امریکہ کیوبا سفارتی تعلقات کا مستقبل

| تحریر: لال خان |

عالمی سرمایہ داری کا بحران چین سے لے کر یورپ اور امریکہ تک، مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ کہیں سٹاک مارکیٹ کریش ہو رہی ہے تو کہیں ملک دیوالیہ ہیں اور فلاحی ریاست کو رفتہ رفتہ ختم کیا جارہا ہے۔ مظاہرے اور ہڑتالیں یورپ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ داری کی اپنی ناؤ میں چھید در چھید ہو رہے ہیں لیکن دیوار برلن کے انہدام کے 25 سال بعد بھی ’’سوشلزم کی ناکامی‘‘ کی گردان اس نظام کے دانشور طوطے کی طرح دہراتے ہیں۔ امریکہ کیوبا سفارتی تعلقات کی بحالی کو بھی کارپوریٹ میڈیا پر ’’آخری سوشلسٹ ملک کی شکست‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے مین سٹریم انگریزی جریدے کی رپورٹ کے مطابق ’’امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی کے چند گھنٹے بعد ہی واشنگٹن میں کیوبا کا پرچم بلند کرنے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں کیوبا کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔ 1958ء کے بعد برونو روڈ ریگیوز کیوبا کے پہلے وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں قدم رکھا ہے۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ہسپانوی زبان میں کہا کہ ’20 جولائی کو دو طرفہ تعلقات کی بحالی کا آغاز ہوا ہے۔‘ کیری نے مزید بتایا کہ وہ کیوبا کا سرکاری دورہ کریں گے اور وہاں 14 اگست کو امریکی سفارتخانے میں پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت کریں گے۔روڈ ریگیوز نے کیوبا پر عائد معاشی پابندیاں ختم کرنے کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات پر باراک اوباما کا شکریہ ادا کیا اور امریکی کانگریس سے معاشی ناکہ بندی ختم کرنے کی اپیل کی۔‘‘
دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا باقاعدہ اعلان راؤل کاسترو اور باراک اوباما کے درمیان کئی مہینوں کے خفیہ مذاکرات کے بعد کیا گیا ہے۔ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر کیوبا نے دو امریکی جاسوس رہا کئے ہیں۔ امریکہ نے بھی ’’کیوبن 5‘‘ میں شامل کیوبا کے تین خفیہ ایجنٹ رہا کر دئیے ہیں، دو اہلکار پہلے ہی رہا کئے جا چکے تھے۔

Che Guevara with Fidel Castro
فیڈل کاسترو اور چے گویرا

یکم جنوری 1959ء کو چے گویرا اور فیڈل کاسترو کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کے ذریعے کیوبا پر سے امریکہ کے کٹھ پتلی جرنیل فلگینسیو بیٹسٹا کی آمریت کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ کیوبا کے خلاف امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کا آغاز انقلاب کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا۔ امریکہ نے نومولود انقلابی حکومت کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مسلح گروہوں کے ذریعے کیوبا کے ساحلی علاقوں پر حملے کروائے گئے، انتشار پھیلانے کے لئے دہشت گردی کی ان گنت وارداتیں کی گئیں،عالمی سطح پر پراپیگنڈا کی یلغار کی گئی، فیڈل کاسترو سمیت ملک کی اعلیٰ قیادت کو قتل کروانے کی کوشش درجنوں بار کی گئی، بد ترین معاشی پابندیاں نافذ کی گئیں جو آج تک قائم ہیں۔ کیوبا کی حکومت کے مطابق ان معاشی پابندیوں سے ملک کو ہر سال 685 ملین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔
دو طرفہ سفارتی تعلقات جنوری 1961ء میں امریکہ نے ہی منقطع کئے تھے۔ اس سے قبل کیوبا نے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث امریکہ کے سفارتی عملے کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ کیوبا پر معاشی پابندیاں 1960ء میں ہی عائد کی جا چکی تھیں۔ ان پابندیوں کا جواز انقلابی حکومت کی جانب سے امریکی کمپنیوں کی نیشنلائزیشن کو بنایا گیا تھا۔یاد رہے کہ انقلاب سے قبل کیوبا کا درجہ امریکہ کی کالونی سے زیادہ نہیں تھا اور ملک کی زمین اور صنعت کا 70 فیصد سے بھی زائد امریکی کارپوریٹ اجارہ داریوں کے تسلط میں تھا۔ یہ کمپنیاں کیوبا کے وسائل کو بڑے پیمانے پر لوٹ رہی تھیں جبکہ عوام بد ترین غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
1959ء کے بعد انقلابی حکومت نے کیوبا میں بڑے پیمانے پر نیشنلائزیشن کی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند معیشت رائج کی گئی۔ منڈی کی لوٹ مار کے خاتمے سے تعلیم اور علاج کے شعبوں میں تیز ترقی ہوئی ۔ روزگار اور گھر کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ ہنگامی پلان کے تحت چند سالوں میں ناخواندگی کا مکمل خاتمہ کیا گیا۔ غذائی قلت کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور دنیا کا بہترین نظام صحت قائم کیا گیا۔ اس عہد میں سوویت یونین کے ساتھ کیوبا کے بہت قریبی تعلقات قائم ہوئے اور امریکہ کی معاشی پابندیوں کا ازالہ سوویت یونین کی امداد اور تجارتی سبسڈی کے ذریعے ہوتا رہا۔ ان تعلقات کا منفی پہلو یہ تھا کہ اس وقت کے سوویت یونین کی طرز پر کیوبا میں بھی ریاستی افسر شاہی پروان چرھنے لگی۔

embargo on cuba cartoon
کیوبا 1960 کے بعد سے سخت معاشی پابندیوں کی زد میں ہے

سوویت یونین کے انہدام کے بعد کیوبا دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا اور عالمی منڈی کی جکڑ میں معیشت کا دم گھٹنے لگا۔ لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود عوام نے قربانیاں دے کر انقلاب اور اس کی حاصلات کا دفاع بڑی جرات اور حوصلے سے کیا۔ نہ صرف معاشی جکڑ بندی بلکہ امریکی سامراج کی جانب سے کئے جانے والے ’’سوشلزم کے خاتمے‘‘ کے سیاسی پراپیگنڈا کا مقابلہ بھی کیوبا کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے بخوبی کیا اور جھکنے سے انکار کر دیا۔ اسی تاریک عہد میں ونزویلا میں بولیوارین انقلاب کا آغاز 1998ء میں ہوا جس نے کیوبا کے عوام کو نئی ہمت اور شکتی دی۔ ہوگو شاویز دنیا بھر میں امریکی سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی علامت بن کر ابھرا اور ونزویلا کے ساتھ کیوبا کے دوستانہ تعلقات استوار ہوئے جس سے کیوبا کی تنہائی کسی حد تک ختم ہوئی۔
کیوبا کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کی منصوبہ بند معیشت ایک چھوٹے سے جزیرے کی مانند ہے جسے ہر طرف سے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے سمندر نے گھیر رکھا ہے۔عالمی منڈی کے تمام قوانین کیوبا کی معیشت کے منافی ہیں۔ تجارت کے لئے ہارڈ کرنسی بڑی مشکل سے سیاحت، طبی سہولیات اور نِکل وغیرہ کی فروخت کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ کرنسی بعد ازاں منڈی کی بلند قیمتوں پر بھاری مشینری اور خوراک وغیرہ کی خریداری کی نذر ہو جاتی ہے۔ کسی بھی ترقی پذیر ملک کی طرح صنعت کی کم پیداواریت اور پرانی مشینری کے پیش نظر، عالمی منڈی میں تجارت معیشت کو نچوڑ لیتی ہے۔ انہی حالات کے تحت حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے میں ’’چینی ماڈل‘‘ سے متعلق خوش فہمیاں جنم لے رہی ہیں: یعنی معیشت کے کچھ حصوں میں منڈی کے قوانین متعارف کروائے جائیں جبکہ اہم حصے ریاستی ملکیت میں رہیں۔لیکن اس منصوبے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ چین ہی کی طرح کچھ معاشی شعبوں میں منڈی کی بحالی کا ناگزیر نتیجہ سرمایہ داری کی مکمل بحالی کی شکل میں برآمد ہو گا اور انقلاب کی اہم حاصلات چھن جائیں گی۔ علاوہ ازیں چین کے مقابلے میں کیوبا، محدود وسائل رکھنے والا چھوٹا سا جزیرہ ہے اور عالمی سرمایہ داری کے مقابلے میں انتہائی کمزور پوزیشن رکھتا ہے۔

fidel_castro_by_latuff2
فیڈل کاسترو کی علالت کے بعد سے کمیونسٹ پارٹی کا اصلاح پسند اور رد انقلابی دھڑا اقتدار پر حاوی ہے۔

امریکی ریاست کا ایک حصہ بھی پچھلے کچھ عرصے سے بزور طاقت انقلاب کو کچلنے کی ناکام پالیسی پر تنقید کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں ادراک ہے کہ کیوبا اگر معیشت کے کچھ حصے بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کھولتا ہے تو امریکی کمپنیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے اور کینیڈا یا یورپ کے سرمایہ دار ہی اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ اوباما حکومت درحقیقت کیوبامیں سرمایہ داری کی بحالی کے ’پلان بی‘ پر عمل پیرا ہے جس کے تحت زور زبردستی کی بجائے ’’دوستانہ‘‘ انداز میں سرمائے کی مداخلت کروائی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے کیوبا میں نومولود سرمایہ داروں کی مالی اور سیاسی مدد کی جائے گی اور مارکس کے الفاظ میں ’’سستی اجناس کی گولہ باری‘‘ سے انقلاب کو تباہ کیا جائے گا۔ نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ’’واشنگٹن کو چاہئے کہ کیوبا کے کاروباری طبقے کو مالی امداد اور تربیت دے کر کمیونسٹ پارٹی کے اصلاح پسند دھڑے کو مضبوط کرے۔‘‘ دوستی اور تعلقات کی بحالی کی تمام تر لفاظی کے باوجود امریکہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر کیوبا کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا رہے گا۔
عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے جنم لینے والے حالات کیوبا کے حق میں ہیں۔ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ لیکن سوویت یونین اور چین کی مثالیں یہ تاریخی سبق بھی دیتی ہیں کہ وسیع افرادی قوت اور وسائل کے باوجود بھی ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کا نظریہ دیوانے کا خواب اور مارکسزم سے کھلی غداری ہے۔سیاسی اور معاشی تنہائی کے شکارانقلابِ کیوبا کے مستقبل کا فیصلہ بھی آخری تجزئیے میں عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد اور انقلابی تحریکوں سے ہو گا۔ یہ عالمی منظر نامہ ہی کیوبا کے اندر برسر پیکار انقلابی اور رد انقلابی قوتوں کے توازن پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرے گا!

متعلقہ:

حصہ اول: چے گویراکون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟

کیوبا امریکہ سفارتی تعلقات کی بحالی، مضمرات اور تناظر