دوائیوں کی صنعت اور زخموں کا دھندہ

[تحریر: کامریڈ ساقی]
سرمایہ دارانہ نظام و معیشت کے دور میں تمام پیداوار کا مقصد شرح منافع کا حصول ہوتا ہے نہ کہ انسانی ضروریات کی تکمیل یا خدمت۔ پاکستان میں صحت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ایک طرف حکومتی بے حسی نظرآتی ہے جو ہر سال صحت کے بجٹ میں کمی کر رہی ہے تو دوسری طرف یہاں کی فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہیں جو انتہائی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں اور حکومت کے تعاون سے اس فریضہ کو انجام دیتے ہوئے بہت تقویت حاصل کر رہی ہیں۔ پاکستان ایشیا کی فارما مارکیٹ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتاہے۔ 2004ء میں اس مارکیٹ کا کل حجم 1.4 ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر اب 2 ارب ڈالر بن چکا ہے اور اسی طرح کی 10فیصد سے زیادہ بڑھوتری کے ساتھ یہ مارکیٹ 2020ء میں 4ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس وقت فارماسیوٹیکل صنعت پاکستان میں ایک لاکھ باسٹھ ہزار لوگوں کو براہ راست روزگار فراہم کر رہی ہے اور بلا واسطہ لاتعداد لوگوں کو روزگارد یتی ہے جس میں ڈسٹریبیوٹرز، میڈیکل اسٹورز اور وہاں ملازمت کرنے والے لوگ شامل ہیں۔ فارما صنعت میں کام کرنے والوں کا شدید ترین استحصال ہی مالکان کو بے پناہ منافع خوری کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو پاکستان کے بننے کے وقت یہاں کوئی دواساز کمپنی نہیں تھی اور تقریبا ساری دوائیں باہر سے درآمد کرنی پڑتی تھی۔ اس کے بعد70 کی دہائی میں یہاں دو صنعتی یونٹ لگائے گئے، ایک اسلام آباد کے قریب خرم کیمیکلز کے نام سے اور دوسرا راولپنڈی میں اینٹی بائیوٹک پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے اور اسی دہائی میں یہاں پہلا ڈرگ ایکٹ 1976ء میں بنایا گیا۔ 1990ء تک یہاں پر کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں آ چکی تھیں اور لوکل کمپنیاں بھی اپنا آغاز کر چکی تھیں۔ 1993ء تک یہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں (MNCs) مارکیٹ پر حاوی ہو چکی تھیں اور کل مارکیٹ کے 60فیصدسے بھی زیادہ پر قابض تھیں۔ اس وقت کی لوکل مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے نواز حکومت اور وزارتِ صحت سے ایک ڈیل کر کے اپنی بہت سی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور بدلے میں کامیاب الیکشن کیمپیئن کیلئے نواز حکومت کو 23 کروڑ روپے دیے۔ اس قیمتوں میں اضافے کے بعد لوکل کمپنیوں کے پاؤں مضبوط ہوئے اور کچھ ہی سالوں میں وہ پاکستان کی مارکیٹ پر حاوی ہوکر MNCs کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں لیکن اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ یہاں کے لوکل سیٹھ وزارتِ صحت پر اثرانداز ہونے لگے۔ اس کے بعد 2000ء میں مشرف حکومت کو MNCs نے مجبور کیا کہ ان کو قیمتوں میں اضافے کا حق ملنا چاہیے۔ جواب میں مشرف حکومت نے ان کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور ساتھ میں عوام پر دواؤں کی خرید پر 15فیصدٹیکس بھی رکھ دیا لیکن اس اقدام کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید اور مذمت کے بعد ٹیکس واپس لے لیا گیا لیکن قیمتوں میں اضافہ برقرار رہا۔ 2001ء سے لیکر 2012ء تک وقتاََ فوقتاََ بہت سی دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے جن میں سے کچھ دواؤں کی قیمتیں تو سرکاری اجازت کے بغیر ہی بڑھائی گئی ہیں۔کچھ دن پہلے اسمبلی میں فردوس عاشق اعوان نے ایسی 92 پراڈکٹس کے بارے میں بتایا اور ان کی قیمتیں کم کرنے کیلئے کہا اور ایک کمیٹی بھی بنائی جو اسٹورز پر جاکر یہ تصدیق کرے کہ واقعی ان کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے یا نہیں۔ اس ساری صورتحال کے باوجود بھی یہاں کی کمپنیاں (خصوصی طور پرMNCs ) چلا رہی ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ 10 سالوں میں مہنگائی کی شرح بڑھی ہے، افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں ان کو اس مناسبت سے دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ملا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو دواؤں کی کمی یا مینوفیکچرنگ میں کمی کے ساتھ اپنی انویسٹمنٹ ختم کرنے کی بھی دھمکیاں دیں اور بالاآخر PPP حکومت نے وہ تاریخ ساز کام کیا جو پچھلی حکومتوں نے بھی نہیں کیا۔ نواز حکومت میں زیادہ سے زیادہ قیمتوں میں اضافہ 400فیصد تک ہوا (جو اس وقت ایک شرمناک بات سمجھی گئی تھی) لیکن PPP نے 2012 ء میں اس سے بھی زیادہ قیمتوں میں اضافہ کا حکم دیا، 350 دوائیں ایسی ہیں جن کی قیمتوں میں 600فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا، باقی دوسری دوائیں بھی اسی شرح سے کچھ کم پر بڑھیں گی۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے دواؤں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان نظر آرہا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
لوکل کمپنیوں کے گھناؤنے ہتھکنڈوں کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کا غلبہ ہے اور 60فیصد تک مارکیٹ پر قابض ہونے کے ساتھ MNCs کو ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے جن کا مارکیٹ شیئر اب صرف 40فیصدہے، MNCs کو ایک بڑی شکایت (Intelectual Property Rights) کی بھی ہے جس میں Patency Law کے مطابق کوئی کمپنی اپنی نئی ریسرچ کی ہوئی پروڈکٹ کو 20 سالوں تک اپنی مرضی کی قیمت پر بیچے گی اور 20 سالوں تک کسی دوسری کمپنی کو اس کا generic (بالکل وہی مالیکیول) بنانے کی اجازت نہیں ہوگی یہ عالمی سرمایہ داری کے غلبہ اور ان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کا ایک قانون ہے۔ اس قانون کی وزارتِ صحت اور یہاں کے لوکل کمپنی مالکان نے دھجیاں اڑادیں اور بہت سی generic بنا ڈالیں جو مارکیٹ میں اصل سے کم قیمتوں پر دستیاب ہیں۔ لیکن ان کے معیار کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے اندر مارکیٹنگ کمپنیوں کا رجحان بہت زیادہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے یہ ایسی کمپنیاں ہیں جن کا کوئی مینیو فیکچرنگ یونٹ نہیں ہوتا وہ کسی دوسری کمپنی سے پراڈکٹ بنوا کر اپنی من پسند قیمت لگوا کر مارکیٹ میں چلا رہی ہیں، ان میں سے اکثریت تو وزارتِ صحت میں شامل لوگوں کی ہیں جن کی یا تو خود ایسی مارکیٹ کمپنیاں ہیں یا پھر انہوں نے ایسی دوائیں پہلے سے بنوا کر اور رجسٹرڈ کر کے رکھی ہوتی ہیں جس کے جملہ حقوق کوئی بھی عام آدمی اپنے نام کرواکے تھوڑے پیسوں کے عوض اپنے نام کی کمپنی شروع کر سکتا ہے۔اس طرح کی ادویات میں اگر سچ کہا جائے تو سستے ترین کچھ کیمیکل اور پانی ہوتا ہے، مرض سے شفا دینا تو ان دواؤں یا ان کمپنی کے مالکان کا ذمہ نہیں ہوتا البتہ غریب لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے اپنی اور اپنے کسٹمرز (ڈاکٹرز) کی جیبیں بھرنا اور عیاشی کرنا ان کو ضرور آتا ہے۔ان سب کے بیچ جو سب سے گھناؤنا کردار ادا کرتا ہے وہ ایک ضمیرفروش ڈاکٹر ہوتا ہے جسے سرمایہ دار اپنا کسٹمر کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کے بعد انسان سب سے بڑا یقین اپنے ڈاکٹر پررکھتا ہے اور اپنے بچوں اور اہل خانہ کی صحت اور زندگی کے معاملات ڈاکٹر کے ہاتھ سونپ دیتا ہے، یہ سوچ کر کہ وہ اپنے علم، حکمت اور مہارت سے ان کو صحتمند کردے گا، لیکن وہی ڈاکٹر اس کے ایمان و یقین کو چند پیسوں یا مراعات کے عوض کسی کمپنی کو بیچ دیتا ہے، اگرمریض ٹھیک ہوا تو ڈاکٹر کا کمال اگر مرگیا تو اللہ کی رضا!اس سارے گھناؤنے پن کے ذمہ دار ان کمپنیوں کے مالکان ہیں جو شروع سے آخر تک ایک ڈاکٹر کے تعلیمی اور تجرباتی سفر میں اس کو اس طرح کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اور بالاآخر ضمیر فروش ڈاکٹر سماج کی رائج حکمت عملی کا حصہ بن جاتے ہیں اور زندگی میں کبھی ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کچھ غلط کررہے ہیں۔ یہی تو وہ چیز ہے جو یہ سماج دیتاہے، ایک کبھی نہ ختم ہونے والی مقابلہ بازی، اور اس مقابلہ بازی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے بہت سے نئے حربے بنائے ہیں۔ پہلے CME (Continuation of Medical Education) کے نام پر ڈاکٹرز کو بیرون ملک کے ٹرپ اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے مزے ملتے تھے لیکن اب تو ہر چیز کھلم کھلا ہوتی ہے اب ڈاکٹر جو چاہے اس کوملے گا، مہنگی کار، فلیٹ، کلینک کی مرمت وغیرہ یا پھر نقد کیش سب کچھ۔ ایک تو ان کی دواؤں میں کچھ نہیں ہوتا اور اوپر سے قیمت کا تعین بھی یہ کمپنی مالکان خود کرتے ہیں، اس سے اس دوائی کی قیمت کسی عام دوا کے مقابلہ تین گنا سے بھی زیاد ہ ہو جاتی ہے اور پھر اس کی قیمت سے وہ ڈاکٹر اور کمپنی مالکان اپنا اپنا حصہ لیتے ہیں۔ بہت ساری دواؤں پر تو ڈاکٹرز کو 50فیصد سے بھی زیادہ ملتا ہے تو پھر کیوں نہ کوئی ایسی دوا لکھے جس سے مریض کو نہیں بلکہ خود ڈاکٹر کو پاکستان کے بدترین حالات سے شفا ملے۔ اس امر میں اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کی لوکل کمپنیوں کی سیل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور MNCs کاحصہ دن بہ دن کم ہورہا ہے۔ لیکن MNCsبھی لگاتار چیخ و پکار سے حکمرانوں کے ایوانوں کو ڈرا رہی ہیں اور اب تو امریکہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی فارما انڈسٹری کی بہتری کے لئے مدد کرے گا۔ ایسا اس لئے کہا گیا ہے تاکہ زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیاں تو امریکا کی ہیں اور اس کے بعد یورپ کی۔ اس وقت بھی پاکستان کی بڑی پانچ کمپنیاں یہاں کی لوکل نہیں بلکہ MNCs ہیں جن میں سب سے بڑی Glaxo Smith Kline اور پھر pfizer, Abbot، Novartis ، Sanofi-Aventusہیں۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں اخلاقی اقدار کی دعویدار ہیں لیکن خود فراڈ اور رشوت کے بہت سارے کیس ان کے نام پر قائم ہیں جن میں Gsk نے حال ہی میں تاریخ کا سب سے بڑا ہرجانہ 3 ارب ڈالر ادا کیا ہے، اس سے پہلے pfizerنے 2.5 بلین ڈالر ادا کیا۔ اسی طرح سے دوسری بہت سی MNCs نے کیا۔لوکل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہے کچھ بھی کہیں لیکن حقائق ان سے الگ ہیں۔ پہلے جب کسی بیماری کے اعداد و شماربتائے جاتے تھے تو یہ بات ضروری ہوتی تھی کہ آئندہ سال ان اعداد میں کمی آئے تو مانا جائے گا کہ یہ کمپنیاں اپنا فرض پورا کررہی ہیں لیکن اب اس پر کوئی بات نہیں کرتا اور یہ اعداد و شمار بھی ہر سال بڑھتے ہی جارہے ہیں اور ان سب کے ساتھ ان ساری کمپنیوں کے منافعے بھی بدستور بڑھتے جارہے ہیں۔ اگر MNCs کی شرح منافع دیکھی جائے تو ہر کمپنی کا منافع پہلے سال کے مقابلے 15-20فیصد زیادہ ہوتا ہے اور لوکل کمپنیوں کا تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان سب کے بدلے ساری کمپنیوں نے وزارتِ صحت کو پاکستان کے قانون کے مطابق اپنی ٹوٹل سیلز کا 1فیصد دینا ہوتا ہے جس کو تحقیق پر خرچ کرنے کے لیے وزارتِ صحت پابند ہوتی ہے لیکن یہ سارا پیسہ اس منسٹری کے لوگ کھا جاتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ پاکستان میں (Federal Drug Adminstration) FDA کی ایک بھی لیب موجود نہیں، گزشتہ 12 سال سے پاکستان میں کوئی بھی نیا ریسرچ مالیکیول نہیں بنایا گیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس بہت سی نئی ریسرچ ہے لیکن خاطر خواہ منافع نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس کو پاکستان میں نہیں لا رہیں۔یہاں کی ساری کمپنیاں کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک شخص کا سالانہ علاج و معالجے کااوسط خرچ صرف 10 ڈالر ہے جو کہ پوری دنیا میں بہت کم ہے لیکن ایسا کوئی نہیں کہتا کہ اس کی وجہ دور دراز کے گاؤں اور مضافات میں ہسپتال کی سہولت نہ ہونے اور بہت سے لوگوں کا نیم حکیموں سے یا پیر و مرشد کے ذریعے یا گھریلو ٹوٹکوں سے علاج کروانا ہے۔ کہا جا تا ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی آبادی لگ بھگ 80فیصد ہے۔ باقی جن لوگوں کی پہنچ ہسپتالوں تک ہوتی ہے ان کے ماہانہ گھریلو بجٹ کا 70فیصد صرف دواؤں کی خریداری میں خرچ ہوجاتا ہے۔
پورے پاکستان میں لوگوں کی حالت بدتر ہورہی ہے اور اسی نسبت سے ان کمپنیوں کے منافعے حیران کن حد تک بڑھ گئے ہیں۔ بہت ساری ملٹی نیشنل اور کچھ لوکل کمپنیاں دوائیں ایکسپورٹ بھی کرتی ہیں جس کا کل حجم 200 ملین ڈالر ہے اور یہ ایکسپورٹ دنیا کے 60 ممالک میں ہوتی ہے جس میں سے ایک افغانستان کی کل ادویائی ضروریات کا 70فیصد پاکستان سے جاتا ہے لیکن یہ منافع الگ ہے اور اس کے اعداد الگ سے بتائے جاتے ہیں اور یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں لوکل کمپنیوں سے جیتنے کی وجہ سے صرف پاکستان کے اندر کی کھپت کے اعداد و شمارپر بحث کرتی ہیں۔
WTO کے قانون کے بعد انڈیا کی بہت ساری پراڈکٹس پاکستانی مارکیٹ میں آگئی ہیں اور 2012ء کے ایک نئے معاہدے کے مطابق پاکستان انڈیا سے اور بھی بہت سی پراڈکٹس امپورٹ کرے گا۔ انڈیا میں کل 40,000 کمپنیاں ہیں اور پاکستان میں صرف 600۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں جعلی دواؤں کا کاروبار بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور پوری دنیا میں بکنے والی جعلی دواؤں کا 60فیصد صرف انڈیا میں بنتا ہے اسی وجہ سے بنگلادیش نے انڈیا کی پروڈکٹس پر بندش لگادی۔ آج سرمایہ دارانہ نظام قومی ریاست کی تمام حدود اور سرحدوں کو پھلانگ چکا ہے لیکن ان کو یہ پتہ نہیں کہ سوشلزم کا نظریہ بھی کسی سرحد کا پابند نہیں۔ پاکستان میں تمام لوگوں کو علاج کی بہترین اور مفت سہولیات دینے کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ جس کے ذریعے یہاں پر موجود تمام دواساز صنعتوں کو نیشنلائز کر کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں پر پابندی لگانی ہوگی اور سردرد سے لے کرکینسر کے علاج تک کی تمام ادویات عوام کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ ادویات کی ٹیکنالوجی یہاں موجود نہیں انہیں مزدور حکومت خود درآمد کرکے مفت فراہم کرے گی۔
پاکستان کا انقلاب اس سارے خطے پر اثر ڈالے گا اور اسی انقلاب سے ہم یہ بیہودہ منڈی کی مقابلہ بازی ختم کرکے حقیقت میں انسانی خدمت کو سرانجام دے سکتے ہیں اور ایک ہی طرح کے معیار کی دوائیں بنا کے یہ منافع خوری ختم کر سکتے ہیں۔ایک قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت اپنے تمام شہریوں کو ہر سطح پر مفت معیاری علاج کی سہولت دے کر انسان کی جسمانی اور سماجی حیثیت اور اس کے کام کی صلاحیت کو بڑھا کر مزدور ریاست کی حفاظت اور اسکی ترقی کی ذمہ داری اسے سونپے گی۔ سوشلسٹ انقلاب زندہ باد۔

متعلقہ:

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں موت کی سوداگری! ذمہ دار کون؟

سرمایہ دارانہ نظام بمقابلہ سائنس