے PIA کے محنت کشوں کی مدد سے اُن حملوں کو پسپا کیا، اور یہ سارا اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ ہم نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں نجکاری کے عمل کو نہیں ہونے دیا اور یہ وہ ہماری جدوجہد تھی کہ ریفرینڈم میں ایک مرتبہ پھر محنت کشوں نے ہم پر اعتماد کیا اور ہم ریفرینڈم جیت گئے۔ ابھی ہمارے دو سال رہتے ہیں اور اس دوران کوئی بھی حملہ ہوا تو ہم ڈٹ کر اُس کا مقابلہ کریں گہ بلکہ 2011ء کی طرح پاکستان بھر کے محنت کشوں کیلئے ایک مثال قائم کریں گے۔

PIAکے خسارے کی کیا وجوہات ہے؟
ج: سب سے بڑی وجہ سول اور ملٹری بیورو کریسی کی مداخلت ہے۔ جب آمریت ہوتی ہے تو PIA کا چیئرمین ملٹری بیوروکریسی کے آشیر باد سے آکر PIA میں من مرضی کے فیصلے کرتا ہے اور سیاسی پارٹیوں کے دور میں سیاسی چیئرمین من مرضی کرتا ہے۔ دوسری وجہ لاتعداد ڈائریکٹرز اور GM ہیں جن کی تنخواہوں اور مراعات پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جہاں تک خسارے کی بات کی جاتی ہے کسی بھی اندرونِ و بیرون ملک پرواز میں ایک بھی سیٹ خالی نہیں جاتی، یہ ہی صورتحال Cargo کی ہے۔ محنت کشوں کی بھرتیوں پر تو پابندی ہے لیکن نکمے ڈائریکٹرز اور GM کے ذریعے ہر حکومت PIA کو گدھ کی طرح نوچنے کیلئے بھرتی کر لیتی ہے۔ لوٹتے افسران ہیں اور ملبہ PIA ورکز پر ڈالا جاتا ہے، حالانکہ ہمارے ادارے کا محنت کش کوئی اضافی مراعات نہیں لے رہا انتظامیہ کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ PIA کے محنت کشوں کی مراعات کو کم کیا جائے اور ورکروں کو مختلف حیلے بہانوں سے دبانے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح اس روش کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ کہ اپنے منظورِ نظر لوگوں کو نوازرہی ہے۔ کیپٹن شجاع عظیم جو پورے پاکستان میں رائل ائیرپورٹ سروسز کے نام سے ایک نیٹ ورک کے مالک ہیں کو وزیر اعظم صاحب کا ایڈوائزر لگا دیا گیا ہے۔ شجاع عظیم صاحب سینٹرطارق عظیم صاحب کے بھائی ہیں جو وقت اور حالات کے مطابق پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اس صورتحال میں ہمیں چیزوں کو سمجھنا اور پرکھنا پڑے گا اور مشترکہ لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔

آپ کے نزدیک محنت کشوں کے مسائل کا کیا حل ہے؟
ج: سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل اور راستہ ہے کیونکہ سرمایہ دارنہ نظام ایک بند گلی میں پہنچ چکا ہے آج وہ انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی ترقی کی رکاوٹ بن چکا ہے۔ یہ نظام موت کا بیوپار تو کر سکتا ہے۔ زندگی کا نہیں پوری دنیا میں اُٹھنے والی انقلابی تحریکیں اس بات کا عندیہ دے رہی ہیں کہ محنت کش طبقہ ایک گہری نیند کے بعد بیدار ہو رہا ہے۔ انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن ایک متبادل قیادت کا فقدان ہے لیکن میرے لئے خوشی اور حوصلے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کے کامریڈز جنہوں نے روس کے انہدام اور دیوار برلن کے گرنے کو سوشلزم، کیمونزم کی شکست نہیں مانا اور آج بھی پاکستان میں مارکسز م کا پرچم بلند کیئے ہوئے ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا ’’ کہ رات کا آخری پہر سب سے زیادہ تاریک ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس بات کی بھی غمازی کر رہا ہوتا ہے کہ صبح ہونے والی ہے۔ ‘‘ میں نے جو کیا اُس پر مجھے فخر ہے اور وہ صبح ضرور آئے گی۔ سوشلسٹ انقلاب زندہ باد، محنت کش عوام پائندہ باد۔