پنکج سبیر ہندی کہانی کاروں کی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پچھلے پندرہ سال میں لکھنا شروع کیا۔ وہ 1975ء میں پیدا ہوئے اور بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی سے سائنس میں ماسٹرز کیا۔ وہ کئی ہندی اخباروں میں مضامین لکھتے ہیں۔ ان کے ناول ’’یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ کو 2010ء میں بھارتیہ پیٹھ کا نولیکھن ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ تھا۔ مذکورہ کہانی بھی اسی مجموعہ سے لی گئی ہے (جاوید ملک)
ظفر آج بھی گھر نہیں لوٹا ہے۔ ایسا اکثر ہی ہوتا ہے۔ دن بھر کا تھکا ہار ا ظفر دیر رات گھر لوٹتا ہے۔ گھر لوٹ کر ایک ہی بات کہتا ہے، ’’آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔ دوست نہیں مانے توان کے ساتھ کھا لیا تھا۔‘‘ ممتاز بھی کچھ نہیں بولتی۔ معلوم ہے کہ اس کا شوہر اسے شرمندگی سے بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے، ورنہ کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتی کہ غریبی اور دوست، یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کبھی نہیں رہ سکتیں۔ بھوک کا پیڑجب پیٹ میں اُگا ہوتو چہرہ خود ہی بتا دیتا ہے۔ ممتاز اس جھوٹ کو چپ چاپ گردن ہلاکر مان لیتی ہے۔ مان لینے کے علاوہ چارہ بھی کیا ہے۔ جب غربت گھر میں بھائیں بھائیں کرتی ڈول رہی ہوتو بھوک بھی اس کی سہیلی بن کر سرپر تین تگاڑ کھیلتی ہے۔
بچوں کو تھوڑا بہت کھلا پلا کر سلادیا ہے ممتاز نے۔ ظفر جان بوجھ کر دیر کرتا ہے۔ جانتا ہے، بچے سوگئے ہوں گے۔ جب ہاتھ بھرے ہوتے ہیں تب شام ڈھلے ہی گھر لوٹ آتا ہے۔ مگر ہاتھ بھی روز کہاں بھرے ہوتے ہیں۔ اکثر تو دیر رات اپنے ہی گھر چوروں کی طرح آتا ہے۔ اگر پیٹ میں بھوک ہوتو آنکھوں میں نیند بھی کچی ہوتی ہے۔ پھر بچوں کو بھی کیا معلوم کہ ان کا باپ کس حال میں ہے۔ وہ تو بس یہ جانتے ہیں کہ ابا صبح سے کام پر نکل جاتے ہیں، کام کے بدلے میں پیسے آتے ہیں جس سے کھانا آتا ہے، اور یہ کھانا بھی بھوک ماردوا ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ کام تو آدمی تب کرے جب کام ہو۔ دن بھر فیکٹری کے پچھواڑے بیٹھ کر گھر لوٹا ہوا آدمی خالی ہاتھ نہیں آئے گا تو کیسے آئے گا۔
تین بھائیوں کی پیٹھ پر پیدا ہوئی ممتاز کا نام ماں باپ نے ممتاز کیوں رکھا تھا، یہ تو اسے پتا نہیں۔ ہاں نام جیسا کچھ نہیں مل پایا اسے۔ جو ملا وہ سب کچھ ان ناموں کے مطابق تھا جو امی جھونٹے پکڑ کر پیٹتی ہوئی اسے دیتی تھیں: ’’کرم جلی‘‘، ’’نصیب پیٹی‘‘ ۔ ان کی ہی زبان پھل گئی تھی۔ اگر وہ ایسا جانتیں تو شاید اسے ممتاز ہی کہہ کر بلاتیں۔
’’بچے سوگئے کیا؟ ‘‘ ظفر نے دھیرے سے پوچھا۔
’’ہاں، ابھی سوئے ہیں۔ آج بڑی دیر کر دی؟ ‘‘ ممتاز نے کہا۔
’’ہاں، آج پھر کام نہیں ملا۔ ٹھیکیدار کہتا تھا کہ اگر اور ایسا چلا تو وہ واپس لوٹ جائے گا۔ یہاں اس کو بیٹھے کی مزدوری بھی نہیں مل رہی ہے‘‘ ظفر نے کرتا اتار کر ممتاز کو دیتے ہوئے کہا۔
’’خدا سب ٹھیک کر ے گا، اس پر بھروسا رکھو‘‘ ممتاز نے شوہر کو ٹوٹا ہوا جان کر کہا۔
’’ہاں، اب بس اسی کا آسرا ہے، ‘‘ ظفرنے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔ کرتا ٹانگ کر ممتاز باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ لیکر لوٹی تو ظفر آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔
بھوک بھی کتنا عادی کر دیتی ہے آدمی کو!جانتا ہے کہ اگر خالی ہاتھ گھر لوٹا ہے تو صرف سلانے کے سوا یہ گھر اور کچھ بھی نہیں دے گا۔
’’کھانا کھالو۔‘‘ ممتاز کی آواز سن کر ظفر چونک پڑا۔
’’ارے میں تو۔ ۔ ۔ ۔‘‘
ظفر کی بات کاٹے ہوئے ممتاز بولی ’’باہر سے کھاکر آئے ہو، پر تھوڑا بہت کھالو، آج تمہاری پسند کا سالن بنایا ہے‘‘
’’تم نے کھالیا؟ ‘‘ ظفر نے ہاتھ میں پلیٹ پکرتے ہوئے پوچھا۔
’’کھالوں گی۔ آپ کھائیے، تب تک میں اندر کا کام نمٹالوں‘‘ کہتے ہوئے جیسے ہی ممتاز اندر جانے کے لیے مڑی ویسے ہی ظفر نے ہاتھ تھام لیا۔
’’آؤ بیٹھو، ساتھ ہی کھالیتے ہیں‘‘ ظفر نے ممتاز کو نیچے بیٹھاتے ہوئے کہا۔ دونوں میاں بیوی چپ چاپ کھانا کھانے لگے۔ دونوں چھوٹے سے چھوٹا نوالہ کھانے کی کوشش کررہے تھے تاکہ دوسرا زیادہ کھا سکے۔
’’ایسے کب تک چلے گا؟ ‘‘ ممتاز نے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’وہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں کہ کچھ توکرنا پڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ اب فیکٹری کا آسرا تو ہے نہیں‘‘ ظفرنے ہاتھ کے نوالے کو پلیٹ میں چھوڑتے ہوئے کہا۔
ظفر کو نوالہ چھوڑتے دیکھ کر ممتاز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے غلط وقت پر غلط بات کہہ دی۔
’’کھاتو لو، فکر کرنے کو تو عمر پڑی ہے‘‘ ممتازنے شوہر کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ظفر نے پھر سے کھانا شروع کر دیا۔
’’سوچتا ہوں کہ کل کینٹ کی طرف چلا جاؤ ں۔ سنا ہے، وہاں کچھ فیکٹریوں میں بھرتی چل رہی ہے لیبر کی‘‘ ظفر نے سرجھکائے جھکائے ہی کہا۔
’’کہیں پچھلی بار جیسا نہ ہو، دیکھ بھال کے جانا‘‘ ممتاز نے بھی اس طرح سرجھکائے ہوئے کہا۔
’’اب ہوتا ہے تو ہوتا رہے، اس پر تو کسی کا بس نہیں ہے!‘‘ ظفر نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔ کنپٹیوں کی نسیں کچھ ابھرآئیں۔
دو مہینے پہلے بھی ظفر نے ایک جگہ کام کے لیے کوشش کی تھی۔ فیکٹری کے مینجرنے مضبوط قد کاٹھی دیکھ کر اسے رکھنے پر اپنی رضا مندی بھی دے دی تھی مگر جب سپروائز ر کے سامنے پیشی ہوئی تو ظفر کی قسمت اس کے مذہب کے سامنے ہار گئی۔ باہر نکلتے وقت ظفر کے کان میں وہ جملے بھی پڑے تھے جو سپروائز ر مینجر سے کہہ رہا تھا، ’’تم کو کچھ عقل بھی ہے کہ نہیں؟ یہ لوگ بھروسے کے قابل بھی ہوتے ہیں؟ سیٹھ ویسے ہی ان لوگوں سے چڑتا ہے۔ خود تو جاؤگے، ساتھ میری نوکری بھی لے ڈوبو گے‘‘ سپروائزر کی کہی بات ظفر کے کانوں میں لاوے کی طرح اتر گئی۔
آدمی نے اپنی بے ایمانی اور کمینے پن کو چھپانے کے لیے مذہب کا لفظ گڑھ لیا ہے۔ یہ لفظ حقیقت میں آدمی نے پوری آدمیت کے کمینے پن کو اجاگر ہونے سے بچانے کے لیے گڑھا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ لوگ بے ایمان ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بھروسے کے لائق نہیں ہیں۔ یہ لوگ، وہ لوگ، کے چکر میں پوری آدمیت اپنی بے ایمانی، اپنا کمینہ پن چھپا کر معصوم بنی رہتی ہے۔
ممتاز نے ظفر کی کنپٹیوں اور ماتھے کی رگوں کو ابھرتے ہوئے دیکھا تو دھیرے سے کہا ’’سب لوگ ایک جیسے تھوڑے ہی ہوتے ہیں‘‘ کھانا ختم کرکے ظفر لوٹا ہاتھ میں لے کر باہر ہاتھ دھونے چلا گیا۔
ممتاز برتن سمیٹ کر اندر چلی گئی۔
اگلے دن صبح جب ظفر کام پر پہنچا تو وہاں کا ماحول پچھلے دنوں جیسا ہی تھا۔ سارے مزدور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ ظفر بھی جاکر ونے کے پاس بیٹھ گیا۔ ونے پڑھا لکھالڑکا ہے۔ ظفر سے عمر میں بھی کم ہے، پھر بھی دونوں میں خوب بنتی ہے۔
’’آؤ ظفر بھائی، تم بھی دیکھو تماشا!‘‘ ونے نے طنزیہ لہجہ میں کہا۔
’’تماشا؟ آج کیا ہونے والا ہے؟ ‘‘ ظفر نے پوچھا۔
’’سنا ہے آج سب فائنل ہوجائے گا، اپنے اپنے گھر جاؤ، کاندا(پیاز )روٹی کھاؤ‘‘ ونے نے طنز کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا۔
’’کھاؤ تو تب نا جب گھر میں ہو!‘‘ ظفر نے طنز کا جواب طنز میں دیا۔
’’پوری کویتا سنو، تمہارے سوال کا جواب مل جائے گا۔ اپنے اپنے گھر جاؤ، کانداروٹی کھاؤ، کاندا روٹی نہ ملے تو چوہے کی پونچھ کتر کر کھاؤ‘‘ ونے نے کویتا گا کر سناتے ہوئے کہا۔
’’غریبوں کے گھر یہ چوہے کیا بھوکے مرنے آئیں گے؟ آخر چوہوں کا بھی تو پیٹ ہوتا ہے۔ جس گھرمیں انسانوں کو ہی دووقت کی نصیب نہ ہوری ہو، وہاں کے چوہوں کو روزے نہیں رکھنا پڑیں گے تو اور کیا ہوگا‘‘ ظفر نے کہا۔
’’ظفر بھائی، کویتا میں نے تو نہیں بنائی !جس نے بنائی اس نے چوہے کی پونچھ ہی کتر نے کو کہا ہے‘‘ ونے نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ضرور کسی بڑے پیٹ والے نے ہی لکھی ہوگی یہ کویتا، جس کے گھر میں چوہے ہوتے ہوں گے۔ یہاں تو بچے ہی دووقت کے لیے ترس رہے ہیں‘‘ ظفر نے نے کچھ حقار ت کے ساتھ جوا ب دیا۔
’’اب کروگے کیا؟ یہاں تو سنا ہے آج ہی سب کچھ فل اور فائنل ہونے والا ہے‘‘ ونے نے ظفر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھوں گا، جہاں مجھے مسلمان ہونے کے باوجود کام مل جائے‘‘ ظفر کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔
’’ظفر بھائی، ہندومسلمان تو کوئی دھرم ہے ہی نہیں، اصل دھرم تو دنیا کے دوہی ہیں:امیر ی اور غریبی۔ بھرے پیٹ والوں کا دھرم اور خالی پیٹ والوں کا دھرم۔ جب تک آدمی کا پیٹ خالی ہے تب تک اسے نہ تو یہ یاد رہتا ہے کہ میں ہندو ہوں اور نہ یہ کہ سامنے والا مسلما ن ہے۔ مگر جہاں پیٹ بھرا، وہاں فوراًیاد آجاتا ہے کہ میں ہندو ہوں یا مسلمان‘‘ ونے نے ظفر کے لہجے کی کڑواہٹ کو محسوس کرتے ہوئے دلائل کے انداز میں یہ بات کہی۔
ظفر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چپ چاپ زمین کریدتا رہا۔
’’جب پیٹ میں روٹیاں چھم چھم کرکے ناچ رہی ہوں تب ہوتا ہے آدمی ہندو یا مسلمان، ورنہ تو ہم ایک ذات کے ہیں، بھک مروں کی ذات کے۔ ہندویا مسلمان ہونے کا رئیسانہ شوق پالنا ہماری اوقات سے باہر کی چیزہے‘‘ ونے نے ظفر کے غصے کو کم نہ ہوتے دیکھ کر اپنی بات کو بڑھایا۔
’’توپھر میں کہا جاؤں؟ غریبوں کی فیکٹریاں تو ہوتی نہیں ہیں، ہوتی تو رئیسوں کی ہی ہیں، اور رئیسوں کے لیے میں یا تو مسلمان ہوں یا ہندو۔ وہ لوگ، جن پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا!‘‘ ظفر نے پھر طنز کا تیر چلایا۔ ونے لاجواب ہوکر اسے دیکھتا رہا۔
’’جیسے ہی اپنا نام بتاتا ہوں، ویسے ہی لوگو ں کے ماتھے پر شکن پڑ جاتی ہے، جیسے میں مسلمان نہ ہوکر کوئی جانور ہوں۔ کیا مجھے سب دکھائی نہیں دیتا؟ اور بے ایمانی تو آدمی کی سرشت میں ہے لیکن یہ بے ایمانی ہمیشہ بھرے پیٹ والے ہی کرتے ہیں۔ ہم جیسے بھک مرے لوگوں کو روٹی کا مسئلہ حل کرنے سے ہی فرصت کب ملتی ہے جو بے ایمانی جیسے امیروں کے شوق پالیں‘‘ ظفر نے ونے کو خاموش دیکھ کر کہا۔
’’اور، بچے کیا کرتے ہیں دن بھر؟ ” ونے نے بات کو گھمبیر ہوتے دیکھ کر موضوع بدلا۔
’’کرتے کیا ہیں!جب تک یہاں کا کام چلتا تھا وہ اسکول بھی جاتے تھے، پر اب تو حالت یہ ہے کہ دن بھر مارے مارے محلے میں پھرتے ہیں‘‘ ظفر نے جواب دیا۔
’’کہیں کام پر کیوں نہیں لگا دیتے؟ چار پیسے لائیں گے تو تم کو بھی سہارا ملے گا‘‘ ونے نے کہا۔
’’ہاں اب تو یہی کرنا پڑے گا۔ سوچتا تھا کہ فیکٹری میں کام چالو ہوجائے گا تو پھر سے اسکول بھیجنا شروع کر دوں گا۔ بچوں کے ہاتھوں میں پیچ کس اور پانے پکڑانا نہیں چاہتا تھا، پر ایسا لگتا ہے کہ یہی قسمت میں لکھا کر آئے ہیں۔ وہ تو بھلا ہوممتاز کا کہ اسے کچھ سینا پرونا آتا ہے، تھوڑا بہت ادھر اُدھر کا کام کرکے گھر کا چولھا سلگا لیتی ہے‘‘ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے ظفر نے کہا۔
’’کوئی ضروری ہے کہ بچوں کو مکینک ہی بناؤ؟ اور بھی تو کام ہیں‘‘ ونے بولا۔
’’جو لوگ مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے کام نہیں دے رہے ہیں، وہ میرے بچوں کو دیں گے کیا؟ ‘‘ ظفر نے پھر تلخی سے کہا۔
’’ایک کام ہے تو سہی، اور روز روز کا بھی نہیں ہے، بس ہفتے میں ایک دن کرنا ہے۔ تینوں بیٹے ایک دن میں ہی اتنا کمالیں گے کہ گھر بھی چل جائے گا اور اسکول بھی جانے لگیں گے‘‘ ونے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’کوئی غلط کام ہی ہوگا‘‘ ظفر نے کہا
’’غلط کا مطلب چوری وغیرہ تو نہیں، ہاں تمہارے مذہب کے حساب سے وہ ضرور ہے جسے تم وہ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کفر۔ کفر ضرور ہے‘‘ ونے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کفر کی توتب سوچیں جب پیٹ میں روٹیاں ہوں۔ خالی پیٹ والوں کے لیے کیا کفر اور کیا اس کا ڈر !‘‘ ظفر نے کہا۔
’’تو چلو میرے ساتھ‘‘ ونے نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’کہا ں پہلے یہاں کا فیصلہ تو سن لیں‘‘ ظفر نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’فیصلہ تو ہوچکا ہے، اب ہمارے سننے یا نہ سننے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ تم چلو تو میرے ساتھ‘‘ ونے نے ہاتھ پکڑ کر ظفر کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’پر چلنا کہاں ہے؟ ‘‘
’’تم چلو تو سہی، تمہیں کچھ سامان دلاتا ہوں‘‘ ونے بولا۔
’’سامان؟ یہاں تو روٹیوں کے لالے پڑے ہیں اور تم سامان خریدنے کی بات کررہے ہو؟ ‘‘ ظفر نے پھر حیرانی سے پوچھا۔
’’ابھی ادھار دلوا دیتا ہوں، پرسوں آکر پیسے دے جانا‘‘ ونے بولا۔
’’کہاں سے دے جاؤں گا؟ کیا کل پیسے آسمان سے ٹپک پڑیں گے؟ ‘‘ ظفر نے پھر سوال کیا۔
’’آسمان سے نہیں۔ انہی رئیسوں کے پاس سے آئیں گے جو تمہیں کام نہیں دے رہے ہیں‘‘ ونے نے کہا۔
’’کیسے آئیں گے؟ ‘‘ چلتے ہوئے ظفر نے پوچھا۔
’’سب معلوم ہوجائے گا۔ تم چلو تو سہی‘‘ کہتے ہوئے ونے نے ظفر کو بانہہ پکڑ کر کھینچ لیا۔
شام کو جب سامان کا جھولا لیے ہوئے ظفر گھر پہنچا تو ممتاز حیرت میں پڑ گئی۔
’’یہ کیا لے آئے؟ ‘‘ ہاتھ کا جھولا پکڑتے ہوئے اس نے کہا۔
’’کام کا سامان ہے، ونے نے دلوایا ہے۔ کل سے بچوں کو کام پر بھیجنا ہے۔ اور ہاں، ایک تھیلی میں کچھ راشن بھی ہے۔ ونے نے ہی دلوادیا ہے کہ پرسوں آکر پورا حساب کر جانا‘‘ ظفر نے جواب دیا۔
’’کام پر بھیجنا ہے؟ کہاں؟ ‘‘ ممتاز نے پوچھا۔
’’وہ کل بتادوں گا۔ صبح جلد اٹھا کر بچوں کو نہلا دھلاکر تیار کر دینا‘‘ ظفر نے مختصر سا جواب دے کر بات کو ختم کر دیا۔
صبح جب ممتاز بچوں کو نہلا دھلا کر لائی تو دیکھا، ظفر سارا سامان جماکر بیٹھا ہے۔ ٖظفر نے بچوں کو دیکھا تو ممتاز سے بولا ’’میرے واسطے بھی نہانے کا پانی بھر دو۔ تب تک میں بچوں کو تیار کر دیتا ہوں‘‘
ممتاز جب پانی بھر کر لوٹی تب تک ظفر بچوں کو تیار کر چکا تھا۔
ممتاز نے دیکھا تو کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولی ’’یا خدا!یہ کیا کفر کر رہے ہو؟ ‘‘
’’کچھ کفر نہیں ہے!یہ بس ایک دن کا ہی ہے، بس ہفتے میں ایک دن کے لیے‘‘ ظفر نے لاپروائی سے کہا۔
’’ذرا تو خدا کا خوف کرو!‘‘ ممتاز نے کہا۔
’’اس میں برا کیا ہے جوڈروں؟ کوئی چوری ڈکیتی جیسے کام تو کروا نہیں رہا میں اپنے بچوں سے‘‘ ظفر نے جواب دیا۔
’’مگر پاس پڑوس والے کیا کہیں گے؟ ‘‘ ممتاز نے پھر سوال کیا۔
’’کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ منھ اندھیرے بچے نکلیں گے تو شام ڈھلنے کے بعد ہی آئیں گے۔ کوئی دیکھے گا ہی نہیں تو بولے گا کیا!‘‘ ظفر نے پھراتنی ہی لاپرواہی سے کہا۔
’’مگر۔ ۔ ۔ ۔؟ ‘‘ ممتازنے کچھ دلائل دینے کی کوشش کی لیکن ظفر نے ہاتھ کا اشارہ کرکے بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’بس۔ ۔ اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی‘‘
ممتاز نے شوہر کے تیور دیکے تو کچھ نہیں بولی۔
ظفر نے چھوٹے بیٹے کے بال ٹھیک کیے اور بولا ’’ٹھیک ویسا ہی کرنا جو میں نے بتایا ہے۔ ان تین لفظوں کے علاوہ کچھ بھی مت بولنا، نہیں تو سب معاملہ گڑ بڑ ہوجائے گا‘‘
بڑے بیٹے نے جواب دیا ’’جی ابو۔ ۔ ۔‘‘
’’چلو ایک بار اپنی امی کے سامنے جا کر پریکٹس کر لو‘‘ ظفر نے کچھ مسکرا کر ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
تینوں بچے ممتاز کی طرف پہنچے اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اسٹیل کی لٹکن کو اوپر اٹھاتے ہوئے ایک آواز میں بولے ’’جے شنی مہاراج!‘‘