فلسطین: حلیف اور حریف کون؟

| تحریر: لال خان |

عجیب منطق ہے اس نظام زر کی ’رائے عامہ‘ اور ذرائع ابلاغ کے آقاؤں کی۔ کہیں ایک معمولی سا دھماکہ پوری دنیا کے میڈیا پرشہ سرخیاں بن کر ایک واویلا مچا دیتا ہے تو کہیں پوری کی پوری آبادیاں ریاستی وسامراجی جارحیتوں، دہشت گردیوں، معاشی قتل عام اور ذلت وبربادی کا شکار ہو کر بھی کارپوریٹ میڈیا پر سے بے معنی اور ’’ریٹنگ‘‘ سے محروم ہونے کے ناطے غائب کردی جاتی ہیں۔ جہاں دنیا بھر میں معاشی اور سماجی بحران نے عوام کے لیے روز مرہ کی زندگی اجیرن کررکھی ہے وہاں ریاستی وغیر ریاستی دہشت گردی کا دور دورہ ہے جس میں ان گنت معصوم انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں، محنت کش طبقات اس عفریت کے خوف سے نہ صرف ہر اساں ہیں بلکہ اس کی وحشت کے سامنے خود کو کمزور اور بے یارومددگار محسوس کررہے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے ایسی کیفیات میں اپنی منافع خوری کے لیے اقتصادی جارحیت نسبتاً آسان ہوجاتی ہے لیکن لمبے عرصے تک انہی مظالم کے خلاف مجتمع ہو نے والاغم وغصہ ایک وقت میں پھٹ کر اس نظام کے خلاف بغاوت بھی بن جاتا ہے۔
Palestine Latuff cartoonجہاں دنیا بھر میں اتنی تباہ کاریوں کا دور دورہ ہے وہاں فلسطینیوں کی حالتِ زار کو ئی بہتر نہیں ہوئی بلکہ بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا فلسطین کو فراموش کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ ریاستوں اور طاقتوں کی سفارتکاری اور سودے بازی میں شاید اس سلگتے ہوئے مسئلے کو فراموش کرنا ہی اس نظام کے پالیسی سازوں اور منصوبہ کاروں کا تقاضا ہے۔ کل جو مسئلہ فلسطین کے سب سے بڑے چیمپئن بنے ہوئے تھے آج اسرائیلی صہیونیت سے مصالحت کی پالیسی پر چل پڑے ہیں کیونکہ ان کے اپنے مفادات، جو دراصل مال و دولت سمیٹنے اور جبر کی طاقت کو پروان چڑھانے پر مبنی ہیں، کے سامنے مسئلہ فلسطین کا سفارتی یاا سلامی پراپیگنڈے کے اوزار کے طور پر استعمال فی الوقت اہمیت کھو چکا ہے۔ کرب میں مبتلا فلسطینی عوام جابر اور رجعتی اسرائیلی ریاست کے براہِ راست یا بالواسطہ مقبوضہ’’وطن‘‘ میں محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ اب اس استرداد پر مزید بیگانگی کے احساس سے دورچار ہورہے ہیں۔ ایک طرف غزہ کی پٹی میں بنیاد پرستوں کے داخلی اور اسرائیل کے خارجی ظلم وجبر کا شکار ہیں تو دوسری جانب مغربی کنارے پر سامراج کی کٹھ پتلی محمود عباس حاکمیت کی بے نیازی اور لاتعلقی سے مجروح ہورہے ہیں، اپنے آپ کو بے یارومدد گار محسوس کررہے ہیں۔ اس سے فلسطینی عوام میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے کہ ان کی نام نہاد حلیف عرب ریاستیں ان سے ایک بھیانک غداری کی مرتکب ہورہی ہیں۔
کچھ فلسطینی دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس تنازعے کے لیے پہلے کی پالیسی ( یعنی اسرائیلی ریاست مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہو کر واپس 67ء کی سرحدوں پر چلی جائے) سے منحرف ہورہی ہیں۔ پی ایل او کے ایک سینئر عہدیدار الیاس زناناری نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’اسرائیل عرب ریاستوں سے سیاسی تعلقات معمول کے مطابق بحال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن وہ یہ بحالی اسرائیل فلسطین تنازعے کو حل کیے بغیر ہی کرنا چاہتا ہے‘‘۔ یہ احساس کہ عرب ریاستیں اس بنیاد پر تعلقات بحال کرنے میں سرگرم ہیں فلسطینیوں میں غداری کے زخموں کا درد مزید اذیت ناک بنارہا ہے۔ عرب حکمران اور ریاستوں کے اعلیٰ اہل کار اب شام، عراق، یمن وغیرہ کے مسائل پر زیادہ دھیان دینے لگے ہیں اور اپنے اقتدار کو ان بحرانوں کے خلفشار سے بچانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مصر کے فوجی آمر عبدالفتح السیسی کی حکومت نے مصر اور غزہ کی سرحد بند کردی ہے۔ اس سے فلسطینیوں کی معاشی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ جلد ہی اسرائیل کا وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو مصر کا سرکاری دورہ کرنے والا ہے۔ نیتن یاہو نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عرب حکمران اب اسرائیلی ریاست کو اپنے حلیف کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔
اوباما کی صدارت میں امریکی سامراج نے اپنی موضوعی کمزوری کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ سے فرار کی جو پالیسی شروع کی ہے اس میں ایران سے ہونے والا جو ہری معاہدہ اسرائیلی اور عرب (بالخصوص خلیجی) حکمرانوں کے لیے سنگین تشویش کا باعث بنا ہے۔ عراق، شام اور یمن میں یہ طاقتیں ایران اور اسکی حمایت یافتہ قوتوں کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ اسرائیل کی سابقہ وزیر خارجہ زیپی لیونی نے اپنے بیان میں خلیجی ریاستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ’’ اس خطے کے بارے میں ہمارا نقطہ نظراور ادراک ایک جیسا ہوگیا ہے‘‘۔ یعنی خلیجی طاقتیں اور اسرائیل ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اسی طرح اردن اور ترکی کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں اور کچھ عرصے سے انکی فوجی حکمتِ عملی اور انٹیلی جینس بھی باہمی طور پر مرتب کی جارہی ہے۔ جنرل سیسی حکومت نے نہ صرف غزہ کا باڈر بند کیا ہے کہ بلکہ وہاں سے اسلحہ سمگلنگ کو روکنے کے بہانے عام ضروریات کی ترسیل کرنے والی سرنگوں میں بھی سیوریج کا پانی چھوڑ کر انکو بند کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب اس مصری آمریت نے اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ فلسطین کے ’’امن‘‘ کے لیے اپنا ایک ’پلا ن‘ شروع کیا ہے جس کو سعودی اور دوسرے عرب حکمرانوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس میں فلسطینیوں کے حقوق اس حد تک نظر انداز ہیں کہ ایک اسرائیلی سفارتکار بھی یہ کہہ اٹھا کہ’’ سنجیدہ مذاکرات کے اجرا کے امکانات مخدوش ہوگئے ہیں‘‘۔
Erdogan_waving_flag_of_Palestine_to_get_simpathy_of_his_voters_while_keep_Turkey's_ties_with_Israel_&_US27 جون کو روس اور اسرائیل کی طرف پالیسی میں طیب اردگان کے یو ٹرن کے بعد ترکی اور اسرائیلی وزرائے اعظم نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی ڈیل کا اعلان کیا ہے۔ اس ساری سفاتکاری سے بہت واضح ہوتا ہے کہ حکمران کہیں کے بھی ہوں، انکی پالیسیاں کشمیری، فلسطینی یا دوسری مظلوم قومیتوں اور عوام کے حق میں نہیں بلکہ اپنے مالی مفادات کے تحت استوار کی جاتی ہیں۔ فلسطینی اس صورتحال کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 78 فیصد فلسطینیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ فلسطین عرب حکمرانوں کا اب مسئلہ ہی نہیں رہا، 59 فیصد نے ان عرب حکمرانوں پر اسرائیل کے ساتھ الحاق کا الزام لگایا۔ عرب ممالک سے فلسطینیوں کو ملنے والی امداد میں بھی سخت کٹوتیاں کردی گئی ہیں اور مغربی ممالک نے بھی ان کی مالی مدد بند کرنی شروع کردی ہے۔ دوسری جانب سعودی درمیانے اور بالا دست طبقات کے صرف 18 فیصد افراد اب اسرائیل کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں!لیکن عرب محنت کشوں اور نوجوانوں میں اسرائیلی ظلم وبربریت کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ مصرمیں اس ممبرپارلیمنٹ کو جوتے مار ے گئے ہیں جو اسرائیلی سفیر سے ملاقات کے لیے گیا تھا۔
پچھلے سال ایک ڈیڑھ درجن اسرائیلی مارے گئے جبکہ 200 سے زائد فلسطینیوں کو اس صیہونی ریاست کے کارندوں نے قتل کیا۔ سامراج کا’دو ریاستی فارمولا‘ ناکام ہو کر کوڑے دان میں گر چکا ہے۔ سرمایہ داری کی سیاست، سفارت اور معیشت میں مسئلہ فلسطین کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔ آج سے 50 سال قبل جنگ سویز میں کامیابی کے پہلے عشرے کے موقع پر 27 جولائی 1966ء کو مصر کے صدر اور انقلابی رہنما جمال عبدالناصر نے ایک وسیع عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم عرب حکمرانوں پر فلسطین کی آزادی کے لیے قطعاً اعتماد اور اعتبار نہیں کرسکتے۔ پہلے سعودی عرب کو اپنی سرزمین سے برطانوی اور امریکی فوجی اڈوں کو ختم کرنا ہوگا۔ 1948ء میں جب ہم فلسطین کے لیے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے جدوجہد کررہے تھے تو عرب حکمرانوں نے غداری کی تھی۔ ہم اس المیے کو دہرانے نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پچھلے سال اعلان کیا تھا کہ آزادی فلسطین صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ آج بھی صورتحال ظاہری طور پر شاید کچھ بدل گئی ہو لیکن حکمرانوں کے بنیادی کردار اور افکار نہیں بدلے۔ سفارتکاری اور مسلح جنگ، دونوں فلسطین کو آزادی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔ جیسے صدر ناصر نے کہا تھا آج بھی فلسطین کی آزادی کے لیے طبقاتی بنیادوں پر انقلابی تحریک درکار ہے، جس کو جغرافیائی اور تاریخی حالات کے پیش نظر پورے خطے کے محنت کش عوام کوسامراجی اور مقامی حکمرانوں کے خلاف یکجا کرنا ہو گا۔ اس طبقاتی جنگ میں اسرائیلی محنت کشوں کی شراکت ہی اس صہیونی ریاست کو پاش پاش کر سکتی ہے جو پورے خطے میں عدم استحکام اور جبر و جارحیت کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں بھی عوام کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔

متعلقہ:

آزادی فلسطین کہاں کھو گئی؟