[تحریر: قمرالزماں خاں]
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب نظریات نہ رہیں تو پھر واقعات اور شخصی کرداروں کو بڑھا چڑھا کرپیش کیاجاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے نظریاتی بحران کوآج کل نیم حکیموں کے تجربات سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابات میں شکست کو محض تنظیمی کمزوری قرار دیا جانا یک رخی اور مکینکل سوچ کا نتیجہ ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ مسلسل لوگوں کو دھوکہ دیتے رہیں اور وہ ہمیشہ ہی دھوکوں کا شکار ہوتے رہیں، کبھی نہ کبھی عام لوگ بھی اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پچھلے دو عام انتخابات میں تو پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں عملاً الیکشن لڑا ہی نہیں۔ چند حلقوں کے علاوہ کہیں سنجیدہ اور انتخاب جیتنے والی مہم ہی نہیں چلائی گئی، سارا الزام طالبان اور دہشت گردوں پر ڈال کر ’’مفاہمت ‘‘ کی پالیسی کی آبیاری کی گئی، جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نوازگروپ کو جیتنے کے لئے سازگار میدان مہیا ہوگیا۔
2008-13ء کی بدترین حکومت کے دوران لوٹ مار، مہنگائی، توانائی کے بحران، بدانتظامی اور عوام دشمنی پر مبنی سامراجی پالیسیوں پر عوامی ردعمل اپنی پوری شدت سے موجود تھا۔ اسی ردعمل کے خطرے کے باعث پیپلزپارٹی پر قابض قیادت نے انتخابی مہم میں نہ جانے میں ہی عافیت محسوس کی۔ سندھ کے بیشتر حصوں میں ویسے ہی وڈیرہ شاہی کی من مرضی کے ’’کراچی ٹائپ‘‘ انتخابات ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہاں جام صادق علی، ارباب عبدالرحیم اور غوث شاہ جیسے ہی اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ مقتدر قوتوں نے پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت بنانے کا موقع دیکر مکمل طور پر حزب اختلاف کی سیاست کی طرف دھکیلنے سے شعوری طور پر گریز کیا، تاکہ اقتدار کے مزے اور فوائد سے پارٹی قیادت پر’’مفاہمت‘‘ اور ’’مصالحت‘‘ کا دباؤ برقرار رہے۔
پنجاب میں منظور وٹو اور جنوبی پنجاب میں مخدوم شہاب الدین کی صدارت کے فیصلے کو ’’پارٹی کی تعمیر نو‘‘ کا ذریعہ بیان کیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ صرف تنظیمی بنیادوں پر کبھی بھی کوئی پارٹی مضبوط نہیں ہوسکتی تھی مگر ان فیصلوں نے تو پارٹی کی طبقاتی ہیئت کو اور بھی مسخ کر کے رکھ دیا۔ منظور وٹو کی طرح شہاب الدین بھی’’ سلیپنگ صدارت ‘‘سے محظوظ ہوتے رہے اور پھر ایفی ڈرین کیس نے ان کی شخصیت اور عہدے پر تازیانے برسانے شروع کردیے۔ مگر کرپشن چارجز ’’مفاہمت زدہ‘‘ پیپلز پارٹی کے لئے اتنا بڑا مسئلہ کبھی بھی نہیں رہے۔ اگر بدعنوانی کے الزمات کی وجہ سے عہدوں سے ہٹانے کی پالیسی بنائی جائے تو پھر بیشتر پارٹی عہدے خالی ہوجائیں۔ اب مخدوم احمد محمود کا جنوبی پنجاب کا صدر بنایا جانا ایک طرف پارٹی میں گیلانی زرداری گروہ کی پارٹی میں ’’پاورگیم‘‘ میں پیش رفت ہے تو دوسری طرف زندگی بھر پیپلز پارٹی پر تبرے برسانے، دھمکیاں دینے اور پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی آرزو رکھنے والے احمد محمود اور انکی مسلم لیگی سیاسی میراث کی اخلاقی شکست کا کھلا ثبوت ہے۔
جنوبی پنجاب کے صدر کے طور پر نامزد ہونے کے بعد مخدوم احمد محمود نے اپنے روایتی انداز میں بڑے بڑے دعوے کرنا شروع کردئے ہیں جو اس کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ اپنے گردوپیش کے وڈیروں کی نسبت مخدوم احمد محمود ’’محنتی‘‘ سیاست دان ہے جسے ضلع رحیم یارخاں کی حد تک بلدیاتی سیاست کے داؤ پیچ میں عبور حاصل ہے۔ ماضی میں اس کی سیاست ایک کل وقتی سیاسی راہنما کے طور پر معروف تھی۔ مگر یہاں معاملہ اس کی داؤ پیچ والی بلدیاتی سیاست سے بلند ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بحران کا تعلق اقتدار سے محرومی یا فیض یابی، انتخابات جیتنے یا ہارنے کے معاملات سے بھی بالا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مجموعی بحران کا تعلق پارٹی کے تاسیسی پروگرام، انقلابی نقطہ نظر اور ترقی پسندانہ خیالات سے انحراف ہے۔ لہذا اس بحران کو کسی جعلی جوش وجذبے، بیان بازی یا پھر تنظیمی سطح پر حل کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔
اپنی نامزدگی کے فوراً بعد احمد محمود کا یہ بیان کہ جنوبی پنجاب کی ہر گلی اور محلے سے نعرہ بھٹو کی صدا گونجے گی، اس وقت تک بے معنی اور تعبیر سے عاری جملہ ہے، جب تک بھٹو کے ان نظریات کو بحال نہ کیا جائے جنہوں نے انہیں’’ڈیڈی ایوب خان ‘‘کے لاڈلے اور کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل سے بدل کر ایک عوامی لیڈر بنایا تھا۔ انہی نظریات کو، جن کی تشکیل اور تشریح پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کے ذریعے ہوئی، بعد ازاں ’’بھٹوازم‘‘کہا گیا۔ پارٹی بنانے کے مقاصد اور غیر مبہم سوشلسٹ نظریات کا ہی جادو تھا جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو یکایک مقبول اور عوامی پارٹی میں بدل دیا تھا۔ بکنے والے نجی میڈیا ہاؤسز اورچوبیس گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے بغیر 1968-69ء میں یہ نظریات عام آدمی تک اس وجہ سے پہنچے اور مقبول ہوئے کیوں کہ پارٹی پروگرام میں مزدور، کسان، نوجوان اور عوام کی زندگی بدل دینے کا پیغام تھا۔ سرمایہ داری، جاگیر داری کا خاتمہ اور تمام ذرائع پیداوار کو اشتراکی ملکیت میں لئے جانے کا وعدہ محنت کش طبقے کے دل تک رسائی حاصل کرگیا۔ امیر اور غریب کے فرق کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ مخادیم، امرا، پیروں، گدی نشینوں، خوانین، جاگیرداروں اورسرداروں کی سماجی اور طبقاتی حیثیت کو ختم کرنے اور عام آدمی کو حقیقی انسانی عظمت اور تشخص دینے کا وعدہ کیا گیا تو پھر حکمران طبقے کا جبر و استحصال صدیوں سہنے والا محنت کش طبقہ کیسے سیاست سے لاتعلق رہ سکتا تھا؟یہی جادو تھا جو سرچڑھ کربولا اور پھر اسکی بازگشت اگلی دہائیوں پر محیط ہوگئی۔ مگر ان وعدوں اور دعووں کی تکمیل میں تاخیر اور بعد ازاں ان سے انحراف اور لاتعلقی ہی وہ حقیقی اسباب ہیں جن سے پیپلز پارٹی کے بحران برآمد ہوا اور دن بدن شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ بحران کا یہ دیو اب کسی جاگیر دار، وڈیرے، پیر یا مخدوم کی کرامات یا ’’ٹونے‘‘ سے واپس بوتل میں نہیں جائے گا۔ اس بحران کو قابو کرنے کا نسخہ وہی بنیادی دستاویزات میں درج پروگرام ہے، اس کے علاوہ تمام حربے اور سطحی طریقے بری طرح ناکامیوں اور شکستوں سے ہمکنارہوں گے۔
ماضی قریب میں سید احمد محمودکوہونے والی پے درپے سیاسی شکستوں کے بعد پیپلز پارٹی کا سہارا، اس کی ذاتی سیاست کے لئے بہرحال خاصا ’’منافع بخش‘‘ ہے۔ اس نے اپنی نامزدگی سے پہلے اپنے بیٹے مرتضیٰ محمود کو ڈویژن بہاولپور کا کوآرڈینیٹر مقرر کرایا ہے اور اگلے مرحلوں میں وہ’’ ڈی فنگشنل مسلم لیگ‘‘ کے سابق عہدے داروں اور اپنے ذاتی ملازمین قسم کے ساتھیوں کو پارٹی کے کلیدی عہدوں پر لے آئے گے، یہ ساری وہی ٹیم ہے جو ماضی میں پیپلز پارٹی مخالفت میں بدترین قسم کے غیر اخلاقی حربوں کا سہارا لیا کرتی تھی۔ مگر سیاسی زوال کے بھنور سے نکل کر پیپلز پارٹی کی کشتی میں سوار ہونے والے احمدمحمود جیسے سوار شاید نہیں جانتے کہ اس کشتی میں غداریوں، نظریاتی انحراف اور محنت کش طبقے سے بے وفائی نے نہ صرف کئی چھید ڈال رکھے ہیں بلکہ ان کی اپنی سواری اس ڈوبتی ناؤ پر اور بھی بوجھ ڈال رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کی عمر47 سال ہوچکی ہے، چاردہائیوں سے جن نعروں اور وعدوں سے کام چلایا گیا اب وہ ساکھ کھوبیٹھے ہیں۔ پھر ایک عام آدمی، جس نے ساری زندگی وڈیروں، مخادیم اور ذرائع پیداوار پر قابض گروہ کے طبقاتی ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کی ہو، کیسے تسلیم کرے گا کہ محنت کشوں کے یہی دشمن اب اس کے رہنما ہیں؟ سید احمد محمود سمیت محنت کش طبقے کے دشمن جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور استحصالی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو پارٹی کے کلیدی عہدوں پر فائض کرنا پارٹی کے مخلص، نظریاتی اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی سرعام تذلیل اور تحقیر ہے۔ جنوبی پنجاب میں ہزاروں کارکن ایسے ہیں جن کی وابستگیاں پارٹی بننے کے پہلے دن سے آج تک کسی شک وشبہ سے بالا ہیں۔ باکردار اورباصلاحیت افراد کی کسی طور پر کمی نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کی صدارت کے لئے احمد محمود کسی طور موزوں نہیں تھا، وہ نہ صرف پارٹی کا شدید دشمن رہا ہے بلکہ وہ اس مزاج، مٹھاس اور خلوص وقربانی سے معمور جذبوں سے ہی ناآشنا ہے جو پیپلز پارٹی کے کارکن اور حامی کا طرہ امتیاز ہے۔ اس قسم کی نامزدگی کوڑوں، پھانسیوں، قیدوں اور سزاؤں کے باوجود وفا کا پرچم بلند رکھنے والے پارٹی جیالوں کی توہین ہے۔ ہر دلہے کے گلے میں ہار پہنانے والے موقع پرست پیپلز پارٹی میں بھی ہیں جو ہر آنے والے کا سواگت اور جانے والے کی غیبت کرنے کو ہی سیاست سمجھتے ہیں۔ مگریہ سیاسی مراثی پیپلز پارٹی کے عام ورکر، حامی اور ووٹر کے نمائندہ نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ اپنی سیاسی نوکری کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ پروفیشنل نعرے باز دھرتی پر بسنے والے کروڑوں مظلوموں اور بے بسوں کے دشمن اور زمین کا بوجھ ہیں۔ پیپلزپارٹی غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی میراث ہے جس پر دشمن طبقے کا قبضہ ایک بغاوت اور غصے کو جنم دیگا۔ یہ بغاوت جب چل نکلی تو پیپلز پارٹی اور پاکستان، دونوں کے مقدر کا فیصلہ ہوجائے گا!
متعلقہ:
پیپلز پارٹی کا احیا: نظریات یا شخصیات؟
پنجاب میں گورنر کی تبدیلی؛ پیپلز پارٹی قیادت بد ترین موقع پرستی کا شکار