[تحریر: آدم پال]
اس روئے زمین نے اتنے غلیظ انسان شاید ہی دیکھے ہوں جو اس ملک کے حکمران ہیں۔ ہر روز محنت کشوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ زندگی تیزی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے جبکہ موت سستی۔ بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی خبریں تو سامنے آجاتی ہیں لیکن ہر روز بھوک، بیماری اور افلاس سے مرنے والے سینکڑوں افراد کی موت کبھی خبر نہیں بنتی۔ موجودہ معاشی سماجی بحران سے مرنے والوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور اس حکومت اور ریاست کے مختلف عہدوں پر فائز افراد گدھ بن چکے ہیں جو مردوں کا گوشت نوچتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ جریدے اکانومسٹ کے ہی ایک ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 2013ء میں پیدائش کے لیے غیر موزوں ترین پانچ ممالک میں شامل ہے۔ اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے جہاں مختلف شعبوں کی حالت زار کو مد نظر رکھا گیا ہے وہاں جرائم کی شرح اور خاندان کے افراد کے لیے صحت کی سہولت کو خصوصی طور پر مد نظر رکھا گیا ہے۔
پاکستانی سماج کا تانا بانا مسلسل بکھر رہا ہے اور ملکی معیشت مسلسل زوال پذیر ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو کر 13.814ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے باوجود کہ غیر ملکی تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم میں اضافہ ہوا ہے اور اکتوبر میں اس مد میں اضافے کے ساتھ1.365ارب ڈالر کی رقوم بھیجی گئیں۔ ایسی صورتحال میں زر مبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ معیشت کے لیے شدید خدشات کا پیش خیمہ ہے۔
اسی طرح مہنگائی میں جاری مسلسل اضافہ بدستور جاری ہے۔ 23 نومبرکو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں6.48 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دوران بنیادی ضرورت کی 15اشیا میں اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے بھی بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس میں پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ شامل ہے۔ سپریم کورٹ شوگر مافیا سے ہزیمت اٹھانے کے بعد اب سی این جی مافیا سے نبرد آزما ہے۔ پاکستان میں ریاستی اداروں کے بتدریج زوال کے باعث سرمایہ دار من مانی قیمتیں مسلط کرتے ہیں۔ ریاستی ادارے قوانین کو لاگو کرنے اور قیمتوں میں کمی کا واویلا صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ منہ مانگی رقم بطور رشوت حاصل کر سکیں۔
غربت اور بھوک کی وجہ یہ نہیں کہ اس ملک میں وسائل کی کمی ہے بلکہ اس ملک میں موجود ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ ان وسائل کو استعمال کرتے ہوئے یہاں کے عوام کو بہتر زندگی دے سکے۔ اس نظام سے صرف ایک چھوٹی سی اقلیت کاہی مفاد وابستہ ہے جو ان بیش قیمت وسائل کو لوٹ کراپنی تجوریاں بھر رہی ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والا بلوچستان میں ریکوڈیک کامعاملہ اس بات کا ثبوت ہے جہاں5.9 ارب ٹن سے زائدکے سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کیے گئے ہیں جن کی مالیت 60 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہاں سے سالانہ 2لاکھ ٹن تانبا اور ڈھائی لاکھ اونس سونا نکالا جا سکتا ہے۔
لیکن ان بیش قیمت ذخائر کے گرد بلوچستان میں اس ملک کی سب سے بدترین غربت اور بد حالی پائی جاتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ان قیمتی ذخائر کے لیے لوٹ مار جاری ہے جس میں چین کی کمپنی چینالکو، کینیڈین بیرک گولڈ اور دنیا کی معدنیات نکالنے والی سب سے بڑی کمپنی بی ایچ پی بلیٹن میں لڑائی جاری ہے۔ بی ایچ پی بلیٹن میں گولڈ مین ساچیز، بینک آف امریکا، سٹی بینک اور دوسرے اداروں کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ بلوچستان کی حکومت ہو یا وفاقی حکومت نہ تو ان کے پاس اتنی مالیاتی سکت ہے کہ وہ اس ذخیرے کو باہر نکالنے کے لیے سرمایہ کاری کر سکیں اور نہ ہی ان میں اتنی ریاستی قوت ہے کہ اتنی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ ریاست پہلے ہی بجلی پیدا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے گو کہ حکومتی اور ریاستی اہلکار اپنا مال بنا رہے ہیں۔ لیکن ملک کی آبادی اکثریت کو لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی قیمت میں اضافے کی مسلسل اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری اس جلتی پر تیل چھڑک رہی ہے۔
اسی طرح یہ کمپنیاں بھی مختلف ریاستی اداروں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہی ہیں جس سے پہلے سے جاری ریاستی اداروں کے تضادات مزید گہرے ہونے کا امکان ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آنے والی وکی لیکس میں واضح ہو گیا تھا کہ آسٹریلیا جیسا ملک اور اس کا وزیر اعظم بھی بی ایچ پی بلیٹن کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔ ایسے میں پاکستان کی کمزور ریاست کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں پہلے ہی ان کمپنیوں کی باہمی لڑائی میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور ایک دوسرے سے مسابقت اور منافعوں کی ہوس میں ان کمپنیوں کے لیے خونی ہتھکنڈے استعمال کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس کے علاوہ ان کمپنیوں پر الزامات بھی ہیں کہ سایانائیڈ اور آرسینک جیسے کیمیکل کے استعمال کی وجہ سے اس سرمایہ کاری سے پورے علاقے کی فضازہر آلودہو جاتی ہے۔ یہاں کام کرنے والے کان کنوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہوتی اور کسی قسم کے لیبر قوانین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ حال ہی میں جنوبی افریقہ میں پلاٹینم کی کان میں تنخواہوں میں اضافے کیلیے احتجاج کرنے پر مظاہرین پر گولی چلا دی گئی جس سے 30سے زائد محنت کش ہلاک ہوگئے۔ تجربات سے واضح ہے کہ جن علاقوں سے یہ کمپنیاں معدنی ذخائر نکالتی ہیں وہاں مزید بھوک، وحشت اور درندگی ہی پھیلاتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجے میں سماجی ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔
اس صورتحال میں موجودہ معاشی بحران سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی اور بحران مسلسل گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے نہ صرف مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ سماجی خلفشار بھی شدید ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے میں اگلے انتخابات سے پہلے بلند و بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کو دھوکا دینے کے لیے مختلف اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ گندم کی قیمتوں میں اضافے کو بھی ملک و قوم کے روشن مستقبل کی نوید بتلایا جا رہا ہے۔ ان گدھ نما حکومتی نمائندوں اور ریاستی اہلکاروں سے عوام کی بہتری کی توقع کرنا بیوقوفی نہیں جرم بن چکا ہے۔ گندم کی قیمتوں میں اس اضافے سے دیہاتی علاقوں کی بدترین غربت میں نہ تو کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی عام کسان کی حالت زار بدلے گی۔ گزشتہ سالوں میں پیداوار کے بڑھنے کے باوجود دیہاتی علاقے کے کسانوں میں خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے سے صرف آڑھتیوں اور جاگیرداروں کی دولت میں اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب عام صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ 2008ء کی نسبت یہ فصل 80 فیصد زیادہ مہنگی ہو گی جس کے باعث بہت بڑی تعداد میں لوگ مزید خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گے۔ اسی طرح معاشی بحران کی شکار حکومت کو خریداری کے لیے مزید رقم درکار ہو گی جس کا بوجھ پھر عام آدمی پر پڑے گا۔
عوام کا خون چوسنے والے ان حکمرانوں کے مظالم کو چھپانے کے لیے ویسے تو روایتی ذرائع ابلاغ بہت محنت کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی کوئی ایک خبر اس ملک میں جاری معاشی سماجی قتل عام کی بھنک دے ہی دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں کھانسی کا زہریلا شربت پینے سے لاہور میں16 افراد ہلاک ہو گئے۔ پنجاب کے عوام دشمن اور ظالم وزیر اعلیٰ نے بظاہر اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ بھی اس نوعیت کے پہلے واقعات کی طرح کچھ نہیں نکلے گا اور نہ ہی اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کے نام سامنے آئیں گے۔ اس سے پہلے بھی ایسے ہی اندوہناک واقعات ہو چکے ہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جعلی ادویات کے نتیجے میں مرنے والے سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ تو کیا کوئی تفتیشی رپورٹ بھی نہیں آسکی بلکہ ان قتل ہونے والے مریضوں کے سیمپل ہی چوری کروا دیئے گئے۔ اس ملک میں جہاں ہر سرمایہ دار اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کرتا ہے اور اشیا کے معیار کی بھی کوئی گارنٹی نہیں وہاں انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے والی دوا ساز کمپنیوں کو بھی کھلی چھوٹ ہے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد سری لنکا سمیت بہت سے ممالک نے پاکستانی ادویات پر پابندی لگا دی تھی لیکن اس ملک میں انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔
درحقیقت ادویات کی صنعت کا منشیات کی صنعت سے گہرا تعلق ہے۔ حالیہ ایفیڈرین کیس میں یہ تعلق مزید واضح ہوا ہے۔ در حقیقت صحت کا پورا نظام ہی کالے دھن اور بد ترین جرائم پر مبنی ہے۔ ادویات بنانے والی کمپنیوں سے لے کر میڈیکل سٹوروں تک اورسینئر ڈاکٹروں سے لے کر ہسپتالوں کے مالک سرمایہ داروں اور متعلقہ حکومتی اہلکاروں تک سب ان جرائم میں ملوث ہیں۔ حکومتوں میں موجود مختلف افراد بھی ادویات اور منشیات کی اس مشترکہ صنعت کی سرپرستی کرتے ہیں یا پھر اس صنعت سے وابستہ لوگ حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں ادویات بنانے والی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر لائسنس جاری کیے گئے ہیں جبکہ ان میں سے بہت کم ایسی ہیں جو فیکٹری لگاتی اورپیداوار کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان تمام کے منافعے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں اس صنعت کی شرح نمو دس فیصد سے زیادہ رہی جبکہ حالیہ عرصے میں ہی اس صنعت نے 28 فیصد کی شرح نمو کو بھی چھوا ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں اس صنعت کی منشیات کی صنعت سے وابستگی ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً تمام منشیات کو قابل استعمال بنانے کے لیے ایک خاص عمل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں مخصوص کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن مختلف منشیات کی ایک مخصوص مقدار ادویات بنانے کے لیے بھی درکار ہوتی ہے۔ اس طرح دواساز کمپنی کا لائسنس منشیات درآمد کرنے کے لیے بھی کار آمد ہے۔ جس طرح ایفیڈرین کیس میں نظر آیا کہ دوا سازی کی بجائے ایسا کیمیکل براہ راست منشیات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
پوست کو ہیروئین اور دیگر قابل استعمال حالتوں میں بدلنے کے لیے جو کیمیکل چاہییں وہ کہاں سے آتے ہیں اس پر کوئی خاص روشنی نہیں ڈالی جاتی۔ اس کی ایک وجہ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے لمبے ہاتھ ہیں جن کے سامنے ریاستی ادارے بونے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ 68 ارب ڈالر کی منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔ افغانستان سے ہر سال 30 ارب ڈالر سے زائد رقم کی منشیات پاکستان کے ذریعے بیرونی ممالک میں بھیجی جاتی ہے جس میں سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی منشیات ملک میں ہی استعمال ہوتی ہیں۔ یہ رقم پھر دہشت گردی، اسلحہ کی خریداری اور دیگر عوام دشمن کاروائیوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 81 لاکھ سے زیادہ افراد مختلف اقسام کا نشہ کرتے ہیں۔
اسی طرح ادویات کی صنعت کے بڑے منافعوں کی ایک وجہ کسی بھی قسم کی روک ٹوک کا نہ ہونااور مرضی کی قیمتیں وصول کرنا ہے اور ضروری ادویات خاص کر جان بچانے والی ادویات کی ذخیرہ اندوزی ہے جس سے ہر روز بڑے پیمانے پر قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوا ساز فیکٹریوں میں محنت کشوں کا بد ترین استحصال بھی ان منافعوں کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ ان فیکٹریوں میں خواتین کو ترجیحاً ملازمت پر رکھا جاتا ہے تا کہ ان کا شدید استحصال آسانی سے کیا جا سکے۔ انتہائی کم اجرت، روزگار کی ضمانت کی عدم موجودگی اور ٹریڈ یونین سمیت دیگر بنیادی حقوق کی غیر موجودگی کے باعث اس صنعت سے وابستہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں اس وقت چالیس لاکھ افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے لیکن منظم نہ ہونے کے باعث ان کا استحصال شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی جانوں کی قیمت پر لوٹ مار کی اسی کھلی چھوٹ مار کے باعث ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی پاکستان کی منڈی سے منافع حاصل کر رہی ہیں۔ پاکستان سے اس وقت 60 سے زائد ممالک میں ادویات برآمد کی جا رہی ہیں۔
اسی طرح اپنی ادویات کی فروخت میں اضافے کے لیے دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو مختلف پر کشش پیکج بھی پیش کرتی ہیں تا کہ ڈاکٹر غیر ضروری طور پر یہ ادویات مریضوں کے جسموں میں ٹھونستے جائیں اور ان کمپنیوں کے منافع بڑھاتے جائیں۔ ڈاکٹروں کو مختلف سہولیات کی پیشکش کی جاتی ہے جن میں فیملی کے لیے غیر ملکی دورے، گاڑی، مہنگی گھڑیاں، ائیر کنڈیشنر، لیپ ٹاپ یا پھر شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر مالی امداد شامل ہے۔
ادویات کی صنعت میں ایک اہم مرحلہ میڈیکل سٹور سے دوا مریضوں تک پہنچانے کا ہے۔ اس میں بھی کوئی پوچھ گچھ اور روک ٹوک نہیں۔ ایک سروے کے مطابق صرف 19.3 فیصد میڈیکل سٹورلائسنس یافتہ ہیں جبکہ دیگر بغیر کسی سرکاری اجازت نامے کے کاروبار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیکل سٹور پر کام کرنے والے افراد کے پاس ادویات بیچنے اور انہیں محفوظ کرنے کا علم انتہائی محدود ہے۔ جس میں ادویات کے استعمال اور مختلف ویکسین کو کس درجہ حرارت پر رکھنا ہے جیسا ضروری بنیادی علم بہت کم ہے۔ اسی طرح بہت کم ایسے میڈیکل سٹور ہیں جہاں ریفریجریٹر کے لیے بجلی کی متبادل سہولت موجود ہے۔ کئی جگہوں پر تو ادویات کے لیے مناسب درجہ حرارت رکھنے کا انتظام تک موجود نہیں۔
اس طرح کے دیگر بہت سے ایسے سنگین جرائم یہاں ہر روز ہوتے ہیں لیکن اس ریاست اور اس کی بنیاد میں موجود سرمایہ دارانہ نظام میں اتنی اہلیت نہیں کہ ان جرائم کی نشاندہی ہی کر سکے۔ نومبر میں لاگو کیے جانے والے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل سے بھی بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ جس طرح پارلیمنٹ نے تعلیم کو تمام بچوں کے لیے لازمی قرار دے کر اپنا ہی مذاق خود بنوایا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں پہلے ہی ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں اور موجودہ دور حکومت میں 12ہزار سے زائد پرائمری سکول بند کیے جا چکے ہیں وہاں اس بل کو پاس کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے غریب شہریوں کو مجرم قرار دینا ہے۔ اب جو لوگ اپنی زندگی کی سانس کو قائم رکھنے کے لیے اپنے بچوں کو محنت اور مشقت کرانے پر مجبور ہیں انہیں مجرم قرار دے کر کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکے گا۔ لیکن اس ملک میں وہ لوگ کبھی مجرم نہیں بنیں گے جو لوگوں کو علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ جو ان عوام کی خون پسینے سے کمائی دولت لوٹ کر ان پر حکمرانی کر رہے ہیں اور انہیں مسلسل موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔
حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں نے اس ملک کو محنت کش عوام کے لیے دہکتی ہوئی جہنم بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین سال میں ایک کروڑ 70 لاکھ پاکستانی غیر قانونی طور پر ملک سے باہر گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں روزگار کی تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن عالمی معاشی بحران کے باعث یورپ، امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی روزگار کے مواقع تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ یونان میں پاکستانی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں دس لاکھ کے قریب پاکستانی ہیں۔ لیکن یونان دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے اور آنے والے نئے سال میں اس کے لیے یورپی یونین سے قطع تعلق کا فیصلہ متوقع ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک سے فرار بھی اس جہنم سے جان چھڑانے کا رستہ فراہم نہیں کرتا۔
ایسے میں خوشحالی اور بہتر زندگی کا صرف ایک رستہ ہے اور وہ اس فرسودہ طبقاتی سماج کو اکھاڑ کر، حکمران طبقے کی دولت اور جاگیریں چھین کر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدوروں کی حکومت بنانے کا رستہ ہے۔ گو کہ اس وقت یہ رستہ کٹھن دکھائی دیتا ہے لیکن زندگی کے مصائب اور الم جس تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں اس میں یہی کٹھن رستہ ہی آنے والے عرصے میں ایک بہت بڑی اکثریت کے لیے آگے بڑھنے کاواحد رستہ ہو گا۔ موجو دہ سماج آبادی کی اکثریت کو موت کی جانب دھکیل رہا ہے لیکن یہ سفر یکطرفہ طور پر مسلسل جاری نہیں رہ سکتا۔ آنے والے عرصے میں موت کی جانب سرکنے والی آبادی اس سماج کو بغاوت کی جانب دھکیلے گی۔ زندہ طاقتوں کی اس کشمکش میں اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوئی تومحنت کش طبقے کو فتحیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس انقلاب کے بعد یقیناًایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جہاں ظلم، بھوک اور لا علاجی قصہ پارینہ بن جائیں گے اور ہر طرف امن و خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔