فلسطین: معصوموں کے قتل عام میں سامراجیوں کے جشن

تحریر: لال خان

سوموار 14 مئی کو اسرائیل کی صیہونی ریاست غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا اور اس کا شوہر جیرڈ کشنر‘ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی سامراج کی دوسری گماشتہ ریاستوں کے سفیروں کیساتھ مل کر یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے افتتاح کا جشن منا رہے تھے۔ اِس افتتاحی تقریب میں شریک یہ مہمان غزہ کے باسیوں کے بہتے لہو سے یوں بے نیاز اور بے حس معلوم ہو رہے تھے جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں۔ یہ لوگ کھل کے ایک ایسی ریاست کی حمایت کر رہے تھے جس کا شمار اِس کرہ ارض کی سب سے رجعتی اور جابر ریاستوں میں کیا جا سکتا ہے۔
2014ء کے بعد سے یہ سوموار فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر سب سے خونی دن تھا۔ منگل کو 63 فلسطینیوں کے جنازے اٹھائے گئے۔ اسی روز فلسطینیوں نے ’یومِ نکبہ‘ یا ’بربادی کا دن‘ بھی منایا۔ یہ وہ دن ہے جب 15 مئی 1948ء کو عالمی طاقتوں کی آشیر باد سے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین سے نکال کے دربدر کر دیا گیا تھا۔ ستر سال بعد بھی فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور ان کی زمینوں پر قبضوں کا یہ سلسلہ سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے جسم پر اسرائیل کا وجود کسی کینسر سے کم نہیں ہے جس نے کئی دہائیوں سے پورے خطے کو مسلسل عدم استحکام اور خونریزی کا شکار کیا ہوا ہے۔
پچھلے کئی ہفتوں سے غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام احتجاج کر رہے ہیں اور ان علاقوں میں واپس جانے کا حق مانگ رہے ہیں جہاں سے انہیں 1948ء میں زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ 30 مارچ کو ان مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی ریاست کم از کم 114 فلسطینیوں کو قتل اور 12 ہزار کو زخمی کر چکی ہے۔ ہر ہفتے جمعے کے دن غزہ کی پٹی کے محصورین بارڈر کی طرف مارچ کرتے ہیں اور اسرائیلی ریاست کے جبر اور قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ہر بار صیہونی ریاست کے نشانچی چن چن کر اِن فلسطینیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس تحریک میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا اِن فلسطینیوں نے موت کے خوف کو مسخر کر لیا ہو۔ اسرائیل کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیلی سپاہی، جن میں سنائپر بھی شامل تھے، کئی گھنٹوں تک مظاہرین پر گولیاں چلاتے رہے… میں نے آج تک ایسی بربادی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ صیہونی ریاست کی بربریت اور جابرانہ ذہنیت کا اندازہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے اِس تازہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’غزہ میں کوئی بھی بے گناہ اور معصوم نہیں ہے۔‘‘
امریکی سامراجیوں اور انکے قریب ترین کاسہ لیسوں کے علاوہ یورپ سمیت دنیا بھر کی حکومتیں حسب روایت اِس قتل عام کی ’’مذمت‘‘ کر رہی ہیں۔ ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے ہیں۔ تاہم رجعتی بادشاہتوں سمیت زیادہ تر عرب حکومتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یوں ان عرب حکمرانوں کی جانب سے امریکی سامراج کی چاپلوسی اور اس کی پالتو صیہونی ریاست کی خاموش حمایت ایک بار پھر عیاں ہوئی ہے۔ درحقیقت ماضی کے برعکس آج ’’عرب اسرائیل تنازعے‘‘ کی لفاظی بھی دم توڑ چکی ہے۔ عرب حکومتیں اپنے عوام کی مخالفت کے باوجود پچھلے لمبے عرصے سے اسرائیل کا وجود تسلیم کر چکی ہیں اور پس پردہ یا کھلے عام صیہونی ریاست کیساتھ کئی طرح کے معاہدے اور تعلقات استوار کر چکی ہیں۔ اگرچہ ایران کیساتھ اسرائیل کی جنگ کا خطرہ بدستور موجود ہے تاہم اب کی بار قوی امکان ہے کہ ایسے کسی ٹکراؤ میں بہت سی عرب ریاستیں اسرائیل کیساتھ کھڑی ہوں گی۔
ماضی میں ’فلسطینی تنظیمِ آزادی‘ (PLO) کی چھتری تلے ’PFLP‘ اور ’DLFP ‘ جیسی بائیں بازو کی تنظیمیں اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں شام، عراق اور مصر میں قائم بائیں بازو کی حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں۔ لیکن 1980ء کی دہائی تک مسلح جدوجہد کی تحریک بڑی حد تک تھکاوٹ کا شکار ہو چکی تھی۔ جہاں اِس حکمت عملی کی اپنی حدود اور کمزوریاں تھیں وہاں سوویت یونین اور مشرقِ وسطیٰ میں بائیں بازو کی حکومتوں کے بحران اور ٹوٹ پھوٹ جیسے عوامل بھی کارفرما تھے۔ ان حالات میں یاسر عرفات کی قیادت میں ’پی ایل او‘ نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن مالی، سفارتی اور عسکری امداد سے مشرق وسطیٰ میں اپنی ’آؤٹ پوسٹ‘ کے طور پر اسرائیل کو قائم رکھنے والے سامراجیوں کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات فلسطینیوں کو بھلا کیسے آزادی دلا سکتے تھے۔ بہرحال ’پی ایل او‘کی قیادت نے مذاکرات میں بہت رعایات دیں اور اپنے حقیقی موقف سے بڑی حد تک پسپائی اختیار کی۔ یوں ’’تنازعے کے حل‘‘ کی کوششیں فلسطینی قیادت کو 1988ء میں غیر معمولی مصالحت کی طرف لے گئیں۔ ان معاہدوں کے تحت 1948ء کی جغرافیائی حدود میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا اور بدلے میں فلسطینیوں کی حقیقی سرزمین کے صرف ایک چوتھائی حصے پر فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دستاویزات پر دستخط ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں یاسر عرفات اور یتزاک رابن نے مشہور زمانہ مصافحہ کیا۔ لیکن امن قائم نہ ہو سکا کیونکہ اسرائیلی ریاست مسلسل ڈھٹائی اور ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور غیر قانونی اسرائیلی آباد کاری کا سلسلہ جاری رہا۔ اُلٹا اِس عمل نے فلسطینی علاقوں کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر کے فلسطینیوں کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا اور غزہ دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں تبدیل ہو گیا۔ نام نہاد ’دو ریاستی حل‘ کے تحت فلسطین کی آزادی کبھی ممکن تھی نہ ہو سکتی ہے۔
کسی امریکی صدر نے اسرائیل پر کبھی کوئی بامعنی دباؤ نہیں ڈالا ہے۔ اوباما انتظامیہ نے جاتے جاتے امن کے کچھ اشارے دئیے تھے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ تو صیہونی شدت پسندوں سے بھری ہوئی ہے اور اسرائیل کو خوب شہ دے رہی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل فوج کی موجودگی کے لئے لفظ ’قبضے‘ کا استعمال تک ترک کر دیا گیا ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد میں تیزی سے کمی لائی جا رہی ہے۔
’نکبہ‘ کی سات دہائیوں بعد اس کے متاثرین آج امن و انصاف سے کہیں زیادہ دور ہو چکے ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی ریاست کی قتل و غارت ہے تو دوسری طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کے عذاب ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آزادی کی امنگ اور بقا کی جبلت کسی بھی دیوہیکل فوج اور ریاست سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سال کا جبر بھی فلسطینیوں کے عزم کو توڑ نہیں پایا ہے۔الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بیس سالہ فلسطینی لڑکی نوران عباسی کا کہنا تھا، ’’آزادی کی جدوجہد کا آغاز آگاہی سے ہوتا ہے، ماضی کے تجربات، جیسے کہ انتفادہ کی دو تحریکوں اور 1936ء کی بغاوت سے سیکھنے سے ہوتا ہے ، تاریخ کو درست انداز سے پڑھنے سے ہوتا ہے، کسی متاثرہ فرد کے طور پر نہیں بلکہ فریڈم فائٹر کے طور پر… ایسے انصاف کے لئے فلسطینی جدوجہد جاری رہے گی جو تمام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی فلاح اور برابری کو مدِ نظر رکھے۔ دہائیوں پر مشتمل ’نکبہ‘ (بربادی) کے مستقل خاتمے تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ اسرائیلی قبضہ ہمیں تقسیم کرنے اور آزادی کی بجائے مطالبات کے لئے جدوجہد پر مجبور کرنے کے لئے سرگرم ہے… حل یہ ہے کہ مطالبات کی جدوجہد کو ایک طرف رکھ کے آزادی کی جدوجہد کی جائے۔‘‘
فلسطینیوں کی نئی نسل کے یہ جذبات ایک بلند تر سیاسی شعور کی عکاسی کرتے ہیں اور آگے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ ’اُمّہ‘ اور عرب ریاستوں کی حمایت ایک سراب ہی ثابت ہوئی ہے۔ مغربی ریاستوں اور ان کے اقوام متحدہ جیسے اداروں کا ہر معیار دوہرا اور منافقانہ ہے۔ مذاکرات، جنگیں اور مسلح جدوجہدیں بھی بالکل بے ثمر ثابت ہوئی ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی ’حکومتوں‘ کی اپنی مراعات اور ترجیحات ہیں۔ محکوم فلسطینی عوام کو خود ہی جدوجہد کرنا ہو گی۔ لیکن یہ جدوجہد تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ اور پوری دنیا کے محکوم اور محنت کش طبقات کیساتھ جوڑا جائے۔ یہی وہ طبقاتی جڑت اور یکجہتی ہے جس پر تکیہ کیا جا سکتا ہے اور جو اُن تمام تر مذہبی، قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو مٹا سکتی ہے جو حکمران طبقات کا سب سے بڑا اوزار ہیں۔ جابر اور استحصالی نظام سے آزادی حاصل کئے بغیر اس کی نمائندہ ریاستوں سے بھی نجات ممکن نہیں ہے۔