’’محنت کش طبقے کے میدان میں آنے سے قبل، عجلت اور پراگندگی سے پیدا ہونے والی بے چینی کی فضا میں بالخصوص سابق لیفٹ، این جی اوز اور عرصہ دراز سے بغیر کسی کوشش اور محنت سے انقلاب کے آرزومند حضرات ’’تھوڑے کو بہت جانئے‘‘ کے محاورے کواستعمال کرتے ہوئے اس جعلی ابھار سے گھل مل جانے کی خواہش میں ہلکان ہورہے ہیں‘‘
تحریر: قمرالزماں خاں
طویل جیل کے بعد، اپریل 2005ء میں جب آصف علی زرداری دبئی سے لاہور ائیرپورٹ پر اپنا’’ فقید المثال‘‘ استقبال کروانا چاہ رہے تھے اور اسی استقبال کو وہ مشرف حکومت کے خلاف تحریک بنانے یا تحریک کا تاثر دینے والا انتباہ بنا کر پیش کرنا چاہ رہے تھے تو انہوں نے دبئی میں پارٹی راہنماؤں کی ایک میٹنگ بلائی۔ اس میٹنگ میں پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلی پرویز الٰہی کے اس مبینہ تحریک کے خلاف اقدامات اور استقبال کو ریاستی تشدد اور اقدامات سے روکنے کی پالیسی پر بحث کی گئی۔ آصف علی زرداری ہر حال میں لاہور میں ایک بڑی ریلی نکالنا اور استقبال چاہتے تھے۔ دوران بحث ایک پارٹی راہنما نے تجویز پیش کی کہ اگر پرویز الٰہی ائیر پورٹ پر استقبال کی اجازت نہیں دے رہا تو کوئی بات نہیں، ہمیں اسی دن مینار پاکستان میں جلسہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ لاہور اور اسکے گردوپیش سے دولاکھ کارکن مینار پاکستان میں جمع ہوجائیں، پھر ہم ان کو لیکر مال روڈ کی طرف نکل آئیں گے۔ اس صورت میں حکومت ان دولاکھ لوگوں کی ریلی کو نہیں روک سکے گی۔ یہ سن کر آصف زرداری کا منہ سرخ ہوگیا اور وہ غصے میں بولے کہ جب دو لاکھ لوگ مال روڈ پر نکلیں گے تو وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں رہیں گے، ان کے نعرے بھی مختلف ہوں گے اور ریلی کو کنٹرول کرنے والی قیادت میں بھی اور لوگ ہوں گے۔
آصف علی زرداری کا شدید برہمی میں دیا جانے والا استدلال بالکل درست تھا۔ پارٹی قیادت کے نعرے، مطالبات اور مقاصد اور عام لوگوں کے مطالبات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ پارٹی قیادت کا اول و آخر مطمع نظر اقتدارکا حصول اور حکمرانی کے فوائد تک رسائی تھی جبکہ عام لوگ روزگار، روٹی، تعلیم، صحت، رہائش، سماجی سہولیات اور معاشی آسانیوں کے ضرورت مند تھے۔ آصف علی زرداری کو معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی کا کارکن، جب ایک سیاسی ہجوم کی شکل میں اکٹھا ہوتا ہے تو اسکا طبقاتی شعور غالب آجاتاہے۔ وہ اس طبقاتی مانگوں، آرزوؤں کی تکمیل اور اس سوچ کے پنپنے سے سخت خائف تھے جو انکے اور پارٹی کے حکمران دھڑے کے مفادات کی بجائے عام لوگوں، محنت کش طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی تھی۔ انکاریلی اور استقبال کا مقصد بھی اپنے جاہ وجلال یا مقبولیت سے زیادہ ممکنہ ڈیل کی چالوں کو مضبوط کرنا تھا جو کہ انکے جہاز کے دبئی سے اڑنے سے قبل ہی ہوگئی، جہاز نے شام 4بجے کی بجائے(کئی روز قبل کرائی گئی بکنگ کے مطابق) صبح سویرے لینڈ کرلیا، ’’سیانے ‘‘اور واقف حال لیڈروں نے تو قافلے موقوف کردئے تھے اور اپنی اپنی پیجارو لیکر لاہور کی جانب چل پڑے تھے، عام اور سادہ لوح کارکن سارا دن پرویز الٰہی کے سفاک لٹھ بردار سپاہ کی وحشت اور بربریت کا شکار ہوتے رہے۔ نام نہاد قیادت کے دوسرے تیسرے درجے کے راہنماؤں کو’’ دوستانہ‘‘حراست میں لیکر شام کو چھوڑ دیا گیا اور طے شدہ فارمولے کے مطابق’’مستقبل کے صدر پاکستان ‘‘ کو چیف سیکرٹری کی گاڑی میں انکی رہائش گاہ میں پہنچا کر ’’حفاظتی تحویل ‘‘ میں لے لیا گیا۔ یہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی تھی جس میں مستقبل کی ’’قاتل لیگ‘‘ اور ’’شہید رانی کی پارٹی‘‘نے اپنے اپنے کردار کے مطابق کام کیا مگر جیالے جیلوں اور اسپتالوں میں کئی ہفتوں تک سڑتے اور تڑپتے رہے۔
آصف علی زرداری اور پارٹی کے دوسرے درجے کے راہنماؤں کا ذہنی، نفسیاتی، سیاسی اور طبقاتی ارتقا بالخصوص 2008ء سے مندرجہ بالا سوچ کے تحت ہوا ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک حکمرانی کے ’’بے نظیر جمہوری سالوں‘‘ میں اسی سوچ نے قیادت کو اپنے محاصرے میں رکھا جس کے نتیجے میں قیادت لوٹ مار اور مال بنانے میں مصروف رہی اور پاکستان کے کروڑوں محنت کش اپنے مسائل کی الجھنوں میں دربدر ہوتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے پانچ سالہ ’’جمہوری اقتدار‘‘ کے کارناموں کی فہرست میں آئینی، کاغذی اور فروعی کارناموں کے علاوہ کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہے۔ لوگوں کو روٹی کی ضرورت تھی اسکا متبادل اٹھارویں ترمیم کو قراردیا گیا۔ بلوچستان کے عوام معاشی، معاشرتی، قومی، ثقافتی آزادی کی مانگ کررہے تھے ان کو ’’آغاز حقوق بلوچستان‘‘کا بوسیدہ نعرہ تھمادیا گیا، جس سے کسی کا پیٹ تو کیا بھرتا، کانوں کی سماعت تک مجروح ہوتی چلی گئی۔ لوگ علاج اور تعلیم مانگ رہے تھے ان کو صوبوں کے ماتحت کرکے خود کو اس ذمہ داری سے مبرا کرتے ہوئے منہ دوسری طرف کرلیا گیا۔ سامراجی طاقتوں کی دلجوئی کو ’’عملیت پسندی‘‘قراردے کر کارکنوں اور عوام کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ امریکی مالکان کی طرف سے اتاری گئی مفاہمت کی رسوائے زمانہ پالیسی، جس کے مطابق بالادست طبقے کی لوٹ مار، استحصال اور انیائے کے خلاف کسی قسم کی محاذ آرائی کو یکسر مسترد کرکے اسی رنگ میں رنگے جانے کی ہدایت کی گئی تھی، پر من و عن عمل کیا گیا۔ سب ایک ہوگئے۔ کتُی چورکے ساتھ مل گئی۔ عام لوگوں کے مفادات کے تحفظ کرنے والے راستوں پر جانا ممنوع قراردے دیا گیا۔ لوگوں کی زندگیاں اجاڑنے والے نظام کو مقدس قراردے کر فریقین کو اسکی حفاظت پر مامور کردیا گیا۔ یہ سب کچھ جب جیتے جاگتے بیس کروڑ لوگوں کے سامنے ہوگا تو انکے ذہنوں کو مسائل سے جتنابھی مفلوج کیا جاچکا ہو، پھر بھی انکو نظر آئے گا اور سمجھ آئے گا کہ اب راہبر، راہزن بن چکے ہیں۔
اس کیفیت میں اس محنت کش طبقے کو شدید صدمے کا سامنا کرنا پڑا جو پاکستان پیپلز پارٹی کو کئی دہائیوں سے اپنا نجات دھندہ تصور کرتا چلا آرہا تھا۔ یہاں پر ایک خلاء پیدا کیا گیا۔ اس تناظر میں جب خود پارٹی قیادت احساس گناہ اور ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی۔ اسکے لئے ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی الیکشن مہم سراٹھا کر چلا سکے۔ لہٰذانون لیگ کو اکثریت سے جتادیا گیا۔ مقتدر حلقوں کی گہری نگاہوں نے سب کچھ بھانپ لیا تھا۔ لہٰذا سارا کھیل بہت ہی چالاکی سے کھیلا گیا۔ مئی 2013ء کے الیکشن میں اگرچہ تحریک انصاف کے خلاف بھی دھاندلی ہوئی مگر اسکی مقبولیت اور ووٹ بینک کے اعتبار سے اسکا دائرہ بہت محدود تھاجب کہ اصل اور وسیع پیمانے پر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی دھاندلی ہوئی، یہ کئی زاویوں سے تھی۔ نہ تو مہم چلانے دی گئی اور نہ ہی چیخنے چلانے دیا گیا۔ ستم ظریفی کی حد ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے دھاندلی کے خلاف شرمندگی کے عالم میں چوں چرا کے علاوہ نہ تو آواز بلند کی اور نہ ہی جعلی مینڈیٹ کو چیلنج کیا۔ پارٹی پر براجمان ٹولہ درحقیقت محنت کش عوام کے خلاف گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری سیاسی، معاشی اور سماجی ’دھاندلی‘ کرنے والوں کا ہی جزو بن چکا ہے۔ اب اس دھاندلی زدہ اور عوام دشمن نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ کے تحفظ کے لئے ’’بی بی مفاہمت‘‘کی زنبیل سے عیاری، مکاری، چالبازی اور چانکیہ سیاست کے جنتر منتر نکالے جارہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کی پراکسی لڑائی کے آخری حصے میں’’ مفاہمتی دیوتا‘‘پالن ہاروں کی آشیرباد سے میدان میں اتر آئے ہیں۔ چند مہینے پہلے مغلظات، لعن طن اور بدزبانی کی الیکشن مہم چلانے والے شریف برادران کی زبان سے الزام تراشیوں اور دھمکیوں کے شعلوں کی لپک اب شبنم کی بوندوں میں تبدیل ہوچکی ہے، ’’مفاہمت کی سیاست ‘‘کے نئے سلیبس تشکیل دئے جارہے ہیں۔
دیرینہ آرزؤں کی تکمیل کے لئے آصف زرداری منصورہ میں’’نظریات کے خاتمے‘‘ کی قل خوانی کی تقریب منعقد کرنے چلے گئے ہیں۔ ’’عالم بالا‘‘ سے مودودی ایک دفعہ پھر مسکرایا ہوگا۔ درباریوں جیسے رویے کی حامل پیپلز پارٹی کی نچلے درجے کی قیادت، ذلتوں کے سنگ میل عبور کرتی ’’غراتی مسکراہٹ‘‘ اور ہونٹوں کے کناروں میں دبے ہوئے محنت کش طبقے کے لئے زہریلے تمسخر کوذہانت اور سیاسی تدبر گردان رہی ہے۔ گراوٹ کا عروج یہی ہے کہ سماجی حمایت سے محروم، یحییٰ خان اورضیاالحق کے مارشلاؤں کا ہراول دستہ رہنے والی جماعت اسلامی اب ’’جمہورکی علمبردار‘‘ بن کر پیپلز پارٹی کے لیڈر کا کردار ادا کررہی ہے۔ ابھی تک جماعت اسلامی (الشمس، البدر) کے جبڑوں پر بنگالی عوام کا خون رس رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی نظریاتی دشمن اورفاشسٹ طریقہ سیاست کے ذریعے سینکڑوں بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کو قتل اور عمر بھر کے لئے معذور کرنے والی یہ چھوٹی سی پارٹی ان دنوں جس جمہوریت کی علمبردار ہے اس کا معاشی اور طبقاتی کردار ماضی کی آمریتوں سے قطعاََ مختلف نہیں ہے۔
بے لگام مگر ’محفوظ‘ ریلیوں اوردھرنوں کی یلغار سے نواز حکومت آرمی چیف کے چرنوں میں قیام پذیر ہوچکی ہے، مقصد حاصل ہوچکا ہے۔ اب ملک کی خارجہ پالیسی، عسکری تجارتی معاہدہ جات، کک بیکس کی حصہ داری اور کچھ دیگر امورپر مقتدر قوتوں کے اختیار پر مبنی نیا ’’عمرانی معاہدہ‘‘ عمل میں لاکر ’’مینڈیٹ‘‘ کی نئی حد بندی کرنے کے لئے ’’پٹواری ‘‘کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ پٹواری پھر سے صدر پاکستان یا وزیر اعظم بننے کی خواہش کو اپنی ’’زیرک خاموشی‘‘ کی تہہ سے نکال کر میڈیا کے سپرد کرچکا ہے۔ اگلا کام مالکان کا ہے کہ کب اور کس کو اپنے استعمال میں لانا ہے۔ ساری محاذ آرائی میں کئی ہزار ٹن الزام، گالیاں اور طعنے دیے گئے مگر ایک لفظ سرمایہ داری نظام کے خلاف نہیں کہا گیا۔ اس ایک مظہر سے ہی فریقین کا طبقاتی کردار اور انکے دھرنوں اور شورشوں کے حقیقی مقاصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بالائی طبقے کی نچلی پرت، درمیانے طبقے کے نظریات اور کردار سے عاری حصوں، کسی مقصد اور فلسفے سے بے گانہ نوجوانوں کی ایک قلیل سی پرت اور شکست و ریخت کے پے درپے صدموں سے نڈھال، کسی قیادت سے محروم نچلے طبقے کے کچھ افراد اپنے جذبوں کی تمام تر سچائیوں کے باوجود تحریک انصاف کے پرچم تلے نامرادی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جیت اور ہار دونوں کے نتیجے میں اس ظالمانہ نظام اور محنت کی لوٹ مارکے اس کاروبار نے بہر حال جاری رہنا ہے۔ موجودہ تحریک (جو کسی اعتبارسے ایک تحریک نہیں ہے)کو بھی ہر صورت محدود رکھنے کے تمام عوامل موجوداور برسرعمل ہیں۔ تحریر اسکوائر کا ذکر کرنے والوں کے ذکر میں بدنیتی اور خوف کا عنصر حاوی ہے۔ دراصل سب ہی اس طبقے کی حقیقی تحریک سے ڈررہے ہیں جن کی زندگیوں کو انہوں نے اورانکے پسندیدہ سرمایہ داری نظام نے تاراج کیا ہے۔ مگرکب تک؟ یہی ایک سوال ہے جس کا فوری جواب نہ ہونے کی وجہ سے دھوکہ بازوں اور بہروپیوں کا کھیل جاری ہے، مگر محنت کش طبقے کے میدان میں آنے سے قبل، عجلت اور پراگندگی سے پیدا ہونے والی بے چینی کی فضا میں بالخصوص سابق لیفٹ، این جی اوز اور عرصہ دراز سے بغیر کسی کوشش اور محنت سے انقلاب کے آرزومند حضرات ’’تھوڑے کو بہت جانئے‘‘ کے محاورے کواستعمال کرتے ہوئے اس جعلی ابھار سے گھل مل جانے کی خواہش میں ہلکان ہورہے ہیں۔ پرائی شادی میں عبداللہ بننے کی یہ خواہش، غلطیوں میں اضافے کے مترادف ہوگی۔ کوئی جعلسازی نعم البدل نہیں بن سکتی۔ صرف محنت کش طبقہ ہی تاریخ کا پردہ اٹھا کر اور عمل کے میدان میں آکر اس سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ محنت کش عوام ہی ظلم کے اس نظام کو اکھاڑڈالنے والی اس تحریک کی قیادت کریں گے جو اقلیتی حکمران طبقے کی بجائے اکثریتی مزدور اور کسان طبقے کا راج قائم کرے گی اور تمام وسائل کو واپس لیکر عوام کی مشترکہ ملکیت بنا دے گی تاکہ اونچ نیچ کا نظام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کیا جاسکے۔
متعلقہ:
5 جولائی: چار دہائیوں پر محیط یومِ سیاہ
’’قومی سلامتی‘‘ اور ’’مصالحت کی سیاست‘‘
جب نظریات پچھلی نشست پر چلے جائیں ۔۔۔
جمود کا خلفشار
انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟