| تحریر: لال خان |
اتوار کو سول ایسویشن اتھارٹی اور پی آئی اے کی سکیورٹی ایجنسیوں نے اس امر کی تفتیش کا اعلان کیا کہ راولپنڈی ائیر پورٹ پر پی آئی اے کے ہوائی جہاز ’’اے ٹی آر‘‘ کی اڑان سے قبل جہاز کے قریب جس کالے بکرے کو ذبح کیا گیا وہ سکیورٹی کے پہرے اورچیک پوائنٹ سے کیسے نکالا گیا۔ لیکن اس سے زیادہ تشویش سکیورٹی والوں کو یہ ہے کہ اس کو ذبح کرنے والے چھرے جیسے خطرناک اور ممنوعہ اوزار کو ہوائی اڈے کی حدود اور جہاز کے بالکل قریب تک کیسے آنے دیا گیا۔ اس تفتیش کا انجام جو کچھ بھی ہو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جدید جہاز کے تحفظاتی نظام کے لیے اس توہماتی اقدام کی ضرورت اور وجہ کیا تھی۔ ویسے تو ہندو مت اور دوسرے قدیم مذاہب میں کالی دیوی کے چرنوں پر خون کی ’’بَلی‘‘ چڑھانے سے لے کر بارش کے لیے پوجا پاٹ کروانے تک کی بہت سی رسومات پائی جاتی ہیں۔ اس سے ذہنی تنگ نظری اور فکر کی رجعت وپسماندگی ہی ظاہر ہوتی ہے۔
لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ دور کے بحران زدہ سماجی نظام پر براجمان سیاسی اوریاستی حکمرانوں کے اعتماد کی صورتحال اس حد تک تنزلی کا شکار ہوچکی ہے کہ ہر طرف جوتشیوں، کالے جادو کے وارداتیوں اور مذہبی وطلسماتی جغادریوں کی چاندی لگی ہوئی ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی اجارہ داریوں سے لے کر بھارت کی بڑی کاروباری کارپوریشنوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز تک میں ایسے شعبدہ باز افراد کی نشستیں لازمی رکھی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں بھی اس توہماتی سوچ کا حکمران طبقات اور معاشرے کی درمیانی پرتوں میں شدت سے اضافہ اور پھیلاؤ ہورہا ہے۔ حالیہ کالے بکرے کا ایئر پورٹ پر جہازکے پہلو میں ذبح کیے جانے کا واقعہ اسی پسمانگی کی غمازی کرتا ہے۔ پاکستان میں اپنے آپ کو ترقی پسند اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے سربراہ کہلوانے اور صدر مملکت بننے والوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں تقریباً روزانہ بنیادوں پرکالے بکرے اپنے تحفظ کے لیے ذبح کروائے ہیں اور یہ عمل ایوان صدر میں ہوتا آیا ہے جہاں ایسی وارداتوں کا مقصد عوام میں اس قسم کی توہمات کو فروغ دینا اور ان انسانوں کی روح اور احساس کو کمزور اور لاغر کرنا بھی ہوتا ہے۔ ان کا زیادہ گہرا وار یہ ہوتا ہے کہ ان توہمات سے ذہنی طور پر محنت کشوں کو بے بس اور شکست خوردہ کر کے اس نظام اور اس کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہدکو کُند کیا جاسکے۔ انہی توہمات پرمبنی مذہبی، نسلی اور قومی فرقہ واریت سے سوچ کو مسدود اور ذہنوں کو سکیڑ دینے کی بھی سازش ہورہی ہوتی ہے۔ لیکن اس سارے کھلواڑ میں حکمران خود بھی اس واردات سے بچ نہیں سکتے۔ ان کی ناکامیوں سے لرزتے ہوئے اقتدار سے وہ شدید گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال میں وہ اس خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انکی بدعنوانی اور دوسرے انسان دشمن جرائم کی وجہ سے اقتدار سے معزول ہونے کے بعد ان کا انجام کتنا عبرتناک ہوسکتا ہے۔ یہی خلش ان کو کھائے چلی جاتی ہے۔ اس خوف سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ کالے بکرے کی ’’قربانی‘‘ کا سہارا لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے ان کے جرائم اور بدعنوانی بے نقاب نہیں ہوگی۔ اور اگر ہو بھی گئی تو یہ ’’صدقے‘‘ ہی ان کو کوئی خفیہ طاقت کے ذریعے بچائیں گے۔ لیکن وہ طاقت کوئی اتنی خفیہ یا پرسرار بھی نہیں ہے۔ وہی ادارے اور ڈھانچے جو اس بدعنوانی اور جرائم کی روک تھام اور سزائیں دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ایک بدعنوان نظام معیشت میں رہتے اور چلتے ہوئے خود انہی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور بدعنوانوں کو بدعنوان بھلا کیا سزادے سکتے ہیں؟
درمیانے طبقات میں یہ اندرونی ڈر اورخوف کا عالم انکے ایک کمزور اورپرانتشار طبقہ ہونے کے ناطے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ جہاں وہ نچلے طبقے کو دبانے اور تضحیک آمیز رویے کے کردار کا حامل طبقہ ہوتے ہیں وہاں وہ بالادست طبقات میں داخل ہونے کے لیے انکی کاسہ لیسی اور اطاعت کی انتہا کر دیتے ہیں۔ ایسے تعصبات اور توہمات میں وہ کہیں زیادہ گھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ نچلے طبقے میں دراصل یہی درمیانی پرتیں ایسے رجحانات کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ افراد چِیل کووں کو نہروں کے کنارے گوشت کے چیتھڑے پھینک کر کھلانے میںیہ افادیت سمجھتے ہیں کہ ان پرآنے والی بلا ختم ہوجائے گی۔ بڑے شہروں میں بلائیں کوئی خیالاتی اور دیومالائی کہانیوں والی نہیں ہوتیں بلکہ ان درمیانے طبقے کے کاروباریوں کے لیے ٹیکس انسپکٹروں اور دوسرے نظم ونسق اور مالیاتی معاملات کے کنٹرول کرنے والے اداروں اور افراد کی شکل میں ہی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ ادارے اس معاشرے میں چیلوںیا پرندوں کو صدقے دینے کی بجائے خود بالواسطہ چڑھا وے مانگتے ہیں اور پھر تب ہی ٹلتے بھی ہیں۔ لیکن ٹیکسوں کی وصولی والے ہوں یا قانون نافذ کرنے والے ادارے، انکے خصوصاً درمیانی اور نچلی سطحوں کے اہل کارخود اس کسمپرسی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ اگر یہ معمولی چڑھاوے حاصل نہ کرسکیں توپھر ان کے گھروں کے چولہے کیسے جلیں گے۔
مسئلہ معاشرے میں عمومی تنگی اور فقدان کا ہے۔ اس کو اس نظام میں توختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ کرپشن اور دوسرے معاشی وسماجی جرائم جتنے بڑھتے ہیں ان کے بارے میں شور بھی اتنا ہی زیادہ مچتا جارہا ہے۔ لیکن شور جتنا زیادہ مچ رہاہے یہ بدعنوانی کا کاروبار اس شور کو بھی اپنے مزید پھیلاؤ کے لیے ہی استعمال کیے چلے جارہا ہے۔ معاشرے میں مانگ اور قلت اس لیے ہے کہ عمومی طور پر معاشرے میں ان کے حصول کے لیے وسائل کا فقدان ہے۔ بھاری اکثریت تعلیم، علاج اور دوسری بنیادی ضروریات کے حصول کی قوت خرید سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ حکمران اور بالادست طبقات کی دولت اور لوٹ مار میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ امارت اور غربت کی خلیج جب اتنی اذیت ناک شدت اختیار کرجاتی ہے تو پھر اس سماج میں ایک طغیانی ابلنے کے آثار نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ غریبوں اور محنت کشوں کی اس بغاوت کے اشتراک کو منتشر کرنے کے لیے ان کو فرقہ واریت کے مختلف تعصبات میں بانٹنے اور دراڑیں پیدا کرنے کے لیے ایسی مافوق الفطرت سوچوں کی آلودگی میں غرق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ چترال سے آنے والے پی آئی اے کے طیارے کے بلیک باکس کی بجائے’’بلیک بکرے‘‘ کا اتنا زیادہ پرچار کردیا گیا ہے کہ لوگ بلیک باکس کی سائنسی معلومات کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔ لیکن ایسے حربے کب تک چلیں گے؟ جب یہاں کے حکمران طبقات کے افراد کی منافعوں اور دولت کی ہوس کی وجہ سے قدرتی آفات وسیع پیمانے پر غریبوں کی زندگیاں اور بستیاں اجاڑ دیتی ہیں تو ان کو قہر خداوندی کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔ اس کا دوسرے الفاظ میں معنی یہ ہے کہ غریب اور محروم اس ذلت و محرومی اور استحصال کی غلامی کو اپنا لکھا ہوا مقدر سمجھ کر تسلیم کرلیں۔ حکمرانوں کے جبر کے سامنے سر خم کرلیں اور اپنے حقوق اور سلگتی ہوئی ضروریات کے لیے کوئی آواز تک بلند نہ کرسکیں۔ لیکن جو نظام تاریخی طور پر اس نہج پر پہنچ جائیں کہ وہ توہمات اور تعصبات کو ابھار کر ہی چلائے جاسکیں، وہ متروک اور نامراد ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوا کرتا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان جھوٹی اور پرفریب وارداتوں سے مصنوعی اور جعلی طور پر ایسے نظام چل بھی کب تک سکتے ہیں۔ عمومی طورپر ایک مخصوص وقت تک ہی اس تاریک پسماندگی کو معاشرے پرمسلط رکھا جاسکتا ہے۔ پھر ایسے تاریخ ساز لمحات بھی آتے ہیں کہ محنت کش اور عوام اس پسماندگی کی طویل نیند سے جاگ اٹھتے ہیں، ان کی ذلت ان کے ادراک کا باعث بن جاتی ہے۔ ان کی پسماندگی ہی ان کی ترقی پسندی، انقلابی سوچ اور ہراول کردار کی جدید شکلوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایسے اوقات کو ہی انقلابی لمحات کہا جاتا ہے۔ انقلاب سے یہی پسماندگی کی تاریکی، ادراک اور فہم کے اجالے میں بدل جاتی ہے اور جب عوام ایک مرتبہ اس توہماتی تاریکی کو چیر کر باہر نکلتے ہیں تو ان کو آگے بڑھ کر اپنا مقدر اپنے ہاتھوں سے تحریر کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی!