تحریر: عمر شاہد
29 جولائی کی صبح عام دنوں کی طرح ہی ڈھاکہ کی ایک مصروف سٹرک پرشہید رمیض الدین کینٹ کالج کے کچھ طلبہ کالج کے لئے روانہ ہوئے جب ایک تیز رفتار بس نے انکو ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں 12 سے زائد طلبہ زخمی ہو گئے جبکہ دو طالب علموں دیا خانم اور عبد الکریم رجب کی ہلاکت ہو گئی۔ موقع پر موجود طلبہ نے ڈرائیور کو غفلت کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی ۔ لیکن جب بنگلہ دیشی شپنگ کے وزیر شاہ جہاں خان سے ہلاکتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے انتہائی بے شرمی سے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’’ٹریفک حادثات تو معمول بن چکے ہیں، انڈیا میں گووا روڈ پر اسی قسم کے حادثے میں 33 افراد ہلاک ہوئے لیکن اس پر کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔‘‘ یہ وزیر نجی بس مالکان کی اکثریت پر مبنی بنگلہ دیش روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن کا صدر بھی ہے اور ٹرانسپورٹ مافیا کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ اس کے بیان نے ایک چنگاری کا کام کرتے ہوئے ان مظاہروں کو ملک گیر تحریک میں بدل دیا۔ اس کے بعد پورے ڈھاکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی سٹرکوں پر نکل آئے اور انہوں نے حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے ہوئے کئی ایک جگہوں پر وزیر کے پتلے نذر آتش کئے۔ اس تحریک سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے بنگلہ دیش کے دیگر شہروں میں بھی مظاہروں کا خود رو سلسلہ شروع ہو گیا۔ طلبہ نے اپنے 9 نکاتی مطالبات حکومت کو پیش کئے جس میں سڑکوں کو پرامن بنانے اور ٹریفک قوانین کے اطلاق کے ساتھ ساتھ بس کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کے حقوق کی یقین دہانی بھی شامل ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہلاکتوں کے حقیقی ذمہ داران بس مالکان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ طلبہ کے مطابق بس ڈرائیوروں کو ماہانہ فکس اجرت نہیں دی جاتی بلکہ ان کو مسافروں کی تعداد پر کمیشن ادا کیا جا تا ہے جس کی وجہ سے وہ کئی گھنٹے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہو تے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام ڈرائیور وں کے لئے زیادہ سے زیادہ 10 گھنٹے روزانہ اوقات کار کا تعین کیا جائے اور کمیشن سسٹم کا خاتمہ کیا جائے۔ ڈھاکہ ٹریبون سے بات کرتے ہوئے ایک طالب علم نے کہا کہ ’’ہم صرف محفوظ سٹرک اور محفوظ ڈرائیور چاہتے ہیں۔‘‘
لیکن بجائے طلبہ کے مسائل حل کرنے کے حکمران جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ کی سربراہ اور وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ان طلبہ مظاہروں کو بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے ملکی سا لمیت کے لئے خطرہ قرار دے دیا اور تحریک کو سبوتار کرنے کی کوشش کی۔ پہلے اپنی پارٹی کے طلبہ ونگ بنگلہ دیش چھاترہ لیگ کے ذریعے ان طلبہ پر حملے کروائے گئے جس کے بعد 7 دن تک طلبہ نے شہر کے پورے ٹریفک کے نظام پر قبضہ کرتے ہوئے گزرنے والی تمام گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے کاغذات چیک کرنا شروع کر دیے۔ اس دوران ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر حکومتی افسران اور وزرا کی گاڑیوں کو بند کیا گیا اور انہیں پیدل جانے پر مجبور کیا گیا۔ فیس بک پر جاری ایک ویڈیومیں 13 سال کی عمر تک کے نوجوان کو بھی ٹریفک کنٹرول کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض جگہوں پر جہاں پولیس کے افسران نے کاغذات دکھانے سے منع کیا تو ان کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ ریاست کی جانب سے طلبہ تحریک کو کچلنے کے لئے پولیس استعمال کی گئی۔ پولیس کی جانب سے ان مظاہروں پر واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ ساتھ ربڑ کی گولیاں برسائی گئی جس کی وجہ سے ڈھاکہ ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق 100 سے زائد طلبہ زخمی ہو گئے اور کئی ایک کو گرفتار کیا گیا۔
یہ تحریک حکمرانوں کے لئے ایک زلزلہ سے کم ثابت نہ ہوئی۔ 29 جولائی سے 6 اگست تک جاری رہنے والی اس طلبہ تحریک نے ایوانوں میں ایک بھونچال کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ تحریک کے دوران حکمران پارٹی کے دفاتر کو بھی جلایا گیا اور ساتھ ہی امریکی سفارت کار کی گاڑی کو بھی روکتے ہوئے اس پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ اس تحریک نے جہاں ایک طرف بنگلہ دیش کی نام نہاد ’جمہوریت ‘ کی اصلیت کو عیاں کیا ہے وہی پر حکمرانوں کی تاریخی خصلت کو بھی ننگا کیا ہے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق 6 اگست کو بنگلہ دیشی وفاقی کابینہ نے روڈ ایکسیڈنٹ کے ذمہ داران کے خلاف پانچ سال قید کا نیا قانون پاس کرنے کی منظوری دے دی۔ لیکن بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے تحریک جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے گرفتار طلبہ کی رہائی اور تشدد کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہونے تک مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھنے کااعلان کیا ہے۔
بظاہر ان طلبہ مظاہروں کا مرکز و محور’روڈ سیفٹی‘ ہے لیکن درحقیقت یہ عوام بالخصوص نوجوانوں کا پورے نظام کے خلاف غم و غصہ کا اظہار ہے۔ ملک کی 60 فیصد سے زائد لیبر فورس 30 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ سخت اضطراب کا شکار ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیشی نوجوان پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بیروزگاری، غربت اور لاچاری کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیش کے ادارہ شماریات کے مطابق نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 11.37 فیصد ہے جبکہ عالمی بینک اور عالمی ادارہ محنت کے 2013ء کے اعدادو شمار کے مطابق 41 فیصد بنگلہ دیشی نوجوان کسی قسم کی تعلیمی ، روزگاری یا تربیتی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں جبکہ خواتین میں یہ شرح 78 فیصد تک ہے۔ 95 فیصد بر سر روزگار نوجوان پھر غیر رسمی شعبوں میں محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے 31.7 فیصد نوجوان ’ سیلف ایمپلائڈ‘ شمار ہوتے ہیں جبکہ 11.1 فیصد بلا اجرت خاندانی کاموں سے وابستہ ہیں۔ زیادہ تر نام نہاد سیلف ایمپلائڈ نوجوانو ں کی اکثریت سائیکل رکشہ اور ریڑھی وغیرہ کے کاروباروں سے منسلک ہے۔ اسی طرح 40 فیصد کے قریب ملکی آبادی نیم باروزگار ہے جس کا مطلب یہ زیادہ تر عارضی یا قلیل اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے عرصے کی نسبت بنگلہ دیش میں نئی سرمایہ کاری کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر رسمی روزگار کے شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو 50 فیصد آبادی کا تعلق زراعت سے ہے جس میں چاول اہم پیداوار ہے ۔ خام مال ہونے کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے زراعت کی کمر توڑ دی ہے۔ ملک کی 80 فیصد سے زائد برآمدات گارمنٹس ہیں اور اس صنعت میں محنت کا بدترین استحصال کیا جا تا ہے ۔ اس صنعت میں مختلف حادثات کی وجہ سے ہر سال 1000 ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ قلیل اجرتوں اورحفاظتی انتظامات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اوسط عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو غیر ہموار اور مشترک ارتقا کی وجہ سے شکستہ ڈھانچوں میں جدیدیت کا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ’زرخیز‘ سرزمین کے طور پر مشہورملک کے شکستہ ڈھانچوں پر’ترقی‘ کا بوجھ لادنے کی کوشش کی وجہ ایک بے ہنگم سماجی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ جدید کاروں، موٹر سائیکلوں اور ٹرکوں سے لے کر گدھا گاڑی جیسے زمانہ قدیم کے ذرائع آمدو رفت کی بھرمار ہے لیکن سڑکوں کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انارکی پر مبنی ’’آزاد منڈی‘‘ کی معاشی پالیسیوں کے تحت ’’کریڈٹ فنانسنگ‘‘ کے ذریعے بڑے پیمانے پر گاڑیوں کی فروخت جاری ہے تو دوسری طرف آمد و رفت کے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ریاست سرے سے ناکام رہی ہے۔ باعزت، آرام دہ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ ناپید ہے۔ بے ہنگم اور بے قابو ٹریفک کے باعث حادثات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ ملکی ڈیلی سٹار اخبار کے مطابق 2018ء کے چھ ماہ میں 2400 سے زائد ہلاکتیں ہو ئی ہیں۔ ٹریفک حادثے کا خطرہ گھر سے نکلنے والے ہر فرد کو مسلسل لاحق رہتا ہے۔ دوسری جانب پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر نجی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے جو کہ بلا روک ٹوک منافع خوری میں مگن ہیں۔
بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی جدوجہد کا شاندار ماضی ہے۔ رواں سال ہی 11 اپریل کو ملک کے قیام سے رائج کوٹہ سسٹم کے خلاف ڈھاکہ یونیورسٹی سے شروع ہو نے والی طلبہ تحریک نے بھی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کوٹہ سسٹم میں سرکاری ملازمتوں کا 30 فیصد پاکستان سے 1971ء کی علیحدگی تحریک میں کارنامے سرانجام دینے والوں کے خاندانوں اور 26 فیصد دیگر مختلف گروپوں کے لئے مختص ہے ۔ ایک لمبے عرصے سے نوجوان اس کوٹہ سسٹم کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 90 فیصد ملازمتیں اوپن میرٹ پر دی جائیں ۔ اس تحریک کو مختلف لالی پاپ دے کر ٹھنڈا کیا گیا لیکن یہ وقتاً فوقتاً بھڑکتی رہتی ہے۔ 2015ء میں ایسی ہی اٹھان دیکھی گئی جب موجودہ حکومت کے ہی وزیر خزانہ نے نجی یونیورسٹیوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کیا۔ 22 جون 2015ء کو اس ٹیکس کے نفاذ کے خلاف وزارت خزانہ کی عمارت جانب بڑھنے والے ایک طلبہ مظاہرے پر ریاستی تشدد کیا گیا اور اگست میں ریاست نے سختی سے اس ٹیکس کے نفاذ کے لئے طلبہ پر دباؤ بڑھانا شروع کیا۔ اس نے پورے ملک کے طلبہ میں بے چینی کے نئی لہر دوڑا دی اور تحریک کو ایک نئی اٹھان ملی۔ ستمبر میں ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی کے طلبہ کے ایک مظاہرے پر پولیس نے گولی چلا دی جس کے خلاف ملک کی تمام یونیورسٹیوں سے نوجوا ن بڑی تعداد میں سٹرکوں پر آگئے اور حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے روڈ بلاک کر کے ملک کے اہم شہروں کا نظام مفلوج کر دیا اور کئی ایک یونیورسٹیوں پر قبضے شروع ہو گئے ۔ طلبہ کے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اعلان کیا کہ نجی یونیورسٹیا ں یہ ٹیکس ادا کرنے کے مجاز ہیں جبکہ وہ طلبا سے فیسو ں کی مد میں کوئی اضافہ نہیں کریں گی۔ 1996ء میں طلبہ تحریک نے خالدہ ضیا کو اقتدار سے باہر نکال دیا تھا۔ 1990ء کی جمہوریت بحالی تحریک میں بھی طلبہ نے جنرل حسین محمد ارشاد کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جب نومبر میں اس نے ایمرجنسی کا نفاذ کا اعلان کیا لیکن محض چند ماہ میں ہی اس کے تمام جبر کے باوجود اس کو اقتدار سے رخصت کر دیا گیا۔
اس وقت بنگلہ دیشی ریاست ایک تاریخی بحران کا شکار ہے۔ عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی دونوں ہی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ جمہوریت ایک فریب ثابت ہوئی ہے اور سرمایہ دارانہ بنیادوں پر آزادی درحقیقت ایک عذاب بن چکی ہے۔ ملک میں دو مرتبہ فوجی آمریت رہ چکی ہے جبکہ اداروں کے مابین رسہ کشی جاری ہے۔ ایک حکمران اقلیت اپنے ہی ’آزاد ‘ باشندوں کا خون چوسنے میں مگن ہے۔ پارلیمنٹ میں چور ، لٹیرے اور کالے دھن کے امیر بر اجمان ہیں۔ بنگلہ دیشی فوج بھی کئی طرح کے کاروباروں میں ملوث ہے۔ سرکاری طور پر بنگلہ دیش آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے کاروبار وں کی مالیت 500 ملین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ فوج اس وقت ہوٹل ، سیاحت ، پراپرٹی ، کنسٹرکشن سے لے کر مالیاتی امور تک کے کاروبار چلا رہی ہے۔ اس کے زیر انتظام چلنے والے ٹرسٹ بینک کی ملک میں 40 سے زیادہ برانچز ہیں ۔
بنگال ایک انقلابی روایتوں کا امین خطہ رہا ہے۔ برصغیر میں مارکسزم کا پھیلاؤ بنگال سے ہوا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج نے اسے 1905ء میں تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن یہاں کی انقلابی تحریکوں کی وجہ سے اسے شکست اٹھانا پڑی اور بالاآخر مذہبی بنیادوں پر 1947ء میں اسے تقسیم کیا گیا۔ لیکن پھر بھی وہ یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی امنگ کو کچلنے میں ناکام رہے۔ 1968-69ء کے انقلاب میں بھی یہاں کے نوجوانوں نے بڑی قربانیاں دیں اور کئی انقلابی نقوش چھوڑے۔ اس ادھورے انقلاب کی وجہ سے ایک بار پھر اس خطے کو لہو میں ڈبویا گیا لیکن یہاں کے عوام کی جدوجہد اور تبدیلی کی تڑپ مری نہیں۔ آج اسی تڑپ کو ایک سیاسی متبادل کے طور پر انقلابی قیادت درکار ہے۔