غیر فطری مملکتِ خداداد اپنے فطری اور منطقی انجام کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ تمام اہلِ دانش اور تجزیہ نگار حالیہ بحران کو بدترین سیاسی بحران قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہ سیاسی بحران خود وجہ نہیں بلکہ علامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست کا موضوعی اور نامیاتی بحران ہے جسے عالمی معیشت اور سفارتکاری کے عمومی بحران نے نا قابلِ حل سطح تک پہنچا دیا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مباحثوں کے کھوکھلے پن اور یک رنگی سے بورژوا معاشرتی و سماجی علوم کی تنگ دامنی اور ناکارگی کا پردہ فاش ہو گیا ہے کہ مسائل کا حل تلاش کرنا تو درکنار یہ مسائل کی تشخیص اور توضیح کرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ صبح شام چاروں اطراف کے دانشوروں کی طرف سے ہوا میں ان گنت تیر چلائے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی اور لایعنی پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب متاثرین سے حافظ آباد میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے عوام کو خوشخبری سنائی کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ اس بے ہنگم اور گنجھلک صورتحال میں صرف اور صرف ریاست کا مارکسی نظریہ ہی وہ کسوٹی ہے جس پر واقعات اور ان کے مضمرات کو پرکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
بورژوا دانشور ریاست کو ازلی اور ابدی سمجھتے ہیں جبکہ مارکس اور اینگلز نے وضاحت کی تھی کہ ریاست تاریخی عمل کے اندر سماج کے نا قابلِ حل طبقاتی تضادات کی پیداوار ہے جو بظاہر غیر جانبداریت کی علمبردار ہے مگر اصل میں ایک طبقے کے ہاتھوں دوسرے طبقے پر جبر کا آلہِ کار ہے۔ معاشی ترقی کے ادوار میں ریاست کسی حد تک ’فلاحی‘ لبادہ اوڑھ لیتی ہے مگر اندرونِ خانہ محنت کا استحصال جاری رہتا ہے اور ریاست اپنے خونی پنجوں اور نوکیلے دانتوں کو اور زیادہ تیز دھار اور خونخوار کرنے میں مگن رہتی ہے اور ترقی کا بلبلہ پھٹتے ہی وہ ’فلاحی‘ لبادے کو پھاڑ کر حکمران طبقے کے دفاع کے لیے جارحیت پر اتر آتی ہے۔ تیسری دنیا میں سرمایہ دارانہ طرزِ ارتقا کے مخصوص کردار کی وجہ سے وہ ’فلاحی‘ لبادہ ابھی تیار ہی نہیں ہو پایاتھا کہ پہلی دنیا میں بھی وہ نیست ونابود ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے ریاست کو غیر جانبدار اور مقدس سمجھنے یا سمجھانے والے انگشت بدنداں ہیں اور ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکمرانوں کی باہمی لڑائیوں کے معاشی محرکات پر پردہ ڈالنے کے لیے ’جمہوریت ‘ اور’آمریت‘ جیسی اصطلاحات میں پناہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نظام کے بدنما چہرے کو چھپائے رکھنے کے لیے جمہوریت کو ہی ایک نظام بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ آجکل پاکستان میں زوروشور سے ہورہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ تمام قوم پرست، سیکولر، لبرل اور مذہبی پارٹیوں کو چڑھا ہوا ’جمہوری‘ بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک دوسرے کے الٹ یا متصادم ہونے کی بجائے پاکستان جیسے ممالک میں جمہوریت اور آمریت ایک دوسرے کی تکمیل اور تعظیم کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ جنہیں تمام دائیں اور بائیں بازو کے دانشور جان لیوا دشمن بنا کر پیش کر رہے ہیں وہ دونوں سگی بہنیں ہیں جن کی ماں یہ بدکردار ریاست اور باپ عالمی مالیاتی سرمایہ ہے۔ ماں اور باپ کے آپسی (Love-Hate) ناہموار تعلقات کے باعث یہاں پر جمہوریت کی افزائش اور تربیت بالکل ’’Problem Child‘‘ کی طرح ہوئی ہے، اور اسی ’’Stunted Growth‘‘ کے باعث اس کا آمریت پر انحصار قدرے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ’جمہوری‘ پارٹیاں یا توکھلم کھلا آمریت کی انگلی پکڑ کر چلتی ہیں یا کم از کم آمریت کی ’اخلاقی‘ حمایت پر انحصار کرتی ہیں۔ دوسری طرف آمریت بھی منہدم ہوتی ہوئی معیشت اور بھونچال زدہ ریاستی کیفیت کی وجہ سے جمہوریت کی آمیزش اور تعاون کے بغیر نظام کی بقا کی لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار اور دارومدار بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
یہ کتنا بڑا سیاسی مضحکہ ہے کہ تاریخی مینڈیٹ لے کر حکومت بنانے والی ن لیگ صرف ایک سال بعد ہی گھٹنوں کے بل آ گری ہے۔ اسی جعلی مینڈیٹ نے اہم خارجہ اور داخلہ امور پر حکومت کو آغاز میں نسبتی آزادی اور خودمختاری کا جھانسہ دیا جو ’قومی مفاد‘ کی ترجمان اور ٹھیکیدار قوتوں کو ناگوار گزرا۔ خاص طور پر مشرف پر غداری کا مقدمہ، بھارت کے ساتھ تعلقات، چین اور امریکہ اور ان کے حواری ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مابین ٹھیکوں اور وسائل کی بندر بانٹ، افغانستان سے مبینہ امریکی انخلا کے بعد سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کا از سرِ نو تعین، وزیرستان آپریشن اور ایرانی اور سعودی پراکسی میں ریاست کے مختلف دھڑوں کی بدلتی وفاداریاں یہ سب ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ریاست کے تمام دھڑوں کو ایک ساتھ ایک چھتری کے تلے لے کر چلنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ پہلے تو انتخابات ہی اس حد تک بدانتظامی سے دوچار ہو گئے تھے کہ ایک قبل از وقت سیاسی بحران ناگزیر ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے حالیہ دھرنے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہیں بلکہ خود دائیں بازو کے بہت سارے تجزیہ نگار بھی ان کی پہلے سے ہی نشاندہی کر چکے تھے۔ لیکن اس بوکھلائی ہوئی ریاست سے انتخابات کی طرح یہ دھرنے بھی کافی حد تک غلط برتے گئے ہیں۔ یہ تمام تر سیاسی بد انتظامیاں اور ڈیڈ لاک محض معاشی ڈیڈلاک اور انہدام کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ویسے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں ریاستی ایجنسیوں کی ہی پیداوار ہیں اور اب پیپلز پارٹی بھی اس تاریخی استثنا سے یکسر دستبردار ہو چکی ہے۔ تاہم ’انقلاب اور تبدیلی‘ کی حالیہ ہواؤں کی ’عسکریت‘ تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور میاں نواز شریف کا سیاسی باپ (ضیاء الحق) تو ایک ہی ہے اور موصوف نے کبھی اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کا نعرہ بھی اس کی دلیل ہے۔ چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک واقفِ حال نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’طاہر القادری کی گردن میں اتفاق فاؤنڈری کا سریا ہی توہے‘۔ ڈاکٹر صاحب عموماً اپنی بے معنی اور لغو گفتگو میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے بعض اوقات فرسٹریشن کے اندر طبقاتی ایشوز کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنے سے اجتناب نہیں کر تے بلکہ ایک دفعہ تو خود کارل مارکس، لینن یا سٹالن ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں لیکن وہ خود عالمی مالیاتی سرمائے اور امریکی سامراج کی گماشتگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ عوامی تحریک ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ عملاً ایک این جی او ہے جو مغربی سرمائے کے مرہونِ منت ہے۔ اور دھرنے کے خاتمے کے لیے عوامی تحریک اور حکومتی کمیٹیوں میں ہونے والے مذاکرات محض ناٹک ہی ہیں۔ درپردہ مذاکرات کہیں اور ہو رہے ہیں جن میں ڈاکٹر صاحب اپنے معاشی آقاؤں کے مالیاتی مفادات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ ٹھیکوں اور وسائل کی بندر بانٹ سے مستفید ہونے کے لیے پہلے سامراجی ممالک اور کمپنیاں پروفیشنل اور تجربہ کار مارکیٹنگ مینیجر اور ڈائریکٹرز رکھا کرتی تھیں آجکل تیسری دنیا میں ان کا کام ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے سیاسی شعبدہ گروں سے لیا جانے لگا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ثقافتی پراگندگی کی ڈاکٹر طاہر القادری سے اچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
یہاں اگر تحریکِ انصاف کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے تو یہ بھی بہت بڑی نا انصافی ہو گی۔ 92ء کے چیمپئین کپتان کوسیاسی طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ ISI کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا ایڈونچر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سیاسی گماشتے چابی کے کھلونوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھار وہ دی گئی چابی سے زیادہ رفتار سے معینہ فاصلے سے زیادہ آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ بحرانی ادوار میں ایک سادہ سا سیاسی عمل بھی شروع کرنا اور پھر اس کو کنٹرول کرنا دو بالکل مختلف باتیں بن جاتی ہیں۔ عمران خان پر شروع سے ہی ریاست کے مختلف دھڑوں میں اختلافِ رائے پایا جاتا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ عمران خان کا غیر سیاسی پسِ منظر، اسکا شاونسٹ اور کسی حد تک فاشسٹ رویہ اور ناتجربہ کاری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، سردار آصف احمد علی، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک جیسے اسٹیبلشمنٹ کے گھاگھ اور جہاندیدہ مہروں کو بھی اس کے ساتھ نتھی کیا گیا تاکہ اسے کنٹرول میں رکھا جا سکے۔ لیکن حالیہ بحران میں اپنے حد سے زیادہ جنونی رویے اور بھڑک بازیوں کے باعث تحریکِ انصاف ایسے سیاسی دوراہے پر آگئی ہے کہ اگر وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے ہیں تو اس میں انہیں اپنی سیاسی خودکشی دکھائی دے رہی ہے۔ پہلے ہی پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا ہے، جو شدت اختیار کر سکتا ہے۔ مزید برآں فوج حکومت کا تختہ الٹ کر ایک نئے اور زیادہ پیچیدہ سیاسی بحران کو دعوت نہیں دینا چاہتی۔ وہ حکومت کو بلیک میل کر کے اور ان سے اپنے تلوے چٹوا کر اپنا مقصد کافی حد تک حاصل کر چکے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو دوبارہ قابلِ استعمال حالت میں رکھا جا سکے۔ عمران خان وزیرِ اعظم بننے کے لیے اتاولا ہوا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے سرگرم درمیانہ طبقہ ویسے ہی سیاسی طور پر بے حد بے صبرا واقع ہو اہے۔ اگرچہ عوام کی بڑی اکثریت نے اس سارے ٹوپی ڈرامے کو یکسر مسترد کر دیا ہے لیکن چند ہزار کے اجتماعات کو کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے عوامی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے عمومی طور پر نفسیاتی ہیجان اور بے یقینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں ایک سیاسی خانہ جنگی اور نیم فسطائیت اور نیم انتشار کی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ اس کیفیت میں اگر حکومت حالیہ بحران سے دامے درمے سخنے نکل بھی آئی تو بہت جلد اس سے بڑا بحران اسے دبوچ لے گا۔
فوج کی سفید اور کالی معیشت میں حد سے زیادہ مداخلت نے اسے اندر سے بہت کمزور اور کھوکھلا کر دیا ہے۔ مالیاتی سرمائے کی کھلی ریل پیل نے بے شمار گروہی، فرقہ وارانہ، علاقائی اور دوسری کئی قسم کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ امریکی سامراج کے ساتھ ڈبل گیم اور امریکی معیشت کی مسلسل زوال پذیری نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ایسی کیفیت میں اگر فوج کوئی سیاسی مہم جوئی کرتی ہے تو اسے محدود کرنایا رکھنا ناممکن ہو سکتا ہے۔ مارشل لا کے اوپر مارشل لا بھی لگ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت زیادہ ’جمہوری‘ طرزِ عمل اپنانے پر مجبور ہیں۔ فوج عوامی حلقوں میں پہلے ہی بہت زیادہ غیر مقبول ہو چکی ہے۔ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا تو ان کے بس میں نہیں ہے تو وہ باقی تمام ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو بھی اتنا ذلیل و رسوا کر رہے ہیں تاکہ ان کی اپنی رسوائی کچھ ماند پڑ جائے۔ وہ سب کے چہروں پر سیاہی مل رہے ہیں تاکہ وہ خود زیادہ کالے نظر نہ آئیں۔ خاص طور پر مڈل کلاس کی آدرشوں کے ہیرو سابق چیف جسٹس کو سرِ عام ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر اس کے سب سے بڑے مداح عمران خان سے ہی اسے گالیاں دلوائی جا رہی ہیں۔ عدلیہ میڈیا اور پارلیمان کو ننگا کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان سب گندوں میں ہم پھر بھی نسبتاً بہتر ہیں۔ فوج میں داخلی چپقلشوں کے باوجود سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ مشرف کو کسی صورت سزا نہیں ہونی چاہےئے کیونکہ اگر یہ رسم چل نکلی تو پھر شاید صرف رام ہی نہیں بلکہ لنکا کو بھی آگ لگ سکتی ہے۔ لیکن ریاستی دھڑوں کی ان لڑائیوں نے عوام کے سامنے یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ یہ سب چور ہیں۔ بدعنوانی میں سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ ’ضربِ عضب‘ نام کی جو فلم ابھی حال ہی میں ریلیز ہوئی تھی وہ بہت بری طرح فلاپ ہو گئی ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کرنے کے بعد بھی دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا تو دور کی بات بلکہ انہیں مزید محفوظ پناہگاہوں اور کچھ نئے ٹاسکوں سے نواز دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کی شب نیول ڈاکیاڑ پر ہونے والے حملے کو شعوری طور پر خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اس میں اندر کے ہی اہم لوگ ملوث تھے۔ پھر دو تین دن بعد خبر کو بہت قابلِ برداشت بنا کر نشر کیا گیا۔ جب تک اس کالی معیشت کو ختم نہیں کیا جاتا جس سے دہشت گردوں کو مالیاتی آکسیجن مہیا کی جاتی ہے، دہشت گردی کا یہ ناسور کسی بھی قسم کے آپریشن یا مذاکرات کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں کی آپسی اور ان کے اندر کی یہ لڑائیاں اور شدت اختیار کریں گی اور ان پر پردہ ڈالنے کے لیے ریاستی ادارے سیاسی عدم استحکام کو اور بڑھاوا دیتے رہیں گے۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جہاں انتہائی دائیں بازو کی پارٹیاں جیسے جمعیت علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی، جماعت الدعوہ وغیرہ ن لیگ کی حمایت کر رہی ہیں وہیں پیپلز پارٹی اور نام نہاد بایاں بازو بھی اس ’ترقی پسندبورژوا‘ کو دادوتحسین سے نواز رہا ہے۔ یہ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے جب نام نہاد عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائی جا رہی تھی۔ دو مرحلوں کی سٹالنسٹ تھیوری کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔ نواز شریف اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام اور لوٹ مار کا سب سے بڑا سیاسی ہتھیار رہا ہے اور خود بھی امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ ٹیکس چوروں، ڈاکوؤں، رسہ گیروں، ملاؤں اور جاگیرداروں کا بھی محبوب لیڈر ہے۔ نواز شریف کی حمایت کرنے سے زیادہ مکروہ اور غلیظ سیاسی پالیسی کوئی ہوہی نہیں سکتی۔ اگر موجودہ حکومت کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک سخت گیر طبقاتی جنگ کی پالیسیاں ہیں جن میں سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی جا رہی ہے جبکہ محنت کشوں پر شدید ترین معاشی حملے کیے جا رہے ہیں۔ PIA کی نجکاری کا اعلان کر دیا گیا ہے اور باقی تمام ادارے بھی اس لسٹ میں شامل ہیں۔ IPPs کی لوٹ مار جاری ہے اور عوام لوڈ شیڈنگ کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ بڑے بڑے میگا پروجیکٹس شروع کیے جا رہے ہیں مگر تعلیم، علاج اور بنیادی ضروریات بڑی آبادی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ چین کی طرف سے 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ترقی کے نئے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ تمام سرمایہ کاری پاور سیکٹر اور معدنیات کے شعبے میں ہے جس سے وسائل کی مزید لوٹ مار کی جائے گی اور اس لوٹ مار پر لڑائی بڑھ کر مزید خانہ جنگی کی شکل اختیار کر جائے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے مفاہمت کے نام پر سیاسی غداری کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ کیونکہ سندھ میں حکومت میں ہونے کی وجہ سے ان کے پاس لوٹ مار کے کافی مواقع موجود ہیں اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ وفاق میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور اس انتظار کا نام انہوں نے ’جمہوریت ‘ رکھا ہوا ہے۔ کسی بھی قسم کی سیاسی اتھل پتھل ان کی لوٹ مار میں بھی تعطل کا باعث بن سکتی ہے اس لیے وہ حکومت کی ’حمایت‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ لیکن چند قائدین جو براہِ راست سیٹ اپ کا حصہ نہیں ہیں، خاص طور پر پنجاب میں عبرتناک شکست سے دوچار ہونے والے صاحبان کسی حد تک بے صبرے دکھائی دے رہے ہیں اور مڈ ٹرم الیکشن کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں خلفشار بڑھتا جا رہا ہے اور وہ محنت کش طبقے میں اپنی سیاسی بنیادیں کھوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا طبقاتی سے زیادہ قومی کردار اسے ایک انقلابی روایت کے طور پر معدوم بھی کر سکتا ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے سیاسی تماشے پوری چمک دمک سے جاری و ساری ہیں۔ پہلے ریاستی دھڑوں کے کسی بھی تنازعے کی صورت میں ایم کیو ایم کی پوزیشنیں روزانہ کی بنیاد پر بدلا کرتی تھیں اب گھنٹوں میں بدل رہی ہیں۔ اندرونی لڑائی بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تنظیمی ڈھانچوں میں آئے روز تبدیلیاں ہونا معمول کی بات بنتی چلی جا رہی ہے۔ ایک MPA کی طرف سے پارٹی رکنیت سے استعفیٰ ایم کیو ایم کی سیاست کے حوالے سے غیر معمولی بات ہے۔ ملک میں جاری سیاسی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم زیادہ معاشی مراعات اور لندن میں جاری عدالتی کاروائیوں میں زیادہ حکومتی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف کراچی آپریشن کے مہینے گزر جانے کے بعد بھی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
ان تمام تر سیاسی کھلواڑوں کے نیچے عوام برباد ہو رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نظر نہیں آ رہا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری انقلابی ڈرامے کے بعد بھی کوئی جمہوری انقلاب تو نہیں آیا لیکن ایک دفعہ پھر جمہوری سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ چناب اور سندھ میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کشمیر اور پنجاب میں 1100 سے زائد دیہات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ہائی وے برباد ہو گئے ہیں۔ ہزاروں خاندان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر کاشت فصلیں بالکل برباد ہو گئی ہیں اور لاکھوں مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ ابھی 9 لاکھ کیوسک کا ریلا چناب میں جھنگ کے علاقے سے گزر رہا ہے۔ وسیع آبادی پر مشتمل تاریخی شہر جھنگ کو خالی کرنے کے احکامات صادر کر دیئے گئے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ لوگ آخر جائیں کہاں۔ امرا تو پھر لاہور یا اسلام آباد کی محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ لیں گے لیکن محنت کشوں کی زندگیاں موت سے بھی بدتر ہو جائیں گی۔ ابھی کچھ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ پنجاب اور سندھ میں مزید کتنی تباہکاری ہو گی۔ ذخیرہ اندوزاور منافع خور رہی سہی کسر پوری کر دیں گے۔ قلت سے مہنگائی مزید بڑھے گی جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اسلام آباد میں جاری ’ انقلاب‘ کی وجہ سے پہلے ہی ملک کو ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ ڈالر ایک دفعہ پھر 102 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ساری صورتحال ایک انتہائی تشویشناک تناظر کی عکاسی کر رہی ہے۔ حکمران اپنی سیاسی ٹامک ٹوئیوں اور ترقی کے دعوے کرنے میں مگن ہیں یا پھر ہیلی کاپٹرز کے لاحاصل دورے عروج پر ہیں۔ این جی اوز بھی اپنی دکان چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ پاک فوج کے جوانوں کی ’پھرتیاں اور چستیاں‘ بھی شہ سرخیوں کی زینت بنیں گی۔ جن بنیاد پرست تنظیموں کے خلاف آپریشن کا ناٹک کیا جا رہا ہے ان کے سیاسی حواری سرِ عام وزیرستان اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فلاحی کام کر کے دنیا اور آخرت میں درجات بلند کر رہے ہیں۔ عوام کی طرف سے دیئے جانے والی امداد اور عطیات میں بھی ہمیشہ کی طرح بڑے پیمانے کی خردبرد ہو گی اور متاثرین تک آٹے میں نمک کے برابر ہی پہنچ پائے گا۔
محنت کش اور غریب عوام بالآخر یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ ساری تباہکاریاں صرف انہی کے لیے کیوں ہیں۔ اس سماج کی طبقاتی بنیادیں عوامی شعور میں رفتہ رفتہ سرایت کر رہی ہیں۔ آخر برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس سب بربادی کو کبھی غریبوں کا مقدر کہا جا تا ہے تو کبھی گناہوں اور بدکاریوں کا عذاب۔ جہاں 70 فیصد سے زائد آبادی اپنی آمدن کا 90 فیصد سے زائد غذائی ضروریات پر خرچ کر دیتی ہو وہاں ان کے پاس گناہ کرنے کی ’مالی‘ استطاعت بھی کہاں بچتی ہے۔ آخر سرمایہ داری میں گناہ بھی کب مفت میں ملتا ہے۔ اگر اخلاقیات کے مبلغین فحاشی، شراب نوشی اور زناکاری وغیرہ کو عیاشی یا بدکاری واقعتاً سمجھتے ہیں تو سن لیں کہ صرف 10 یا 15 فیصد آبادی یہ عیاشی افورڈ کر سکتی ہے جوپکے گھروں اور محفوظ پناہ گاہوں میں رہتی ہے جن پر سوائے عوامی قہر کے کوئی اور عذاب اثر ہی نہیں کرسکتا۔ تو شاید باقی ماندہ 90 فیصد پر اس لیے عذاب آتے ہوں گے کہ جب تم ان ’نعمتوں‘ سے محظوظ ہی نہیں ہو سکتے تو پھر تمہارے زندہ رہنے کا فائدہ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان فتاویٰ کے جاری کنندگان خود ان تمام نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ اور رہی بات مقدر کی۔ اگر یہ بربادی انسانوں کا مقدر ہے تو اسے مقدر کہنے والے اور اسے مقدر ماننے والے سب مجرم اور جابر ہیں۔ ہم بطور انسان (اشرف المخلوقات) کے اپنے اس مقدر کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم زیرِ تقدیر نہیں ہیں بلکہ خود کاتبِ تقدیر ہیں اورہم یہ اعلان اور اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ بہت جلد ہم حشربپا کرکے ایک نئی تقدیر لکھنے کا آغاز کریں گے اور ہم سے بہتر کون جانتا ہے کہ کون کون کس کس سزا کے مستحق ہیں۔