| تحریر: لال خان |
پیپلز پارٹی کے 49ویں یوم تاسیس پر ایک طویل عرصے کے بعد لاہور میں اس دن کو منایا گیا ہے۔ نہ صرف نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی بلکہ اس تقریب کو پنجاب میں پارٹی کو اس سیاسی تنزلی سے نکالنے کی کاوش قرار دیا ہے جس میں پارٹی کئی دہائیوں سے گرتی چلی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی جس نئی قیادت کو نامزد کیا گیا ہے انہوں نے ترقی پسندی کی سوچ رکھنے کا دعویٰ بھی کیا ہے اور پارٹی کو پھر سے پنجاب میں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھارنے کی بات بھی کی ہے۔ لیکن جہاں پارٹی کے بنیادی منشور پر دبے دبے الفاظ میں باتیں کی جارہی ہیں وہاں کھل کر اس انقلابی سوشلزم کی بات کرنے سے وہ گریزاں ہیں جس پر پارٹی قائم ہو ئی تھی۔ یہی وہ سوشلزم کا پروگرام اور نعرہ تھا جو پارٹی کی تاسیسی دستاویزات میں بھی درج تھا اور ذوالفقار علی بھٹو اور بائیں بازو کے پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے دیا تھا۔ پارٹی کے ان بانیوں نے جو پروگرام دیا تھا اس میں براہِ راست سرمایہ دارانہ نظام کی ایک سوشلسٹ انقلاب سے تبدیلی کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا اور پارٹی ایک بتدریج انداز میں مسلسل اسی مروجہ اقتصادی نظام اور اسکی سیاست کا حصہ بنتی چلی گئی جس کے خلاف ایک ناقابلِ مصالحت بغاوت کا عندیہ دے کر وہ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دوران محنت کشوں کی امیدوں کا محور بنی تھی۔ پارٹی کے ابھار کے ابتدائی دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے بار بار یہ فقرہ دہرایا تھا کہ ’’ پیپلز پارٹی صرف غریب عوام کی پارٹی ہے‘‘۔ لیکن پچھلے طویل عرصے سے جس سیاست، ریاست اور معیشت کا حصہ پارٹی بنی رہی ہے یا بنائی جاتی رہی ہے ایسے میں آج نظریاتی فقدان اور گراوٹ کی انتہا ہوچکی ہے۔ قیادت کی غداریاں، انحراف اور بدعنوانیاں اسے اس نہج تک لے آئی ہیں۔
درحقیقت آج کی حاوی سیاست میں کوئی ایسی پارٹی یا لیڈر نہیں ہے جو صرف غریبوں یا محنت کشوں کی نمائندگی کا زبانی دعویٰ بھی کرتے ہوں۔ محنت کش اور سرمایہ دار طبقات کے مفادات متضاد ہیں بلکہ ایک کی زندگی دوسرے کی موت ہے۔ اس لیے جب طبقاتی بنیادوں پر معاشرے کی اصل اور فیصلہ کن تقسیم کی سیاسی عکاسی ونمائندگی ہوگی تو پھر یہ سیاست مروجہ نہیں بلکہ طبقاتی کشمکش اور لڑائی کی سیاست بن جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ’’نئی‘‘ پیپلز پارٹی اپنے احیا کے لیے ہی سہی اس راستے پر چلنے کے لیے تیار ہے؟ عوام کی سیاست کی نعرہ بازی فریب اور دھوکہ دہی بن جاتی ہے جب تک اس کو طبقاتی تضادات اور تصادم کی سائنسی سوچ اور نظریات کے تحت انقلابی سوشلزم سے نہ جوڑا جائے اور حتمی فتح تک نہ لڑا جائے۔ اس لیے موجودہ پارٹی کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ پارٹی کارپوریٹ کلچر، کارپوریٹ میڈیا،کارپوریٹ سیاست،کارپوریٹ ریاست، کارپوریٹ ملاؤں اور کارپوریٹ امریکہ کے بندھنوں کو توڑ کر اپنے آپ کو آزاد کرواسکتی ہے؟ لیکن پیپلز پارٹی کے جو چند مخلص لیڈر اور کارکنان بھی ہیں، ان کو بھی اس سوال سے ایسے ڈر لگتا ہے جیسے کسی کینسر کامریض سرجن کے آلات جراحی اور سرجیکل آپریشن سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ بہت سوں کو یہ پتا بھی ہے کہ اس کے علاوہ پارٹی کی بقا کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے لیکن اس جراحی میں جو درد برداشت کرنا ہو گا اس سے اور پارٹی پر مسلط کارپویٹ مگر مچھوں کے خوف سے وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اس گریز سے خطرہ ٹلنے والا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لیڈر تو درکنار پچھلے 40 سال میں کارپویٹ کلچر نے پارٹی کے اندر اتنی بڑی یلغار کی ہے کہ کارکنان بھی پارٹی کو اس مروجہ سیاست، ثقافت اور اقتدار کے حصول کی پارٹی سمجھنے لگے ہیں۔ بیشتر ’نظریاتی کارکنان‘ پارٹی کے آغاز کے دنوں کے ہیں اس لیے ویسے بھی بہت ضعیف ہوچکے ہیں۔
جب اس نظام کی سیاست ہوگی تو انتخابات سے لے کر اقتدار تک کا تعین پیسہ اور پیسے والے ہی کریں گے۔ پیسے والوں نے اگر پیپلز پارٹی کو ماضی میں اقتدار دیا یا مستقبل میں بھی دیں گے تو وہ اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خوری اور لوٹ مار کی پالیسیاں پہلے بھی لاگو کرواتے رہے ہیں اور اب بھی کروائیں گے۔ اور اگر بالاست طبقات کی سیاست اور اقتدار چلے گا تو پھر غریبوں اور محنت کشوں کے اقتصادی اور سماجی مفادات کا ہی خون ہوگا۔ سائنسی طورپر’’مکس اکانومی‘‘ اور ’’ملٹی کلاس پارٹی‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ مفادات کی بعض پارٹیوں میں عوام کو فریب دینے والی گھٹیا اصطلاحات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ جب طبقات کے مفادات ایک دوسرے کے ضد ہوں تو پھر انکی مشترکہ پارٹی کیسے ہوسکتی ہے؟ اسی ’’نظرئیے‘‘ کی شکل ہمیں’’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ اور نظریہ مصالحت (Reconciliation) کی پالیسیوں میں بھی نظرآتی ہے۔
پارٹی کا انحصار جب تک کارپویٹ میڈیا پر رہے گا تو پھر اپنی پالیسیاں اسی کارپویٹ میڈیا کے مطابق اپنانے پر مجبور ہوگی۔ ناگزیر طور پر پارٹی پر مالدارسیاستدانوں کو مسلط کر کے انہیں ٹکٹ دئیے جائیں گے، جیسا کہ ہوتا آ رہا ہے، اور اس حکمران طبقے کے نظام میں حصہ داری کی مزدور دشمن پالیسیاں ہی اختیارکی جائیں گی۔ محنت کشوں کی پارٹیاں کبھی بھی تاریخ میں میڈیا کے ذریعے ابھر کر محنت کشوں کی جدوجہد کو جاری نہیں رکھ سکیں۔ پیپلز پارٹی کی اپنی تاریخ اس میڈیا، مروجہ سیاست اور طریقہ انتخاب سے بغاوت کی گواہی دیتی ہے۔ جب پارٹی کا 1967ء نومبر میں تاسیسی اجلاس ہوا تو رائج الوقت اور حاوی ذرائع ابلاغ نے پارٹی کو نہ صرف مسترد کردیا تھا بلکہ پارٹی کے ابھار کے ہر امکان کو رد کردیا تھا۔ پارٹی نے اپنے دوجریدوں ’’نصرت‘‘ اور ’’مساوات‘‘ کے ذریعے عوام تک اپنے سوشلسٹ پروگرام کو پہنچایا۔ اسی طرح 70ء انتخابات (جن کے پیچھے 68-69ء کے انقلاب کا شدید دباؤ تھا) میں پارٹی نے غریب محنت کشوں کو ٹکٹ دے کر اسی سوشلزم کے پروگرام پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تختے الٹا دئیے تھے۔ محنت نے سرمائے کوعبرتناک انتخابی شکست دی، لیکن یہ حتمی شکست نہ تھی، نہ ہی اس نظام کی سیاست میں ہو سکتی تھی۔ اگر اپنی ہی تاریخ کے ان واقعات سے آج پارٹی انکار ی ہے تو پھر اسکی عوام میں بنیاد تو نہیں بن سکتی۔ موجودہ سیاسی کھلواڑ میں پیادوں کی طرح ریاست اور میڈیا پیپلز پارٹی کو اپنے کھیل کھلواتا رہے گا اور پارٹی پر مسلط سرمایہ دار ٹولہ اپنے مفادات کے تحت کھیلتا رہے گا۔ ایسے میں پارٹی کا دارومدار حکمران طبقات کی ضرورت پر ہو گا، عوام پر نہیں!
اس وقت پاکستان میں کل 12 فیصد آبادی اس حاوی سیاست میں دلچسپی اور شراکت رکھتی ہے۔ لیکن جہاں تک 88 فیصد عوام کو سیاست میں سرگرم کرنے کا تعلق ہے تو پھر ایک طرف وہ معروض کے بدلنے اور تحریک کے ابھرنے سے سیاست کے میدان میں اتریں گے۔ دوسری جانب ایک موضوعی عنصر بھی درکا رہوتا ہے جو معروض پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتا ہے۔ لیکن ایسا موضوعی عنصر بننے کے لیے پارٹی کو میڈیا اور اس نظام کی دانش کے موضوعات اور ایشوز کو مسترد کرتے ہوئے محروم طبقات کے سلگتے ہوئے مسائل پر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کو کوریج چاہیے نہ ہی ملے۔ برنی سینڈرز سے لے کر جیرمی کوربن تک، میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ اس کو چیر کر حالیہ عرصے میں ہی ابھرے ہیں۔ سیاسی افق کے دوسری جانب ٹرمپ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ لیکن جہاں نظریاتی اور سیاسی لائحہ عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وہاں کارپویٹ کلچر اور کارپوریٹ مگر مچھوں کی پارٹی میں سے تطہیر کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ پارٹی جس دوراہے پر کھڑی ہے وہاں دو راستے، مقاصد اور منزلیں واضح ہیں۔ ایک پارٹی کے بنیادی منشور میں درج طبقاتی جدوجہد کا راستہ ہے جو شاید کٹھن اور دشوار ہے۔ دوسرا مصالحت اور مروجہ سیاست میں ’ریڈیکل‘ بیان بازی سے جگہ بنا کر اسی نظام میں محکومی کے اقتدار کا راستہ ہے۔ اگر پیپلز پارٹی آج اپنے جنم کا، یعنی انقلابی سوشلزم کا راستہ نہیں اپناتی تو بھی محنت کش طبقے نے اس ذلت اور بربادیوں کے نظام سے نجات حاصل کرکے رہنا ہے۔ یہ ان کروڑوں انسانوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر محنت کش طبقہ تحریک میں انقلاب کے راستے پر چل پڑا تو پھر وہ اپنی نئی پارٹی بھی تراش کر لے آئے گا۔ ایسے تناظر میں پیپلز پارٹی کی داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں!
متعلقہ:
پیپلزپارٹی آخر کس طبقے کی پارٹی ہے؟
پیپلز پارٹی: نظریات سے عاری تنظیم نو؟