[تحریر: پارس جان]
ملکی معیشت کی شرحِ نمو کا تو پتہ نہیں لیکن حکمران طبقے کی بغیر شرمندگی کے جھوٹ بولنے کی صلاحیت کی ترقی کی شرح تو آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے پیش کیے جانے والے اکنامک سروے اور سالانہ وفاقی بجٹ کو ہی لے لیجئے۔ اس معاشرے کا کونسا اقتصادی پہلو ہے اور اس معیشت کا کونسا ایسا شعبہ ہے کہ جس کے بارے میں کھلم کھلا اور سینہ تان کر جھوٹ نہ بولا گیا ہو۔ وہ پاکستان جو جنابِ وزیرِ خزانہ نے عوام کو دکھانے اور بتانے کی کوشش کی ہے ،تقریباً پونے آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر کے اس خطۂ ارضی پر چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتا اور وہ پاکستان جو صبح سے شام تک سانسوں کا رشتہ بحال رکھنے کی تگ و دو میں ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے،بجٹ تقریر میں خوردبین سے بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے شماریات کو ایک سائنس کا درجہ دے دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بورژوا معیشت نہ صرف یہ کہ ایک نامکمل اور فروعی سائنس ہے بلکہ روزِ اول سے ہی یہ اقلیتی اشرافیہ کے مفادات کے مطابق اعدادوشمار کے ہیر پھیر کی مرہونِ منت رہی ہے۔ حکمران طبقے کے ترقی پسندانہ کردار کے دنوں میں یہ ہیر پھیر نظرانداز کیے جانے کے قابل ہوا کرتی ہوگی مگر اب ساری دنیا میں سب سے زیادہ قتل ہونے والی اگر کوئی مخلوق ہے تو وہ حقائق ہی تو ہیں جنہیں اعدادو شمار کے کند خنجر سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اور پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کے حکمران طبقات تو پہلے دن سے ہی ترقی دینے کی اہلیت سے یکسر عاری تھے لہٰذا ان کا نفسیاتی، اخلاقی اور ثقافتی معیار ان کو اجازت دیتا ہے کہ ہر اس طرح اور قسم کا جھوٹ بولیں کہ لوگ یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں بالکل اسی طرح جیسے ایک طوائف مختلف قسم کی نازوادا سے مجمعِ خاص کے دلوں کو لبھا لینے کی کوشش کرتی ہے۔
لگتا کچھ یوں ہے کہ حکمرانوں نے خود بھی بجٹ سمیت تمام قسم کی سرکاری معیشت اور اس کے جھنجھٹ کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ان کو بھی علم ہے کہ یہ مملکتِ خداداد اور خادمینِ حرمین شرفین کی عنایت کردہ یہ مقدس سرکار اپنی بقا اور تحفظ کے لیے 26046.42 ارب روپے کے کل GDP اور 39 کھرب روپے کے بجٹ کی بجائے معیشت کے غیر سرکاری ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ غیر دستاویزی بجٹ کل معیشت کے 76 فیصد سے متجاوز ہے اس لیے بجٹ اور اکنامک سروے جیسی دستاویزات حقیقی معیشت اور مسائل سے نہ صرف یہ کہ غیر متعلق ہوتی ہیں بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے باقی وزارتوں کی نسبت وزیرِ خزانہ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمران طبقہ اور ان کے سامراجی آقا ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ مکار، بے شرم اور ڈھیٹ ہو۔ اس لیے بجٹ تقریر اور پریس کانفرنس محض ایک روبوٹک کاروائی کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور عوام بھی ٹی وی پر ان تقاریر کو سننے کی بجائے کارٹون دیکھنے کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔ ویسے بھی جہاں آئے روز مِنی بجٹ پیش کیے جاتے ہوں وہاں کاہے کا سالانہ بجٹ ؟پھر بھی اگر کچھ زیادہ شوقین حضرات اپنی گوں ناگوں مصروفیات میں سے ٹائم نکال کر بجٹ رپورٹ پڑھنے کی جسارت کرنا چاہتے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ وہ اپنی لغت کی اصلاح فرمالیں اور مختلف اصطلاحات کو ان کے الٹ یعنی درست معنوں میں سمجھیں، جیسا کہ ترقی کو بے حسی، دولت کو ذلت، وسائل کو مسائل وغیرہ وغیرہ۔
اس بات کو ہم زیادہ آسان انداز میں ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں ایک نہیں دو معیشتیں ہیں۔ ایک سرکاری، جس کا بجٹ بنایا جاتا ہے اور دوسری غیر سرکاری جس کا بجٹ بنانا ہی ناممکن ہے اور دونوں معیشتوں کا کردار قومی کی بجائے بین الاقوامی ہے۔ ان دونوں معیشتوں کا آپس میں تعلق بہت متضاد نوعیت کا ہے۔ رسمی اور سرکاری معیشت کو اپنی نمو کے لیے کسی حد تک استحکام ، یقین اور امن و امان کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رہے اور بیرونی سرمایہ زیادہ سے زیادہ متوجہ ہو سکے جبکہ غیر سرکاری معیشت جو کہ آخری تجزیئے میں جرائم کی معیشت ہوتی ہے اسے اپنے پھیلاؤ کے لیے اور زیادہ خوف، بے یقینی، انتشاراور بدامنی درکار ہوتی ہے۔ یہ بیمار معیشت ہی نہیں بہت ساری سیاسی، مذہبی اور قومی پارٹیاں بھی غیر سرکاری معیشت پر پلتی ہیں۔ جرائم کی معیشت کے حجم اور کردار کے بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے وہ سرکاری معیشت کو کنٹرول کرتی ہے اور بسا اوقات سرکار کو بھی۔ ابھی الطاف بھائی کے لیے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر بڑی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے بہائے جانے والے مگر مچھ کے آنسوؤں کو ہی دیکھ لیجئے۔ یوں تو کالی معیشت کی اس بہتی گنگا میں سب نے ہی ہاتھ دھوئے ہیں مگر خاص طور پر قاتلوں ،بھتہ خوروں اور مجرموں کی مستند پارٹی کے ایک لیڈر کے مستند جرم کے بے نقاب ہونے کے باوجود ملکی اور صوبائی حکومتوں کا دکھاوے کی حد تک ہی اظہارِ یکجہتی آخری تجزیئے میں کالی معیشت کی سفید پر حکمرانی ہی تو ہے۔ کراچی شہر میں صرف اس ایک دن میں پھیلائے گئے خو ف و ہراس اور انتشار کے باعث سرمایہ داروں کو اربوں کا نقصان ہوا، سٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس میں 787 پوائنٹس کی کمی آئی اور 67 ارب روپے ڈوب گئے۔ عالمی معیشت کے زوال کے باعث اب تو رسمی معیشت میں بھی عدم استحکام اور ہیجان اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومتیں اور ان کی پالیسیاں اس وقت تک عملی طور پر غیر موثر اور غیر فعال رہیں گی جب تک ساری سفید اور کالی معیشت کو قومیا کر ایک مرکزی منصوبہ بند پالیسی تشکیل نہیں دی جاتی۔ تب تک بنائے جانے والے تمام بجٹوں کو محض ایک ہی نام دیا جا سکتا ہے جھوٹ ،جھوٹ اور سفید جھوٹ۔
اب سرمایہ دارانہ نظام کا عمومی زوال اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ جھوٹ کو جتنا بھی پر کشش بنا لیا جائے عوام تو درکنار خود حکمران طبقے کے پیشہ ور ماہرین اور منصوبہ سازوں کی اکثریت بھی اس سے مطمئن نہیں ہو سکتی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ بورژوا نقادوں کے پاس بھی کوئی مؤثر حل موجود نہیں ہے لیکن وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس قسم کے فنکارانہ ہیر پھیر سے کوئی بھی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ حل کیا ہے توہ وہ محض ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے ہیں اور اگر بالفرض کوئی نہایت ذہین صاحب کوئی حل پیش کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کو باقی صاحبان کی طرف سے اور زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سرمایہ داروں کے سب سے سنجیدہ ترجمان ڈان نے اپنے 5 جون کے بجٹ اداریئے کو جو عنوان ’مایوس کن بجٹ ‘دیا ہے وہ مجموعی طور پر حکمران طبقے کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔
پیش کیے گئے بجٹ کا کل حجم 39 کھرب 36 ارب روپے ہے اور17 کھرب 10 ۱رب کے خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو کل بجٹ کے 43 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہمیشہ کی طرح کل بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ 1325 ارب روپے ملکی و غیر ملکی سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں جبکہ دفاعی بجٹ میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور7 کھرب 14 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ کل بجٹ کے نصف سے زیادہ کی رقم بنتی ہے۔ جتنی تیزی سے بجٹ کی ان دو مدوں میں اخراجات میں تیزی آ رہی ہے تو عین ممکن ہے کہ اگلے دس سالوں میں کل بجٹ کا 70 فیصد سے زائد ان دو مدوں کے لئے مختص کیا جانے لگے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قرضوں کے سود کی ادائیگی اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید داخلی اور بیرونی قرضوں پر اکتفا کرنا پڑے گاجن کی شرائط اور شرح سود لازمی طور پر پہلے سے زیادہ کڑی اور تباہ کن ہوں گی۔ حال ہی میں جاری کیے گئے 2 ارب ڈالر کے بانڈز پر ریکارڈ 8.3 فیصد کا سود ادا کرنا ہو گا۔ اس سے حکمرانوں کی عمومی معاشی حکمتِ عملی کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ پہلے ہی ہر پیدا ہونے والا پاکستانی 85000 کا مقروض ہو چکا ہے ،یہ حکومت جہاں ڈالر کو واپس 100 روپے پر لانے کا معجزہ سر انجام دے چکی ہے وہیں فی کس قرض کو ایک لاکھ تک لے جانے کا ہدف اس بجٹ کے ذریعے آسانی سے پورا کیا جا سکے گا۔
حکمران طبقے کی محض ٹیکس سازی کی پالیسی سے ہی ان کی نا اہلی اور طفیلی کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کی پسندیدہ ترین یہ حکومت بھی زرعی ٹیکس بالخصوص بڑی جاگیروں پر ٹیکس لگانے کی جرأت نہیں کر سکی۔ جاگیر داروں پر اکتفا کرنے والے سرمایہ دار خود بھی جبلی طور پر ٹیکس چور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کی شرح GDP کے 10 فی صد سے بھی کم ہے اور اس کا بھی 90 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں عوام سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ 810 2ارب روپے کے محصولات کی وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے جو کہ گزشتہ برس 2475 ارب تھا لیکن 1955 ارب روپے تک وصول کیا جا سکا۔ کارپوریٹ ٹیکس کو 34 فیصد سے کم کر کے 33 فیصد کر دیا گیا ہے۔ بجٹ سے ایک ہفتہ قبل ہی سرمایہ داروں کو477 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حکومت اس مرتبہ بھی اپنے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پائے گی جس کا خمیازہ پھر غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ روز مِنی بجٹ پیش کیے جائیں گے۔ سبسڈیز میں خاتمے کی مرحلہ وار پالیسی کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ یوں بجلی، پیٹرول اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ماہانہ سے ہفتہ وارانہ روش اختیار کرتا جائے گا۔ یہ واضح طور پر اس حکومت کا عوام کو دو ٹوک پیغام ہے کہ ’ارب پتیوں کی حکومت ارب پتیوں کے ذریعے اور ارب پتیوں کے لیے‘۔ اور ابراہم لنکن کے مرنے کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد سرمایہ دارانہ جمہوریت کی تعریف میں اتنی جدت بھی قابلِ ستائش ہے۔
حکومتی اعدادو شمار کے مطابق شرح ترقی 4.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے زیادہ تر داخلی اور بیرونی سرمایہ کاری ٹیلی کمیونیکیشن ،رئیل اسٹیٹ،کارپوریٹ فارمنگ، معدنیات اور خدمات کے شعبے میں ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی بجائے مزید سکڑ رہے ہیں۔ اس قسم کی معاشی ترقی کے بڑھنے سے معیارِ زندگی بڑھنے کی بجائے اور گر جاتا ہے مگر کمیشنوں اور بد عنوانیوں کے باعث کچھ لوگوں کی دولت اور منافعوں میں ہونے والے اضافوں کو کامیابی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ پیداواری معیشت بڑھنے کی بجائے مسلسل سکڑ رہی ہے۔ بجلی اور گیس کا بحران حل کرنے کی ضرورت ایک حقیقی نمو پاتی ہوئی معیشت کو ہوتی ہے منہدم ہوتی ہوئی صنعت کو نہیں۔ ضرورت سے زائد پیداواری صلاحیت ہونے کے باوجود نئے منصوبوں پر کمیشن بٹورنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اربوں روپے بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کو نوازنے کے باوجود گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے جس سے حکومتی اور غیر حکومتی سرمایہ دار مستفید ہو رہے ہیں۔ مارکس نے بہت پہلے وضاحت کر دی تھی کہ سرمایہ داروں کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ پیداواری عمل کی ’دقت‘ سے گزرے بغیر پیسے سے پیسہ بنائیں۔ یہ آجکل کی سرمایہ کاری کے کردار کا بنیادی خاصہ بن چکا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کو اس ضمن میں موافق رکھنے کے لیے سامراجی امداد کے ساتھ متعلقہ شرائط لگانا تو ماضی کا وطیرہ رہا ہے اب تو بیشتر بجٹ ہی وہ خود بناتے اور منظور کرواتے ہیں۔ اس بجٹ میں بھی کسٹم ڈیوٹی کو کم کیا گیا ہے جس سے ملکی صنعت پر دباؤ بڑھے گا جبکہ مالیاتی سرمائے کو کارپوریٹ ٹیکسوں کی مد میں کمی کر کے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ روزگار کے مواقع اور سکڑیں گے اور بیروزگاری کا عفریت بڑھنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ،بد امنی اور سٹریٹ کرائم میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا۔
دہشت گردی جو کہ خود ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اس میں اضافے سے سرکاری معیشت کا خسارا بھی بڑھ جائے گا۔ گزشتہ برس دہشت گردی کے باعث ملکی معیشت کو 700 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ رقم پاکستان کے کل دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ یہ اعدادوشمار ایک اور حوالے سے دفاعی بجٹ اور سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑے سوالیہ نشان کو جنم دیتے ہیں۔ یعنی سرحدوں کی حفاظت کے نام پر بجٹ کا اتنا بڑا حصہ ہڑپ کرنے والے ادارے مشرقی اور مغربی سرحد کے اندر طول وعرض میں جاری و ساری بربریت کے ڈرامے کے محض تماشائی ہی نہیں بلکہ اس میں ملوث بھی ہیں۔ یوں جہاں سرحدوں پر کشیدگی رکھنا ضروری ہے وہیں ملک کے اندر انتشار بھی دراصل اس مقدس لوٹ مار کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی سوال کے ذریعے مختلف ریاستی اداروں کے باہمی تصادموں اور قومی سلامتی کے مقدس اداروں کے لیے نکلوائی جانے والی ریلیوں اور جلوسوں اور گلے پھاڑ پھاڑ کر افواجِ پاکستان کی قصیدہ گوئی کرنے والے قومی سطح کے قائدین کے جذبۂ حب الوطنی کے مضمرات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا دفاعی بجٹ میں کولیشن سپورٹ پروگرام کے 85 ارب اور ہنگامی اقدامات سے نمٹنے کے لیے مختص کیے گئے 165 ارب روپے شامل نہیں کیے گئے ہیں۔
ن لیگ کی حکومت کا سب سے پسندیدہ اور دلچسپی کا حامل شعبہ ہمیشہ تعمیرات اور ترقیاتی کاموں کا شعبہ رہا ہے۔ اس دفعہ بھی بجٹ میں 1300 ارب روپے کی خطیر رقم ترقیاتی کاموں کی مد میں رکھی گئی ہے۔ اگرچہ ماضی کی طرح اس میں کٹوتی کی جا سکتی ہے مگر کئی میگا پراجیکٹس کا اجرا بھی یقینی ہو گا۔ ان پراجیکٹس کے ذریعے جہاں تعمیرات کی صنعت میں مصنوعی طلب پیدا کی جاتی ہے وہیں ٹھیکوں اور کاغذی کارروائیوں میں خردبرد کے نئے ریکارڈ بھی قائم کیے جاتے ہیں۔ سیمنٹ ،سریے،بجری وغیرہ کی مصنوعی طلب قیمتوں کو اس سطح پر لے جاتی ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ اس کے حصول کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور پھر بالآخر یہ بلبلہ پھٹنا لازم ہو جاتا ہے۔ ترکی کا معاشی ماڈل اس کی بہترین مثال ہے،جہاں مصنوعی شرح ترقی اب زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اس قسم کی پالیسی سے جہاں معاشی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے اس کے برعکس عوامی غم و غصے اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے جو کسی بھی ایک واقعے کی شکل میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ ہم ترکی میں پہلے ہی ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ فی کس آمدن1339 سے بڑھ کر 1386 ڈالر ہو گئی ہے مگر ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ نصف سے زائد آبادی غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ در اصل حکومتی طرزِ عمل کا اندازہ تعلیم کے بجٹ میں کمی سے لگایا جا سکتا ہے۔ 8.3 فیصد کے سرکاری اعلان کردہ افراطِ زر کی مناسبت سے تعلیمی بجٹ میں 11 فیصد سے زائد کمی کی گئی ہے۔ صحت اور تعلیم کے لیے بجٹ کا محض 2.3 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ ان شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کے ذریعے انہیں عوام کی پہنچ سے مزید دور کیا جاتا رہے گا۔ اس کے علاوہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ غریب عوام کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہو گا۔ مزید کئی طرح کے ٹیکس لگائے جائیں گا جن کا بوجھ بھی غریب عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ 1500 روپے کی خیرات، کم سے کم اجرت 12000 کرنا ،تنخواہوں میں 10 فیصد کا اضافہ اور اس طرح کے دیگر اقدامات عوام پر بوجھ کم کرنے کی بجائے ان کا تمسخر اڑانے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
یوں اس بجٹ کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو عوام کے معیارِ زندگی میں کسی بھی قسم کی بہتری کی نوید دے۔ اس کے متوازی ملک میں بڑھتا ہوا سیاسی خلفشار معیشت کے دباؤ میں اضافہ کرے گا۔ اگلے سال میں اہم سیاسی تبدیلیوں کے لیے صف بندی کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات اور طالبان کے ساتھ مذاکرات جیسی پالیسیوں پر عسکری اور سیاسی قیادتوں میں بڑھتا ہوا تناؤ اور ریاستی اداروں کے مابین اور اندرونی رسہ کشی کسی بھی قسم کی سیاسی مہم جوئی کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن سیاسی افق پر مطلع جتنا بھی ابر آلود کیوں نہ ہو ایک بات تو واضح ہے کہ اس نظام کے اندر جمہوریت ہو یا آمریت، مخلوط حکومت ہو یا ایک پارٹی کی حکومت، معاشی پالیسیاں یہی رہیں گی۔ یہ ممکن ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی اتھل پتھل کے نتیجے میں کچھ افراد کے خلاف بدعنوانیوں وغیرہ کے نام پر انتقامی کاروائیاں کی جائیں مگر پالیسیوں کا عمومی دھارا یہی رہے گا۔ امیر امیرترین ہوتے چلے جائیں گے اور غریب حشرات کی سطح کی زندگی گزارنے پر مجبور کیے جاتے رہیں گے۔ بھوک، غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور بیماریوں میں اضافہ ہوگا۔ غذائی قلت اور بھوک کی وجہ سے اموات ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ تھر میں روزانہ اوسطاً 5 انسان محض بھوک کے ہاتھوں قتل کیے جا رہے ہیں۔ بات اب خود کشیوں سے اجتماعی خودکشیوں کی طرف جا رہی ہے۔ ہم گزشتہ برس سندھ میں واقع کینجھر جھیل پر اس کی ایک مثال دیکھ چکے ہیں۔ مگر محض یہی راستہ نہیں بچا ہے۔ ایک اور راستہ بھی ہے۔ جو ابھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ جدوجہد، تحریک، بغاوت اور انقلاب کا راستہ ہے جوکہ بہت غبار آلود ہے۔ اس پر مایوسیوں، پسپائیوں اورغداریوں کی دھول جمی ہے۔ لیکن یہ دھول بالآخر چھٹ کر رہے گی۔ طبقاتی شعور گھائل ضرور ہے لیکن عوام بہت اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ طبقاتی جنگ کا آغاز خود اس حکومت نے کر دیا ہے۔ محنت کشوں کو جلد یا بدیر اس کا جواب دینا ہو گا۔ وہ اپنے مخالف طبقات کو پہچان رہے ہیں۔ جس دن وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں طبقات میں سے ایک کو مٹنا ہو گا تو وہ مصالحت کو ترک کرتے ہوئے اور حکمران طبقے کی طرف سے مسلط کردہ قیادتوں کو مسترد کرتے ہوئے خود تاریخ کے میدان میں کود پڑیں گے۔ میر تقی میر نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا،
امیر زادوں سے دلّی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
متعلقہ:
دیوالیہ معیشت کی ’’بجٹ سازی‘‘
بجٹ 2014-15ء: بھیک مانگتے رہو، بھکاری بناتے رہو!