داستان پیپلز پارٹی کے گمنام شہیدوں کی!

تحریر: قمرالزماں خاں

’’شاہی قلعے کی سرنگوں میں آج بھی اس رقص کی یادیں موجود ہیں جو رزاق جھرنا نے موت کا پھندا گلے میں ڈالنے سے پہلے بیرک سے پھانسی گھاٹ تک ایک پاؤں پر ناچتے ہوئے کیا تھا‘‘

منحرف سندھی قوم پرست راہنما، سابق گورنرو وزیر اعلی سندھ اور حالیہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ نوازگروپ کے راہنما ممتاز علی بھٹو نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کسی قسم کی قربانی نہیں دی، قربانیاں صرف بھٹوخاندان نے دی ہیں۔ اگر ان کی اس صریحاََ غلط بات کو سچ مان لیا جائے تو چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے علاوہ ملک بھر کے کروڑوں پارٹی کارکنان کا تعلق بھی بھٹو خاندان سے ہی بنتا ہے اور اس فہرست میں ممتاز بھٹو اور انکے خاندان کا کوئی فرد شامل نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل، انکے دو جواں سال بیٹوں شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور انکی سیاسی جانشین بیٹی بے نظیر بھٹو کی جان کی قربانیوں کو کوئی دشمن بھی نظر انداز نہیں کرسکتااور نہ ہی ان کی سیاسی جدوجہد کے دوران قید اور ابتلاؤں کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔

نصرت بھٹو پولیس تشدد کے بعد لہو لہان ہیں

محترمہ نصرت بھٹو کی ’’جواں مردی‘‘ کا ایک زمانہ گواہ ہے جنہوں نے ضیاء الحق کے سیاہ دور میں تب جدوجہد کی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اقتدار سے لطف اندوز ہونے والے ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ اور مصطفی کھر پارٹی اور بھٹو خاندان کو فوجی جبر کے سپرد کرکے ہنی مون منانے لندن سدھار گئے تھے۔ اسی دوران بھٹو خاندان کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنان فوجی جنتا کی سزاؤں کو مردانہ وار بھگت رہے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اسی ہزار کوڑے مارے گئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان شاہی قلعے کے عقوبت کدے میں لائے گئے اور موت کی سزاؤں کے ساتھ ساتھ بدترین اور حیوانی تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ شاہی قلعے میں ہونے والا ظلم و استبداد فرانسیسی سامراج کے مقبوضہ الجزائر میں آزادی کی لڑائی لڑنے والے حریت پسندوں پر ڈھائے گئے اندوہناک ظلم، ابو غریب جیل اور گوانتا نامو بے کے عقوبت خانوں کی طرز کا تھا۔ انہی سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان کو پیپلز پارٹی کے لئے سرگرم ہونے، پارٹی جھنڈا لہرانے، جئے بھٹو کے نعرے لگانے اور مارشل لاء حکومت کے خلاف جدوجہدکے الزام میں ملک بھر کی جیلوں میں رکھا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ سیاسی سرگرمی سے تائب ہونے اور پیپلز پارٹی سے لاتعلقی کا بیان حلفی لکھ کر دیں۔ بہت سے پارٹی کارکنان بغیر کسی چارج اور فرد جرم کے کئی کئی سال مختلف جیلوں میں ڈال دئیے گئے۔ ہر پارٹی کارکن کو گرفتاری کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انکے اہل خانہ کو دھمکایااور ہراساں کیا جاتا رہا۔ 1977ء سے 1988ء کے درمیانی سالوں میں ہزاروں لوگ کئی کئی سال کی جیل کاٹ کر آچکے تھے مگر کل کتنے ہزار سیاسی کارکنان ضیاء الحق کی آمریت میں جیلوں میں گلتے سڑتے رہے، اس کا ایک چھوٹا سا اندازہ تو صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے 1988-89ء کی حکومت سنبھالنے کے بعد جن قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا ان کی تعداد سولہ ہزار سے زائد تھی۔ ان کے علاوہ ایسے سیاسی قیدی بھی سینکڑوں کی تعداد میں تھے جن کو رہا کرنے کی راہ میں صدر اسحاق خاں اور اسٹیبلشمنٹ حائل تھی۔ صرف یکم سے دس اگست 1984ء کے نو دنوں میں پیپلز سٹوڈننٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں، اکیس سالہ ادریس بیگ، انیس سالہ عثمان غنی اور اکیس سالہ ادریس طوطی کو فوجی عدالتوں میں شو ٹرائل کے بعد پھانسی پر لٹکایا گیا۔ چھبیس سالہ رزاق جھرنا کو جنوری 1983ء میں پھانسی دی گئی۔

ضیاالحق کے سیاہ دور میں تشدد یا تختہ دار کے ذریعے شہید کئے جانے والے چند شہدا

ریاستی مسلح افراد نے فیڈریل بی ایریا کراچی کے دو بھائیوں لالہ اسلم اورلالہ اسد کو باری باری قتل کردیا۔ اگست 1984ء میں ہی ناصر بلوچ کو ضیاء الحق کے ذاتی حکم پر سنٹرل جیل کراچی میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا، اس وقت وہ جیل میں اپنے انٹر میڈیٹ کے امتحان کی تیاری کررہا تھا۔ 26 جون 1985ء کو ایاز سموں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جب خود ضیاء الحق اور اسٹبلیشمنٹ نے چالاکی سے میر مرتضیٰ بھٹو کو ٹریپ کرنے کے لئے ایک مشکوک پس منظر والے لڑکے اسلام الدین ٹیپو سے پی آئی اے کاطیارہ اغواکروایا اور پھر مصطفی کھر ٹائپ اس وقت کے ملٹری کے ڈبل ایجنٹوں کے ذریعے مرتضیٰ بھٹو سے اس ہائی جیکنگ کو قبول کروا لیا گیا توپھر پکڑ دھکڑ کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ایم آر ڈی تحریک کے دوران بد ترین ریاستی تشدد کا ایک منظر

ان دنوں اگر ممتاز بھٹو کو یا د ہوتو سندھ کے اندرونی حصوں میں ایم آر ڈی کے متحرک کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لئے گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد لی گئی تھی۔ کتنا بڑا قتل عام ہوا تھا ان دنوں؟ یہ کہانی دادو میں رہنے والے کسی بھی سیاسی کارکن سے سنی جاسکتی ہے۔ مگر آغاز تو 1978ء سے ہی ہوگیا تھا جب نواب شاہ میں احتجاجی ریلی پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کرکے سینکڑوں پارٹی کارکنوں، کسانوں اور مزدوروں کو شہید کردیا گیا تھا۔ 1978ء میں ہی کالونی ٹیکسٹائل ملز میں یونین کی طرف سے اپنے مطالبات کے لئے چلائی جانے والی تحریک کو محض اس لئے خون میں ڈبو کر دوسو کے قریب کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا کہ اسکے جنر ل سیکریٹری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ کارکنان سے تھا۔  وہ اور اس کے دیگر کامریڈز نشتر میڈیکل کالج کے سٹڈی سرکلز میں باقاعدگی سے آیا کرتے تھے جن کوجمعیت مخالف ’’ایگل‘‘ اور پی ایس ایف کے نوجوان چلایا کرتے تھے۔ انسانیت سوزستم کی داستانوں پر بہت سی کتب موجود ہیں اور اتنی ہی اور لکھی جاسکتی ہیں جو ضیاء الحق آمریت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان، جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے صحافیوں، طالب علموں، وکلاء اور دانشوروں پر ڈھائے گئے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان، مزدور کسان پارٹی، لوک پنجاب پارٹی، ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون خواہ اور بلوچستان سے سینکڑوں ترقی پسند اور آمریت مخالفوں کو کچل دیا گیا۔ نذیر عباسی کو جیل میں تشدد کرکے شہیدکردیا گیا، حمیدہ گھانگرو اور جام ساقی نے اپنی جوانی کے تمام دن جیل میں گزارے۔ شاہدہ جبین کواس وقت لاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا گیا جب اسکی گود میں چھ ماہ کی بچی تھی، اسکے ساتھ شرمناک سلوک کیا گیا، تشدد کیاگیا اور اسکے بھائی عثمان غنی کو قلعے کے پھانسی گھاٹ میں ہی لٹکا دیا گیا۔ صحافی منہاج برنا کو سڑکوں پر سرعام مارا گیا اور قید و بند کے امتحان میں ڈالا گیا۔ حبیب جالب جیسے کتنے شاعر، ادیب، دانشور اور لکھاری تھے جو ان دنوں پس زنداں تھے اور ضیاء الحق کی آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کررہے تھے۔ اگر ضلع رحیم یارخاں کا ہی جائزہ لیا جائے توحافظ نصرت، سید مختارالحسن گل، ڈاکٹر اسلم نارو، خان محمد، میاں انوار طارق، چوھدری محمد بوٹا، ڈاکٹر افتخار، حکیم اصغر حسین، مرزا ناصر بیگ، ڈاکٹر قادر بخش، ملک اعجاز بھٹہ، رانا نثار احمد، آفتاب احمد خاں، اصغر دشتی، ڈاکٹر اسلم ایڈوکیٹ، محمد عالم، شاہد چوہان، حنیف نارو، صابر بھولا سمیت درجنوں افراد ہیں جن کو قلعے میں بند کیا گیا اور بدترین تشد د کا نشانہ بنایا گیا۔ رئیس عطا محمدچاچڑ، محمد دین ورند، خواجہ صلاح الدین مرحوم، ماسٹر انور، ڈاکٹر حسام الدین، رانا ندیم افضل سمیت متعدد افراد ملک بھر کی جیلوں کی یاترا کرتے رہے اور بیشتر سالہا سال جیلوں میں سڑتے رہے۔

پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کو سر عام کوڑے مارے جارہے ہیں

ممتاز بھٹوکے اس گمراہ کن اور خلاف حقائق بیان کہ ’’جمہوریت کے لئے صرف بھٹو خاندان نے قربانیاں دیں‘‘ اور ’’پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں کیا‘‘ کے جواب میں آخری ذکر میں اسلم لدھیانوی کا کرنا لازم سمجھتا ہوں جس کو ساڑھے آٹھ سال قلعے میں قید کاٹنے کے بعد محترمہ بے نظیرکے حکم پر سولہ ہزار قیدیوں کے ہمراہ رہا گیا۔ رہائی کے وقت اسلم لدھیانوی کی حالت یہ تھی کہ مسلسل الیکٹرک شاک لگانے کی وجہ سے اس کے جسم پر کوئی بال نہیں تھا، اسکا سارا جسم لرزے کا شکار تھا، وہ دل کی شدید بیماری میں مبتلا تھا اور رہائی کے چند ماہ بعد ہی وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ ایک سیاسی کارکن حبیب احمد دھکڑ کے مطابق ’’جب ان کو ایک ڈیل کے ذریعے قلعہ کے انچارج کیپٹن رفیق لغاری کی معرفت ’’گرفتار‘‘ کرکے قلعے میں لایا گیا اور شناخت پریڈ کے لئے اسلم لدھیانوی کو انکے روبرو لایا گیا تو وہ ایک فٹ چوڑے اور تین فٹ لمبے بنچ پر الٹا اور مکمل برہنہ بندھا ہوا تھا، اسلم لدھیانوی کی پیٹھ اور کمر کا زیریں حصہ پیپ سے رستے اور کیڑوں سے بھرے تین تین انچ گہرے زخموں سے بھرا ہوا تھا۔ بنچ پر اسلم لدھیانوی کے جسم کا درمیانی حصہ تھا جب کے اسکے ہاتھ اور پاؤں بنچ کے دونوں سروں پر پائیوں سے باندھے ہوئے تھے، اس حالت میں بھی اسلم لدھیانوی نے حبیب احمد دھکڑ کو پہچاننے سے انکار کردیا جس کی پاداش میں ڈیوٹی پر موجود ایک اعلی فوجی افسر نے اسکے منہ پر ٹھڈوں کی بارش کردی۔‘‘ دوران قید اسکی ماں کو جب اسلم لدھیانوی پرہونے والے تشدد کے بارے میں معلوم ہواتو وہ موقع پر ہی دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئی، اسکی دو بہنیں پاگل ہوگئیں جس کی وجہ سے اور مارشل لاء آفیسروں کے ہراساں کرنے پر انکے شوہرانہیں طلاق دینے پر مجبور ہوگئے۔ اسلم لدھیانوی کا والد اور بھائی دل کے امراض میں مبتلا ہوگئے۔ رہائی کے بعد جب محترمہ نے سارے قیدیوں کو اسلام آباد بلایا اور انہیں پلاٹ دیے تو اسلم لدھیانوی نے اسلام آباد میں پلاٹ لینے سے اسی طرح معذرت کرلی جس طرح اس نے ایمنسٹی انٹرنیشل کی طرف سے مالی امداد کی درجنوں بار پیشکش پر فقط یہ کہا تھا کہ ’’میں نے فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کی ہے، مجھے سیاسی طور پر سپورٹ کیا جائے میں قربانیوں کا مالی معاوضہ لے کر کرائے کا سپاہی نہیں بننا چاہتا۔‘‘ قربانیوں کی تاریخ بہت لمبی ہے، میں نے تو فقط ان لوگوں کے متعلق لکھا ہے جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ میں ان تمام سیاسی کارکنوں اور راہنماؤں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے جمہوریت کا گلا کاٹنے والے سامراجی دلالوں، دراندازوں اور طالع آزماؤں کے خلاف مردانہ وار جدوجہد کی اور اپنے پورے پورے خاندانوں کو اجڑتے دیکھ کر بھی معافی نامہ لکھ کر نہیں دیا۔ کسی گولی یا پھانسی سے زندگی کی بازی ہارنا کوئی معمولی قربانی نہیں مگر دسمبر، جنوری کی راتوں میں، قلعے کے تہہ خانوں کی خون منجمد کردینے والی سردی میں برف کے بلاک پر لیٹے ہوئے اس سیاسی قیدی کا تصور کیجیے جو ہر تشدد کے وار پر اپنے سیاسی لیڈر کے نام کا نعرہ مار کرتشدد کرنے والوں کو شکست فاش دیتا ہے۔

پی ایس ایف کی طالبات پولیس سے نبرد آزما ہیں

ممتاز بھٹو نے کبھی ریاستی تشدد برداشت نہیں کیا اور نہ ہی شاہی قلعے کی بطور قیدی یاترا کی ہے۔ اگر ان کو ایک دن کے لئے قلعے میں بند کردیا جاتا تو وہ ساری زندگی کے لئے سیاست سے تائب ہوجاتے۔ شاہی قلعے کیُ سرنگوں میں آج بھی اس رقص کی یادیں موجود ہیں جو رزاق جھرنا نے موت کا پھندا گلے میں ڈالنے سے پہلے بیرک سے پھانسی گھاٹ تک ایک پاؤں پر ناچتے ہوئے کیا تھا۔ اسی قلعے میں موت کی سزا پانے والے ایک اور دھرم پورہ کے انیس سالہ نوجوان عثمان غنی نے ’’کے ٹو‘‘ سگریٹ کی خالی ڈبیوں سے وہ تاج بنایا تھا جو اسکی وصیت کے مطابق جلا وطنی کے بعد وطن واپس آنے والی بے نظیر بھٹو کو پہنایا گیا تھا۔ سیاسی جدوجہدکے دوران جن پر مارشل لاء کی اذیتیں ڈھائی گئیں انہوں نے وہ مردانگی سے برداشت کیں۔ پیپلز پارٹی کا عام کارکن جھکا نہیں، بکا نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ان کارکنان پربندوق کی نوک پر ملک پرقبضہ کرنے والے طالع آزما ؤں اور انکے تنخواہ دار تو تہمتیں لگائیں اور ان کو آزادی اورجمہوریت کے متوالوں کی بجائے ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دیا گیا، مگرممتاز بھٹو جیسے سیاسی مفروروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا جو اس مشکل کی گھڑی میں پارٹی اور کارکنان کو ریاست کے مسلح جتھوں کے سپرد کرکے عیاشی کے لئے لندن فرار ہوگئے تھے۔ بھٹو خاندان کی قربانیاں قابل ذکر اور قابل فخر ہیں مگرپاکستان پیپلز پارٹی کے لاکھوں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کی سنہری تاریخ کو اس ملک کی سیاسی تاریخ سے نکال دیا جائے تو پھرسیاست کی پہچان کاروبار، لوٹ مار، ٹھیکوں اور مراعات کے حصول، پلاٹوں کی الاٹ منٹ اور سرکاری املاک پر قبضہ گیری، رشوت خوری، دھوکہ دہی اورعوام دشمنی تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔

متعلقہ:
5 جولائی کا شب خون
الیکشن 2013ء اور پیپلز پارٹی
پیپلز پارٹی کی قیادت سے چند سوالات
ذوالفقار علی بھٹو کا 34واں یوم شہادت اور پیپلز پارٹی کے وجود کودرپیش چیلنج
بھٹو کی میراث