رپورٹ: سنگین باچا/ آر ایس ایف
پشاور ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پر دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے کے باوجود پشاور یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج تا دمِ تحریر جاری ہے۔ 27 نومبر کو پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے فیسوں میں اضافہ واپس لینے، ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کی سہولیات میں اضافے اور دوسرے مطالبات کے حق میں احتجاجی ریلی نکالی اورپھر وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے مطالبات پورے کئے جانے تک دھرنے کا آغاز کیا۔ مختلف تنظیموں اور کونسلوں کے اتحاد سے بنائے گئے ’’متحدہ طلبہ محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم پر 27 نومبر 2017ء کو طلبہ 10 بجے نیو اکیڈمک بلاک کے مقام پر جمع ہوئے۔ انہوں نے خوب نعرہ بازی کی اور پھر وہاں سے پیوٹا چوک سے ہوتے ہوئے ایڈمنسٹریشن بلاک کے سامنے دھرنا دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تب تک طلبہ کا احتجاجی دھرناجاری رہے گا۔ 28 اور 29 نومبر کو طلبہ نے رات وی سی دفتر کے سامنے لگائے گئے کیمپ میں گزاری۔ اس دوران انتظامیہ نے ایم ٹی ایم کے قائدین سے کئی دفعہ مذاکرات کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ 30 نومبر کو وی سی نے نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں یہ بات درج تھی کہ طلبہ کے مطالبات کو یونیورسٹی کے قواعد وضوابط کے مطابق حل کیاجائے گا، لیکن طلبہ نے اس نوٹیفیکیشن کو مسترد کیا اور واضح کیا کہ ہم ان نام نہاد قواعد و ضوابط کے خلاف ہیں جو غریب طلبہ پر ہر وقت تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں اور جب تک ان قواعد وضوابط سے بالا ترہمارے مطالبات حقیقی معنوں میں نہیں مانے جاتے تب تک ہمارا دھرنا جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ پشاور یونیورسٹی میں اس وقت کرپشن کی انتہا ہے۔ کئی پوسٹوں پر ایک پروفیسر کا قبضہ ہے۔ یونیورسٹی فنڈز میں بڑے پیمانے پر خوردبرد کی جا رہی ہے، کئی نااہل بندوں کو 20 گریڈ کی نوکریاں د ی گئی ہیں۔ طلبہ کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے۔ یونیورسٹی کے اندر جو بھی پالیسی بنتی ہے وہ صرف چند لوگوں کے فائدے کے لئے بنتی ہے جو الٹا غریب طلبہ کے لئے تعلیم میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ طلبہ کے مطالبات میں ہاسٹلوں کی خستہ حال صورتحال میں بہتری، ٹرانسپورٹ کی فراہمی، طلبہ یونین کی بحالی اور کئی دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ سب سے اہم مطالبہ فیسوں میں 10 فیصد اضافے کو فوراً واپس لینے کا ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں کم سے کم فیس 30 ہزار روپے سے زیادہ ہے اور کئی شعبوں کی فیسیں فی سمسٹر 60 ہزار روپے سے بھی زیادہ ہیں جو غریب طلبہ کی پہنچ سے بالکل باہر ہیں۔ دوسرے ناموں جیسے امتحانی فیس، کمپیوٹر لیب کی فیس، انٹرنیٹ کی فیس وغیرہ کے نام پر لیے جانے والے پیسے اس کے علاوہ ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں جب بھی حکمران طبقات کی شرح منافع میں کمی آتی ہے تو وہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات پر حملے کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام یونیورسٹیوں میں فیسوں میں کسی نہ کسی شکل میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور غریب طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ طلبہ مختلف قسم کے معاشی حملوں کی زد میں ہیں، جب کہ طلبہ یونین پر پابندی لگا کر ان سے آواز اٹھانے کا حق بھی چھینا گیا ہے۔ آج طلبہ کی کوئی ملک گیر تحریک موجود نہیں ہے لیکن تلخ ہوتے ہوئے حالات انہیں جدوجہد کے میدان میں اتار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پچھلے عرصے میں کئی چھوٹی تحریکیں نظر آئی ہیں۔ ہمیں قائداعظم یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج نظر آیا جس میں انہوں نے اپنی شاندار جدوجہد سے کئی اندرونی اور بیرونی حملوں کے باوجود بھی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ کسی ادارے میں طلبہ کی چھوٹی سی کامیابی بھی دوسرے ادارو ں کے طلبہ کو شکتی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں جاری طلبہ کی جدوجہد میں جہاں ان کے مسائل کے خلاف غم و غصے کا کردار ہے وہیں قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی جدوجہد کا اثر بھی موجود ہے جس کا اظہار طلبہ اپنی تقریروں میں وقتاً فوقتاً کر بھی رہے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں جاری طلبہ کے دھرنے میں جہا ں پر سیاسی بحث و مباحثے جاری ہیں وہیں رات کو انتہائی سردی میں موسیقی اورشعرو شاعری کی محفلیں بھی جاری رہتی ہیں۔ پوری یونیورسٹی کا ماحول کچھ دنوں میں یکسر بدل گیا ہے اور مسائل پر سیاسی نقطہ نظر سے مباحث کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اِس احتجاج کی شروعات سے ہی ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘ (RSF) کے ساتھی بھی طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آر ایس ایف پورے پاکستان کے طلبہ اور نوجوانوں سے پشاور یونیورسٹی میں جاری تحریک کے ساتھ یکجہتی کی اپیل کرتا ہے۔ لیکن ہم پشاور یونیورسٹی کے طلبہ پر واضح کرتے ہیں کہ انہیں جمہوری بنیادوں پر اپنی نمائندگی تشکیل دینا ہو گی تاکہ جدوجہد کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔ اِس مقصد کے لئے فوری طور پر ایک احتجاج کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات سے طلبہ کی نمائندگی شامل ہو اور طلبہ کو جوابدہ اِسی کمیٹی کو یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کا حق دیا جائے۔ بصورتِ دیگر مشکوک عناصر تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ کیفیت ایک تباہ کن صورتحال پر منتج ہو گی۔ مزید برآں انتظامیہ کے جھوٹے وعدوں اور دلاسوں پر ہرگز یقین نہ کیا جائے۔ طلبہ کو قواعد و ضوابط کے نام پر قانونی بھول بھلیوں میں الجھانے کی کوشش پہلے سے جاری ہے۔ طلبہ اپنے مطالبات کے حق میں واضح نوٹیفیکیشن جاری ہونے تک احتجاج ہرگز ختم نہ کریں اور مطالبات تسلیم ہونے کی صورت میں متفقہ فیصلے کی صورت میں ہی احتجاج ختم کیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں آج کوئی بھی مسئلہ جدوجہد کے بغیرحل نہیں کیا جاسکتا اور اگر پشاور یونیورسٹی میں طلبہ کی جدوجہد کامیاب ہوئی تو یہ کامیابی دوسرے تعلیمی اداروں کے طلبہ کے لئے مثال قائم کریگی جس سے ملک بھر میں طلبہ کو حوصلہ اور جرات ملے گی۔ طلبہ کی جڑت اور اتحاد ہی ان کی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتا ہے۔