| تحریر: قمرالزماں خاں |
پورے سال کی سالگراؤں اور برسیوں کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی ایک دفعہ ’’یوم سیاہ‘‘ بھی مناتی ہے۔ حقیقت میں یہی ایک پارٹی پروگرام ’’سیاسی‘‘ نوعیت کا ہوتا ہے ورنہ سالگراؤں میں شخصیت پرستی اور کیک کی بے حرمتی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ برسیوں کو دعاؤں کی نذرکرکے ان خونی واقعات کے اسباب، نظریات اور اختلافات سے منہ موڑ کرکبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ صرف 5 جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کی یاد میں منایا جانے والا دن‘ جس کو پارٹی قیادت نے ’’یوم سیاہ‘‘ قراردیا تھا‘ ایک ایسا ’’ایونٹ‘‘ ہے جس پر نہ کیک کاٹ کر جان چھڑائی جاسکتی ہے اور نہ ہی ’’دعائے مغفرت‘‘سے گزارا ہوسکتا ہے۔
اس دن 38 سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاء الحق نے اپنے سامراجی آقاؤں کی آشیر باد سے ختم کرکے ایک طویل سیاہ دور کو پاکستان کے سماج پر مسلط کردیا تھا۔ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ کا تاریک دن تھا۔ جنرل ضیاء الحق وہ بدبخت فوجی جرنیل تھا جس نے اپنے غیرقانونی، غیراخلاقی اقتدار کو طوالت بخشنے کے لئے سامراجی پٹھو بن کر ایک ایسی آگ بھڑکائی جس میں صرف افغانستان ہی نہیں جلا بلکہ پاکستان کو پچھلے 38سالوں سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ مگر یہاں تک بس ہوجاتی تو پھر بھی بات تھی! ’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے علمبردار سامراج کی پشت پناہی میں ضیاء نے جو ’’جہادی آگ‘‘ بھڑکائی اس کے شعلے آج پورے مشرق وسطیٰ اور دنیا کے طول و عرض میں بھڑک رہے ہیں۔ بوکو حرام، القاعدہ، طالبان، دولت اسلامیہ، النصرہ برگیڈ، لشکر جھنگوی، جیش محمد، لشکر اسلام، لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ، سپاہ صحابہ سمیت سینکڑوں چھوٹے بڑے دہشت گرد گروہ مالیاتی سرمائے کے مختلف دھڑوں اور سامراجی ریاستوں کے آلہ کار بن کر خون کی ندیاں بہارہے ہیں۔
ضیاء آمریت نے اپریل 1978ء میں برپا ہونے والے افغانستان کے ثور سوشلسٹ انقلاب کو نیست ونابود کرنے کے لئے مغربی سامراج، سعودی عرب اور دوسرے خلیجی یا عرب حکمرانوں کی مکمل مدد کے ساتھ جس عالمی دہشت گردی کی تحریک کی بنیاد رکھی تھی وہ انسانی تہذیب کے لئے خطرہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ اس کالی تحریک کے لئے فنڈزبھی کالی دولت کا کاروبار شروع کر کے حاصل کئے گئے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ پوست کی کاشت اور اس سے ہیروئن بنا کر پوری دنیا میں اس کی فروخت تھی۔ کالی دولت اور مذہبی دہشت گردی کا یہ چولی دامن کا ساتھ اس کے بعد سے ٹوٹا نہیں۔ اس ہیروئن اور کالی دولت نے سماج میں برائی کہلانے والے تمام رویوں اور سرگرمیوں کو جلا بخشی اور پروان چڑھایا۔ پچھلے اڑتیس سالوں میں اس کالی دولت نے دنیا بھر میں ایک نیا حکمران طبقہ پیدا کیا۔ بدقسمتی سے اس لعنت کو جنم دینے والی قوتوں نے جس سیاسی طاقت کو پچھاڑنے کے لئے فوج سے اقتدار پر شب خون کروایا، اڑتیس سالوں بعد وہ سیاسی قوت اسی کالے دھن کی آلہ کار بن چکی ہے۔
5 جولائی 1977ء کے شب خون کے مضمرات پاکستان ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے دنیا بھر کے تمدن کے خلاف صف آراہیں۔ ان سیاہ قوتوں نے تاریخ کا پہیہ پیچھے کو چلا کر انسانیت کی لاکھوں سالوں کی حاصلات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دوسری طرف خو د پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ضیاء الحق کی بدروح کے ہاتھوں پر بیعت کرکے اسی کالی دولت، کالی سیاست اور کالی معاشرت کے راستوں پر گامزن ہوچکی ہے۔ ضیاء الحق نے اپنی پوری زندگی میں پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی ہر سعی کی مگر ناکام و نامراد رہا۔ تشدد اور وحشت کی بدترین مثالیں موجود ہیں مگر ان کی وجہ سے پیپلز پارٹی ٹوٹی نہ ہی کمزور ہوئی۔ اُن دنوں بھی پارٹی کو کسی نے دھوکہ دیا یا غداری کی تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا کارکن نہیں بلکہ جاگیر دار، سرمایہ دار اور حکمران طبقے کی صفوں سے پیرا شوٹ لگاکر پارٹی میں شامل ہونے والے لیڈران ہی تھے۔ تب ان کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ مگر پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کی قیادتوں نے نظریاتی طور پر ضیاء الحق کے قدموں پر ڈھیر کرکے اسکی زوال پذیری کی وہ بنیاد رکھ دی‘جس کی منطقی شکل اب اپنے جوبن اور شباب پر ہے۔ پاکستا ن پیپلز پارٹی نے اپنے ابتدائی سفر میں بائیس خاندانوں کی دولت کی طاقت کو اپنے انقلابی نظریات سے شکست فاش دے کر سرمائے کے مقابلے میں نظریات کی شکتی کو ثابت کیا تھا۔ لیکن پھر بعد کی قیادتوں نے سوشلزم کے ان نظریات کو ہی ’’پچھلی نشست‘‘ پر بٹھا دیا، آج تو شاید گاڑی سے ہی باہر پھینک دیا ہے۔
نظریات سے غداری کا عمل آصف علی زرداری نے شروع نہیں کیا بلکہ اس نے اسکی تکمیل کی ہے۔ جن نظریات نے ملک اللہ دتہ نائی کو اپنے عہد کے فرعون نما جاگیرداروں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا اور کامرانی بخشی تھی، ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر طرح طرح کے غدار، ابن الوقت اور موقع پرست ہی قدم جما سکتے تھے۔ ان دنوں پارٹی میں تطہیر نہیں ہورہی بلکہ پارٹی کا انہدام ہورہا ہے۔ یہ انہدام جتنا لمبا عرصہ لے گا اتنی ہی غلاظت اور تعفن بڑھتا جائے گا۔ پارٹی چھوڑنے اور تحریک انصاف میں شامل ہونے والے تمام عناصر، کسی نظریاتی وجہ سے پارٹی نہیں چھوڑ کر جارہے بلکہ ان موقع پرستوں کو ان حالات میں مزید موقع پرستی کا کوئی چانس نظر نہیں آرہا۔ یہ بھاگنے والے بحری جہاز کے چوہے ہیں جو جہاز ڈوبنے کا ادراک ہونے پر اس سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ڈوبنے والے جہاز کے باہر بھی کھلے سمند ر میں چھلانگ لگائی جا رہی ہے جہاں بچنے کا کوئی چانس نہیں ہے!
ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی پر حملے ہوتے تھے جو سیاسی ملاؤں، بنیاد پرستوں، ایم کیو ایم جیسی نیم فسطائی پارٹیوں اور سامراجی عناصر کی طرف سے کئے جاتے تھے۔ پارٹی پر ریاست کے حملے ہوتے تھے جو ظلم وجبر، تشدد اور بربریت کی مثالیں قائم کرکے بالآخر ناکام ہوجاتے تھے۔ پارٹی ہر اس حملے میں سرخرو ہوئی جو مخالف سمت سے کئے گئے۔ بدقسمتی سے آج پارٹی پر پارٹی قیادت نے ہی ہلہ بول دیا ہے۔ یہ قیادت آج بد ترین بدعنوانی، بے حسی، لوٹ مار، ضمیرفروشی اور غداری کی بریکٹ میں لازم ہوچکی ہے۔ ضیاء آمریت کی سیاہ رات کو اس ٹولے نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ’’سرکاری دن‘‘ بنادیا ہے۔ اس یوم سیاہ کی تاریکی اب پارٹی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے۔ پارٹی پر قابض قیادت کی دولت اور مستقبل بیرون ملک محفوظ ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک کروڑوں لوگوں کا مستقبل مخدوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ مگر عوام کو زندہ تو رہنا ہے! وہ اس المیے اور مایوسی سے نکلنے کی راہ بھی تلاش لیں گے۔ ان کی سیاسی روایت بھلے گل سڑ رہی ہے لیکن امیدا ور ناامیدی کا کھیل زیادہ لمبا نہیں چل سکتا۔
پاکستان کے محنت کش عوام کے پاس اپنی انقلابی جدوجہد اور پیش قدمی کا ورثہ ہے۔ پارٹیاں بنتی مٹتی رہتی ہیں۔ نظریات کے بغیر پارٹیاں نجی ملکیت میں چلنے والی فرموں کی شکل اختیارکرلیتی ہیں، جن کے فیصلے عام اور منتخب لوگ نہیں، ’’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘‘ کرتا ہے۔ لوگ اپنی اشتراکی حاکمیت اور نجات کے متمنی ہیں۔ آج یونان اور سپین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پرانی بدبودار روایات مٹ رہی ہیں، نئی عوامی پارٹیاں ابھر رہی ہیں۔ ایسا یہاں بھی ہوسکتا ہے، اب نہیں تو کچھ وقت بعد۔ جنہوں نے 5جولائی کی سیاہی کو اپنا اور پارٹی کا مقدر بنادیا ہے وہ تاریخ کی سیاہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گم ہوجائیں گے۔ لیکن پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں نے اگر زندہ رہنا ہے تو انکے پاس لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انقلابی سوشلزم کے نظریات ہی اس تاریکی سے نجات اورسرخ سویرے نوید بن سکتے ہیں!
متعلقہ: