نوشتۂ دیوار!

تحریر: عمران کامیانہ

سال 2017ء کئی تاریخی حوالوں سے علامتی اہمیت کا حامل تھا۔ اِس سال انقلابِ روس کو سو سال مکمل ہوئے۔ مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف ’سرمایہ‘ کی اشاعت کو ڈیڑھ سو برس بیت گئے۔ یہ 2007ء کے مالیاتی کریش کے بعد دسواں سال تھا جس میں ملکی و عالمی سطح پر کئی غیر معمولی واقعات نے جنم لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے باضابطہ طور پر امریکہ کا اقتدار سنبھالا، جس کے بعد عالمی سفارت اور سیاست میں ایک نئے انتشار کا آغاز ہمیں نظر آتا ہے۔ برطانیہ کے قبل از وقت انتخابات میں لیبر پارٹی نے تقریباً دس فیصد اضافے کے ساتھ 40 فیصد ووٹ حاصل کئے، جس سے جیرمی کاربن کی پوزیشن خاصی مستحکم ہو گئی۔ جرمنی کے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو کئی دہائیوں کی بد ترین شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ انجیلا مرکل جیت تو گئی لیکن ووٹوں میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ دوسری طرف انتہائی دائیں بازو کی ’AfD‘ نے 95 نشستیں حاصل کیں۔ ہالینڈ کے انتخابات میں مقابلہ دائیں بازو کے درمیان ہی رہا جس میں ’نیو فاشسٹ‘ رجحان کو شکست ہوئی۔ سپین میں کاتالونیہ کی قومی آزادی کی جرات مندانہ تحریک نے سر اٹھایا لیکن فتح سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ مشرقِ وسطیٰ سلگتا رہا۔ شام اور عراق میں داعش کو بظاہر کچل دیا گیا ہے لیکن بنیاد پرستی کی وحشت اور انتشار کا خاتمہ اِس نظام میں ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ناسور اِس نظام کی پیداوار بھی ہے اور ضرورت بھی۔ یمن پر سعودی جارحیت نے حالیہ تاریخ کے بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس میں عام انسان، بالخصوص معصوم بچے اور خواتین بھوک اور بارود سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی نے سعودی ریاست کی بنیادیں بھی لرزا دی ہیں ۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے اور سعودی معیشت کو لبرلائز کرنے کا عمل تضادات سے بھرپور ہے جو آنے والے دنوں میں دھماکہ خیز واقعات کو جنم دے سکتا ہے۔ زمبابوے میں رابرٹ موگابے کی دہائیوں پر مبنی حاکمیت کا خاتمہ ہوا۔ اِسی طرح چین میں شی جن پنگ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی ہے اور کمیونسٹ پارٹی اور ریاستی مشینری میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ یہ عمل درحقیقت چینی افسر شاہی کے قابو سے باہر ہو جانے والے زیادہ بدعنوان حصے کی کانٹ چھانٹ کر کے پورے سیٹ اپ کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ ملکی سطح پر بات کی جائے تو ریاست شدید داخلی تضادات کا شکار نظر آتی ہے جس کا اظہار نواز شریف کی حالیہ نا اہلی کی شکل میں ہوا ہے۔ نواز حکومت کی شروعات میں لگائے گئے سامراجی بینکوں کے ٹیکوں کا اثر اب زائل ہو رہا ہے اور معیشت ایک بار پھر روبہ زوال ہے۔خسارے بڑھ رہے ہیں اور مختلف شکلوں میں قرضے لینے کا عمل ایک بار پھر تیز ہو گیا ہے۔ مختلف سامراجی طاقتوں کی مداخلت نے منظر نامے کو اور بھی پیچیدہ اور پر انتشار بنا دیا ہے۔
آج بالعموم پوری دنیا ایک عدم استحکام اور انتشار کی زد میں نظر آتی ہے۔ گزشتہ عرصے میں کئی ممالک میں دہائیوں پر مبنی سیاسی روایات مسترد ہوئی ہیں یا جیسا کہ ہم برطانیہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ ریڈیکل بنیادوں پر ایک مرتی ہوئی روایت کا احیا ہوا ہے۔ ایک عہد کی مروجہ سیاست کی ٹوٹ پھوٹ دائیں اور بائیں بازو کے نئے رجحانات کو جنم دے رہی ہے۔ تحریکیں جب انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں پسپا ہوتی ہیں تو رجعت حملہ آور ہوتی ہے جیسا کہ ہمیں 2011ء کے عرب انقلابات کے بعد نظر آتا ہے۔ اِسی طرح نظام کے خلاف غصہ اور بے چینی کو بھی جب کوئی ترقی پسندانہ اور انقلابی سیاسی اظہار نہیں مل پاتا تو یہ ایک مسخ شدہ شکل میں سامنے آ کر رجعتی رجحانات کو جنم دے سکتی ہے ۔ پیش قدمی و پسپائی کا یہ عمل جاری رہے گا۔ لیکن مارکسزم کی سائنس انسان کو سطح کے نیچے جاری عوامل کو سمجھنے اور بظاہر الگ تھلگ نظر آنے والے واقعات سے عمومی نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ تجزئیے کا یہ جدلیاتی طریقہ کار انسان کو انتشار میں نظم دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِس کے برعکس عامیانہ یا گھٹیا فکر کسی مظہر کی ظاہریت اور اساس میں فرق کرنے اور سماجی ارتقا کے قوانین کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ یہ بنیادی قوانین ہی ہیں جن کی دریافت کا سہرامارکس کے سر جاتا ہے۔ 1859ء میں سیاسی معاشیات کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے پیش لفظ میں مارکس نے واضح کیا تھا کہ ’’میری تحقیق نے مجھے اِس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ سماج کے قانونی رشتوں اور سیاسی اشکال کو انسانی شعور کے نام نہاد عمومی ارتقا کی بنیاد پر نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اِس کے برعکس وہ زندگی کے مادی حالات میں سے برآمد ہوتے ہیں… میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں اور جو نتیجہ میرے مطالعے کا رہنما اصول بن چکا ہے اِسے مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے: سماجی پیداوار کے عمل میں انسان ناگزیر طور پر مخصوص رشتوں میں بندھ جاتے ہیں۔ پیداوار کے یہ رشتے ان کی مرضی سے ماورا ہوتے ہیں اور پیداواری قوتوں کے ارتقا کے کسی مخصوص مرحلے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِن رشتوں کا جمع حاصل سماج کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے ۔ یہی وہ حقیقی بنیاد ہوتی ہے جس پر قانون اور سیاست کے بالائی ڈھانچے (Superstructures) تعمیر ہوتے ہیں … انسانوں کا شعور اُن کے وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ اُن کا سماجی وجود اُن کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ ارتقا کے ایک خاص مرحلے پر سماج کی مادی پیداواری قوتیں‘ مروجہ پیداواری رشتوں سے تصادم میں آ جاتی ہیں۔ یہ رشتے‘ پیداواری قوتوں کو آگے بڑھانے کی بجائے ان کے پیروں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں۔ تبھی ایک سماجی انقلاب کا عمل شروع ہوتا ہے۔معاشی بنیاد میں آنے والی تبدیلیاں جلد یا بدیر سارے دیوہیکل (سیاسی و قانونی) بالائی ڈھانچے کی تبدیلی پر منتج ہوتی ہیں۔‘‘
تاریخی حوالے سے بات کی جائے تو سرمایہ داری کی پیداکردہ پیداواری قوتوں اور مروجہ پیداواری رشتوں کا یہ تصادم ہی آج کے انسانی سماج کا بنیادی تضاد ہے۔ 2007ء کے مالیاتی کریش نے عالمی سرمایہ داری کی معاشی بنیادوں میں جو زلزلہ برپا کیا تھا اُس نے سیاست اور ریاست کے بالائی ڈھانچوں میں بھی بھونچال پیدا کیا ہے۔ لیکن معاشی بنیاد میں تبدیلی کا بالائی ڈھانچوں پر اثر کوئی یکطرفہ عمل نہیں ہے۔بالائی ڈھانچے بھی ناگزیر طور پر معاشی بنیاد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہ مالیاتی کریش اور اس سے جنم لینے والا معاشی و اقتصادی بحران، جسے ’Great Recession‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے، دہائیوں سے چلے آ رہے تضادات کا نا گزیر اظہار تھا۔ یہ 1929ء کے بعد سرمایہ داری کا بدترین بحران تھا۔ اِس نظام کے معذرت خواہان اور اصلاح پسندوں کی رائے کے برعکس یہ سرمایہ داری کے کسی مخصوص ماڈل کا نقص نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے سے چلی آ رہی ضرورت تھی جس نے اپنا اظہار ایک حادثے کی شکل میں کیا۔ کینشین ازم، ریاستی سرمایہ داری یا پھر نیو لبرلزم اور ٹریکل ڈاؤن اکنامکس وغیرہ ایک ہی نظام کو چلانے کے مختلف طریقے ہیں اور نظام کے مخصوص تقاضوں کے تحت ہی انہیں اپنایا یا مسترد کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے ماہرین نے بالخصوص 1930ء کے کریش کے بعد سے بحرانات کو ٹالنے یا ان سے نکلنے کے کئی طریقے ایجاد کئے ہیں۔ لیکن تضادات کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ لمبے عرصے میں اپنا اظہار اتنے ہی زور دار انداز سے کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کا کوئی بھی معاشی بحران آخری تجرئیے میں سرمائے کے اجتماع (Capital Accumulation) کے اس عمل میں رخنہ پڑنے کا نتیجہ ہوتا ہے جو سرمایہ داری کے انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ بحران کا آغاز مالیاتی سیکٹر سے ہوا تھا لیکن یہ تیزی سے پھیل کر اقتصادیات میں سرایت کر گیا اور کئی ریاستیں دیوالیے کے دہانے پر آ کھڑی ہوئیں۔ مالیاتی کریش بعد کے معاشی بحران کی وجہ نہیں بلکہ نقطہ آغاز تھا۔ قرضوں کے جس طریقے سے سرمایہ داری کو لمبے عرصے سے چلایا جا رہا تھا وہ لا متناہی طور پر جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن بحران کے پھٹ پڑنے کے بعد بھی یہ قرضے بڑھتے ہی چلے گئے ہیں اور آج تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ رائٹرز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی قرضہ اِس وقت 226 ٹریلین ڈالر کی سطح پر کھڑا ہے جو کہ سالانہ عالمی پیداوار کا 324 فیصد بنتا ہے۔ 2008ء کے بعد سے اِس قرضے میں 74 ٹریلین ڈالر کا ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ یہ قرضے درحقیقت سرمایہ داری کو لاحق نامیاتی بیماری کا ناگزیر اظہار ہیں۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون’’ عالمی معیشت 2008ء جیسی عیاشی کر رہی ہے‘‘ کے مطابق، ’’2008ء کے بحران کے بعد ملکہ الزبتھ نے لندن سکول آف اکنامکس کے ماہرین سے ایک ملاقات میں پوچھا تھا کہ آخر دوسری عالمی جنگ کے بعد کے بدترین مالیاتی بحران کی پیش گوئی کوئی کیوں نہیں کر سکا؟… کیا ہم وہی غلطی دہرانے والے ہیں؟ قومی امکانات ہیں کہ جواب ہاں میں ہے۔ امریکی معیشت یقینابہتر چل رہی ہے اور ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر اثاثوں کی قیمتیں تیزی سے اپنی داخلی قدر سے بلند ہو رہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک بلبلہ ہے… اگلے ایک یا دو سال میں جب یہ بلبلے پھٹیں گے تو کیا ملکہ پھر یہی سوال نہیں پوچھ رہی ہو گی؟‘‘
جہاں تک امریکی معیشت میں بہتری اور ’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘ کے زور پکڑنے کا تعلق ہے تو یہ بحالی بہت نحیف ہے۔ یورپی معیشتیں بھی گزشتہ کئی سالوں کی سب سے زیادہ شرح سے نمو پا رہی ہیں اور جاپان کا گروتھ ریٹ بھی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کے بعد برآمدات میں اضافے سے کچھ اوپر گیا ہے۔لیکن’OECD‘ کی حالیہ رپورٹ کئی خدشات سے لبریز ہے، جس کے مطابق ’’عالمی معیشت اب 2010ء کے بعد کی تیز ترین شرح سے نمو پا رہی ہے… عالمی شرح نمو میں اضافے کے ساتھ روزگار میں ٹھوس اضافہ اور سرمایہ کاری میں کچھ تیزی بھی آئی ہے… لیکن یہ ماضی کی بحالیوں کے مقابلے میں سب سے معمولی بحالی ہے… سرمایہ کاری، تجارت، پیداواریت اور اجرتوں پر مالیاتی بحران کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔‘‘ مزید برآں ’OECD‘ کا خیال ہے کہ حالیہ بحالی کی بنیادیں زیادہ تر کھوکھلی یا ’Fictitious‘ ہیں کیونکہ یہ مالیاتی اثاثوں اور پراپرٹی پر مبنی ہے: ’’ترقی یافتہ معیشتوں میں مالیاتی خطرات بڑھ رہے ہیں… طویل عرصے کی کم شرح سود سے خطرات مول لینے (سٹہ بازی) کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور بشمول ہاؤسنگ مارکیٹ اثاثوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں… پیداواری سرمایہ کاری، جو قرضوں کی واپسی کے وسائل پیدا کرے گی، ناکافی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ یوں صورتحال کے حوصلہ افزا ہونے کا تاثر دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود سرمایہ داری کے پالیسی سازوں کا تناظر کچھ زیادہ رجایت پر مبنی نہیں ہے۔ اس وقت انہیں سب سے زیادہ فکر قرضوں کے دیوہیکل حجم اور مالیاتی سیکٹر میں سٹے بازی کے نتیجے میں ایک نئے کریش کی لاحق ہے۔ ’معاشی استحکام‘ پر آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں بھی ’غیر مالیاتی کمپنیاں‘ پرانے قرضے اتارنے کے لئے زیادہ شرح سود پر نئے قرضے لے رہی ہیں۔ جب تک سرمائے کی شرح منافع میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے تب تک سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہوتی ہے اور قرضوں میں اضافہ بھی قابل برداشت ہوتا ہے۔ لیکن جب منافعے گرنے لگتے ہیں تو یہی قرضے بھاری بوجھ بن جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں منافعوں میں گراوٹ سے سرمایہ کاری سوکھ جاتی ہے جس سے نئے روزگار کے مواقع سکڑتے ہیں، قوت خرید گرنے لگتی ہے اور زائد پیداوار کے بحران جنم لیتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں ترقی یافتہ معیشتوں، بالخصوص امریکہ کے کارپوریٹ منافعوں میں بہتری آئی ہے، جس سے سرمایہ کاری میں کچھ اضافہ بھی ہوا ہے ، لیکن شرح منافع بہت کمزور ہے اور عالمی جنگ کے بعد کی کم ترین سطح پر ہے ۔دوسری طرف ریاستوں کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ قرضے بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ آنے والے مہینوں میں یہ منافعے حالیہ جزوی بہتری کے بعد زوال کی طرف جاتے ہیں تو ایک بڑا اور زیادہ گہرا بحران ناگزیر ہو گا۔
لیکن انقلابیوں کے لئے ایک بنیادی نقطہ اِن معاشی بحرانات کے تسلسل کے سیاسی و سماجی مضمرات کا بھی ہے۔ آج پوری دنیا میں طبقاتی تفریق اور معاشی نا ہمواری کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں پر ہے۔ ’آکسفیم‘ کے تازہ اعداد و شمارکے مطابق آٹھ امیر ترین افرادکے پاس دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ پچھلے سال اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان امیر ترین افراد کی تعداد 62 تھی۔ تازہ اعداد و شمار نئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کئے گئے ہیں جن کے مطابق چین اور ہندوستا ن میں غربت پہلے لگائے گئے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ’’کروڑوں لوگوں‘‘ کو خط غربت سے بلند کرنے کے سامراجی پراپیگنڈے کے برعکس غربت سے دوچار افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مجتمع ہوتی چلی جا رہی ہو اور عام انسانوں کی زندگیوں میں بہتری آ سکے؟ اِس نظام میں ٹیکنالوجی جوں جوں جدید ہوتی جاتی ہے، انسانی زندگی سہل ہونے کی بجائے کٹھن ہوتی جاتی ہے، وقت اور آسائش مٹتے چلے جاتے ہیں، بیروزگاری بڑھتی جاتی ہے۔ آج ایک طرف انسانیت کی اکثریت محرومی میں سسک رہی ہے تو دوسری طرف زائد پیداواری صلاحیت ایک مستقل عارضے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور نسل انسان بد ترین بربادیوں کے خطرات سے دو چار ہے۔ یوں یہ نظام انسانیت کے وجود کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ لیکن خود بخود ختم نہیں ہو گا۔ جب تک اسے شعوری جدوجہد سے اکھاڑا نہ گیا یہ استحصالی معیشت اِسی طرح لڑھکتی اور گھسٹتی رہے گی، اِس نظام کی ریاستیں جبر ڈھاتی رہیں گی، سیاست کا انتشار اور عدم استحکام جاری رہے گا اور محنت کش طبقات کی زندگیاں عذاب بنی رہیں گی۔ لیکن سرمایہ داری سے نجات کی شعوری جدوجہد ایک اوزار کی متقاضی ہے اور یہ اوزار ایک انقلابی پارٹی کی شکل میں ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ نے سرمایہ داری سے استحکام چھین لیا ہے۔آنے والے دنوں میں ناگزیر طور پر تحریکیں اٹھیں گی، بغاوتیں ہوں گی۔ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں ان کی شکست ناگزیر ہے۔ لیکن اگر اس سلگتی ہوئی بغاوت کو انقلابی مارکسزم کے نظریات سے لیس قیادت میسر آتی ہے تو سرمایہ داری کی اندھیری رات کا خاتمہ اور ایک سرخ سویرے کا آغاز نوشتہ دیوار ہے!