پاکستان: بیمار نظام، برباد سماج

| تحریر: ظفراللہ |

تیسری دنیا کے سابقہ نو آبادیاتی ممالک کا المیہ یہ ہے کہ سر مایہ داری کے سا مراجیت کی شکل اختیار کر جانے کی وجہ سے مقامی سرمایہ دار طبقہ اتنا سرمایہ پیدا ہی نہیں کر سکتاکہ وہ اضافی دولت سماجی اور صنعتی ڈھانچہ استوار کرنے پر خرچ کر سکے۔ ان کے مقدر میں ہی سامراجی اجارہ داریوں کی گماشتگی لکھی جا چکی ہے۔ مقامی سرمایہ دار طبقے کو سامراجی اجارہ داریوں کی جدید پیداواری تیکنیک، ہو شربا سرمایہ اور سیاسی برتری کا سامنا ہے جس سے ٹکرائے بغیر وہ آزادانہ اپنی سیاسی اور معاشی ترجیحات کاتعین نہیں کر سکتا۔ نتیجتاً یہ سامراجیوں کا کاسہ لیس ہونے پر مجبور ہے۔ اور اب انتہا یہ ہے کہ وہ اس پر فخر محسوس کرتا ہے۔
تاریخ کا اپنا ایک ارتقائی عمل ہے۔ لیکن اس ارتقائی عمل کے دوران ایسے لمحات آتے ہیں جب یہ عمل سست رو ہوجاتا ہے۔ اور بعض اوقات یہ عمل اتنا سست ہو جاتا ہے کہ رک جانے کا گمان ہو تاہے۔ پھر انقلابات کا آغاز ہوتا ہے جس سے یہ رکے ہوئے معاشرے چھلانگ کے ذریعے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ باقی ماندہ معاشروں کے لیے ایک مثال اور مشعل راہ بن جاتے ہیں، لیون ٹراٹسکی نے 1905ء میں اس نظریے کو پروان چڑھا کر پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے تناظر کو ٹھوس انداز میں پیش کیا تھا۔ جس کو 1917ء کے اکتوبر انقلاب نے تاریخ کی کسوٹی پر ثابت کیا۔
پاکستان کا معاشرہ بھی تقریباََ ویسی کیفیت میں ہے جیسا 1917ء سے پہلے کا روس تھا۔ بین الاقوامیت کے اس عہد میں تقسیمِ ہند کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا تھا جب عملاً قومی ریاستوں کی آزادانہ حیثیت ختم ہوگئی تھی۔ سامراجی اجارہ داریاں مختلف ممالک کو اپنے مفادات اور منڈیوں پر قبضے کے لیے توڑ اورجوڑ رہی تھیں۔ شرح منافع میں بڑھوتری کے لیے بر صغیر کی تقسیم ناگزیر ہوگئی تھی۔ براہ راست قبضے کی بجائے بالواسطہ قبضہ زیادہ سود مند ہوگیا تھا۔ نام نہاد آزادی کے 67 سال بعد آج ہم دیکھیں اور ماضی پر نظر دوڑائیں یا کہانیاں سنیں تو 1947ء سے پہلے کی حالت قابلِ رشک محسوس ہوتی ہے۔ بوڑھے اب گورے سرکار کے دور کو جب یاد کرتے ہیں تو آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔ آج کیفیت یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کی تکمیل کی خواہش ایسے ہے جیسے کوئی جنت کا خواب۔ غذائی قلت کی وجہ سے 44 فیصد بچوں کی مکمل افزائش نہیں ہورہی۔ صرف 3فیصد بچوں کو بنیادی غذائی ضروریات کے مطابق خوراک میسر ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں معمولی اضافہ لاکھوں لوگوں کو خطِ غربت کے نیچے دھکیل دیتا ہے۔ 12 کروڑ سے زائد لوگ غربت کا شکار ہیں یعنی ان کو دو وقت کا کھانا بھی مکمل غذائی ضروریات کے بغیر مشکل سے دستیاب ہے۔ صرف 16 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ جبکہ 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی پینے سے ہوتی ہیں نتیجتاً 40 فیصداموات گندہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
اس ساری کیفیت میں یہاں کا حکمران طبقہ اگر چاہے بھی تو کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر نہیں بنا سکتا۔ بہر حال اس کی وجہ دیانتدار اور مخلص قیادت کی کمی نہیں بلکہ جس نظامِ معیشت پہ بیٹھ کر وہ حکمرانی کر رہے ہیں اس میں بہتری کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ سرمایہ داری تاریخی طور پر اپنا ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے سے کئی دہائیوں سے قاصر ہو چکی ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ کا ارتقا مذہب، آرٹ، ثقافت، سماجی کیفیت اور ان سب سے بڑھ کر اس وقت کے معاشی نظام کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جب تلک کوئی معاشی نظام سماجی ترقی کو بڑھاوا دے رہا ہوتا ہے اُس وقت تک اس کے وجود کا جواز موجود رہتا ہے لیکن جب وہی نظام ترقی دینے کی بجائے سماج کو ماضی کی طرف لے جانے اور کروڑوں لوگوں کو بھوک اور افلاس کا شکار کرنے کا موجب بن رہا ہو تو انقلابات ناگزیر ہوجاتے ہیں جو سماج کو آگے لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے ا نقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس سے آج کا عالمی سماج گزر رہا ہے۔ کل تک زمین پر جنت سمجھے جانے والے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی تاریخ کا پہیہ الٹاگھوم رہاہے۔ کونسا ایسا ملک یا خطہ ہے جو کسی نہ کسی شکل میں عدم استحکام اور انتشار کا شکار نہیں۔ یہ سرمایہ داری کی متروکیت کی علامت ہے۔ ہم ایک غیر معمولی عہدمیں رہے ہیں۔ پاکستان کی 300 ارب ڈالر کی معیشت ہے اور گزشتہ 67 سالوں کی اوسط شرح ترقی 4 فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ درمیان میں کچھ مختصر ادوار ایسے آئے ہیں جو بلند شرح نمو کے حامل تھے۔ باقی ماندہ ادوار کی شرح ترقی ایسی قابلِ ذکر نہیں رہی جس کے ذریعے پاکستان کے سماج میں رہنے والوں کی زندگی سہل ہو سکتی۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بلند شرح نمو کا حصول بھی غربت میں خاتمے کی بجائے امارت اور غربت کی خلیج میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ چین اور ہندوستان کی معیشتیں اس کا واضح ثبوت ہیں کہ بلند شرح نمو کے باوجود بھی غربت، محرومی اور بیماری میں اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک اقلیت کی زندگیاں سہل ہوئی ہیں۔ پاکستان کا درمیانہ طبقہ بھی اپنی آبادی کے تناسب سے بڑھوتری حاصل نہیں کر سکا جو کہ سرمایہ دارانہ اصولوں کے مطابق معیشت اور معاشی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہو تاہے۔ اس نااہلی کی وجہ بنیادی طور پر یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی اپنے فطری تقاضوں کے مطابق پروان چڑھ سکنے کی تاریخی اہلیت سے محرومی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں سرمایہ داری کے مختلف طریقوں کے ذریعے ترقی کی ہر کوشش ان سماجوں کو بد نما، بے ہنگم اور مکروہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ٹاٹ پر کمخواب کے پیوند اور پسماندگی کے سمندر میں ترقی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ان سماجوں کا حلیہ مزید بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس عہد میں یکساں ترقی کے لیے سماج اور نظام کی ا ز سر نو ترتیب اور تر کیب کی تاریخی ضرورت چیخ چیخ کر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ جس کا فریضہ محنت کش طبقے کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ بحران زدہ نظام اور سامراج میں دولت میں اضافے کا طریقہ بدعنوانی اور چور بازاری کے علاوہ ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کل قومی پیداوار (دولت) کے دو تہائی حصے کے برابر کالے دھن کی معیشت ہے۔ موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے مئی 2014ء میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں جن کو واپس لانے کے لیے ہم سوئٹزر لینڈ کی حکومت سے رابطہ کر رہے ہیں۔ عین اس کے تین ماہ بعد اُسی وزیرِ خزانہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ہم اس پیسے کو واپس لانے سے قاصر ہیں حقیقت یہ ہے کہ لوٹ مار سے کمائی گئی یہ دولت صرف سوئس بینکوں میں نہیں بلکہ سابقہ گور نر سٹیٹ بینک شاہد کاردار کے مطابق کیمن آئی لینڈ، آئل آف مین، ورجن آئی لینڈ، لگسمبرگ، موریشئس، سنگاپور اور بالخصوص دبئی میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں پاکستان کے ارب پتیوں نے 430 ارب روپے کی دبئی میں پراپرٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ہے جو کہ کالے دھن پر مشتمل ہے جو دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں 8 فیصد بنتی ہے۔ کالے دھن کے لیے دبئی اس لیے موزوں ہے کہ وہاں سے پاکستان اور پھر پاکستان سے دبئی کالے دھن کی منتقلی آسان اور کم خرچ ہے۔ صرف 2فیصد کے حساب سے خرچ کرکے کسی بھی ذریعے سے کمائی گئی دولت کو قانونی طور پر باہرمنتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ موجودہ نظام اور پاکستان کے آئین کے اندر ایسی آسائش موجود ہے جس سے سرمایہ باہر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہی کالا دھن پھر دوبارہ پاکستان میں لا کر مختلف شعبوں بالخصوص رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرکے سفید دھن میں تبدیل کیا جا تا ہے۔ اس کالے دھن کی شرح نمو 9 فیصد تک ہے۔ جو بڑی حد تک روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں وہ اسی کالی دولت کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہیں لہٰذا کرپشن، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، رشوت، ذخیرہ اندوزی، منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ سے جمع کیے گئے کالے دھن پر قابو پانے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ اس ملک کی معیشت کی بنیادوں کوہلا دے گی۔ جس پر یہ بالائی ڈھانچہ استوار ہے۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد اگر یورپ اور امریکہ میں2000 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ بینکوں میں بے کار پڑا ہوا ہے تو وہاں 32 ہزار ارب ڈالر کا عالمی کالا دھن مختلف بینکوں میں خفیہ بھی پڑا ہے جس میں سے صرف 7 ہزار ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے 11 بینکوں میں موجود ہے۔ یہ عالمی سرمایہ داری کی کیفیت ہے جہاں دوسری طرف 3 ارب سے زائد انسان غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 10 ارب سے زائد لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انسانی تاریخ میں کبھی نہ دیکھی گئی امارت اور غربت کے درمیان خلیج موجود ہے جہاں ریاستیں دیوالیہ ہو رہی ہیں اور چند افراد کے قبضے میں بے انتہا دولت ہے۔ پاکستان کی موجودہ دائیں بازو کی حکومت بھی کچے دھاگے سے لٹکی ہوئی ہے جہاں اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کی بدولت تھوڑا بہت ریلیف ملتا ہے توکوئی ایک معمولی واقعہ اس ریلیف کو لپیٹنے کا باعث بن جاتا ہے۔ ٹھوس بنیادوں پر معاشی ترقی کی عدم موجودگی نے حکمرانوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ موڈیز اور آئی ایم ایف کی طرف سے تعریف و توصیفات کا کھو کھلا پن حکمرانوں کو عوام میں پراپیگنڈا کرنے کا موقع تو فراہم کرتا ہے لیکن ان کو وہ اعتماد فراہم نہیں کرتا جس کے بل بوتے پر یہ حکمرانی کے طویل عرصے کا خواب دیکھ سکیں۔ انہیں پتہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے بغیر یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ ان سامراجی اداروں کے نزدیک معیشت میں بہتری کا مطلب میکرو اکنامک اعشاریوں میں نسبتاً بہتری ہوتا ہے۔ جس کا عوام کی زندگیوں میں خوشحالی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا بیشتر حصہ بیرون ملک شہریوں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم پر مشتمل ہے۔ بجٹ خسارے میں معمولی سی عارضی کمی ہوئی ہے جو کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی ہوئی ہے کیونکہ درآمدی بل کم ہو اہے اور سب سے بڑھ کر معاشی اصلا حات جو در حقیقت رد اصلاحات ہیں، پر عملدرآمد ہوا ہے۔ یہ معاشی اصلاحات دراصل IMF کی طرف سے مختلف مد میں سبسڈیز کا خاتمے کے احکامات پر بلا چوں چراں عملدرآمد ہے۔ جس کے نتیجے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ کیا گیاہے۔ عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے عوام کو معاشی طور پر برباد کرنا ضروری ہے، یہی سرمایہ دارانہ اصلاحات کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ جیسے ویت نام کی جنگ کے دوران ایک شہر کو بمباری سے تباہ کرنے کے بعد امریکی جنرل نے کہا کہ’’ اسے بچانے کے لیے اسے تباہ کرنا ضروری تھا‘‘۔
حکومت کو تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل پر GST کے 10ٰٰٖٖ فیصداضافہ (17 فیصد سے 27 فیصد) سے جنوری میں 12 ارب اور فروری میں16 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوئی ہے۔ ( یہ اور بات ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں 60 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ نواز حکومت نے صرف 25 فیصد کمی کی ہے) لیکن دوسری جانب آپریشن ضربِ عضب، ریپڈ ایکشن فورس اور IDPs پر 110 روپے اضافی (جو بجٹ میں شامل نہیں تھے) خرچ کرنے پڑے اور ڈار نے کہا کہ قوم کو یہ اخراجات ’’ وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں برداشت کرنے پڑیں گے۔ یہ اخراجات PSDP کے 530 ارب روپے میں سے 200 ارب روپے کم کرکے پورے کیے گئے۔ PSDP ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے والی رقم ہوتی ہے جو کہ اکثر بغیر خرچ ہوئے اگلے بجٹ کا حصہ بن جاتی ہے۔ مارچ 2015ء تک PSDP کی مد میں صرف 250 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں اور باقی بڑا حصہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ کوئی دیوانہ ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس طرح کے بجٹوں کے ذریعے اس ملک کے بد قسمت لوگوں کی زندگیوں میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ 4000 ارب روپے کے اخراجات میں سے 2000 ارب روپے صرف دفاعی اخراجات اور قرضوں کے سود کی مد میں خرچ ہوتے ہیں۔ سامراجی قرضوں کی ضبطگی اور دفاعی اخراجات کو بھاری پیمانے پر کم کیے بغیر ایک انقلابی حکومت بھی لوگوں کی زندگیوں کو سہل نہیں کر سکتی، سرمایہ دارانہ حکومت تو دور کی بات ہے۔ کالے دھن کی ریاستی اداروں میں سرائیت سے ریاست کا کردار مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی تاریخی نا اہلی اور سرمایہ داری کی متروکیت کی بدولت صرف بد عنوانی اور چور بازاری کے ذریعے ہی اپنی دولت میں اضافہ کر سکتا ہے کوئی اور طریقہ سرمایہ داری کے اندر ممکن ہی نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے وجود کی بنیاد ہی کا لی دولت ہے جس پر قبضے کی لڑائی نے ریاست کے مختلف دھڑوں کو بر سر پیکار رکھا ہوا ہے۔ اور اس سماج میں عام لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ دانشوروں کے نزدیک کالے دھن کے اس نا سور کے خاتمے کے سارے طریقے رائج نظام کی حدود کے اندر رہ کر کنٹرول کرنے کے ہیں۔ ان کے نزدیک ریاست کو لوٹ مار اور غیر قانونی طریقے سے کما کر باہر بھیجی گئی دولت کو واپس لانے پر توانائی صرف کرنے کی بجائے، اس کے ماخذ اور منبع کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کالا دھن کرپشن، منشیات کی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، اغوا برائے تاوان، اوور انوائسنگ (زیادہ اخراجات ظاہر کرنا) ٹھیکوں کے کمیشن پر مشتمل ہے۔ جس میں ریاستی ادارے براہِ راست ملوث ہیں اور جس کالے کاروبار میں ریاستی ادارے براہِ راست ملوث ہوں وہ بھلا کیسے اس کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی سر پرستی کے بغیر یہ کالا دھن پنپ ہی نہیں سکتا۔
پھر اس ملک میں کروڑوں پر مشتمل محنت کش طبقہ ہے جس کا کوئی پر سانِ حال نہیں۔ ریاست کی تمام ذمہ داریوں سے ستبرداری کے بعدہر کوئی خود سے اپنی زندگی جئے جا رہا ہے۔ کھربوں روپے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس ادا کر کے بھی کسی قسم کی ریاستی سر پرستی سے محروم ہیں۔ علاج اپنے پیسوں سے کروانا ہے، بچوں کو تعلیم نہیں دلو ا سکتے، نکاسی کا کوئی نظام نہیں۔ کچھ مزدوری کرکے کما لیا تو روٹی کھا لی، نہیں تو بھوکے سونا ہے، بے گھری ہے، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، پولیس اور عدالتیں سرمائے کی لونڈی ہیں۔ بجلی اتنی مہنگی ہے کہ لو ڈشیڈنگ جہاں عذاب ہے، وہاں رحمت بھی ہے۔ جس مہینے لو ڈ شیڈنگ نہ ہو اس مہینے کے بل کی قسطیں کرانی پڑتی ہیں۔ کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کی شکل میں اتنی بڑی افرادی قوت کی بیکاری خود اس نظام کے منہ پرطمانچہ ہے۔ مارکس کے بقول یہ نظام اپنے غلاموں کو غلامی کی حالت میں رکھنے سے بھی قاصر ہے۔ اور پھر محنت کش طبقے کی روایتی پارٹیوں اورمزدور تنظیموں کی دہائیوں سے غداری ہے۔ جو مسیحا تھے وہ جلاد بن گئے ہیں۔ یہ طے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام مزدور طبقے کی اصلاح پسندقیادتوں کی حمایت کے بغیر ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ ان قیادتوں کی طبقے کے ساتھ مجرمانہ غداری ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقہ زندگی کی اذیتوں میں مبتلا ہے۔ وہ قیادت کی تلاش میں سر گرداں ہے۔ سامنے موجود ساری قیادتوں سے یا تو نالاں ہے، یا پھر اس کی بات کرنے والا کوئی نہیں۔ بظاہر سماج میں سکوت ہے لیکن اس کے اندر کئی دہائیوں سے تضادات پل رہے ہیں جیسے زمین کے اندر لاوا اُبل رہا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ محنت کش طبقہ ابھی متحرک نہیں اور سیاست سے بیزا ر اور لا تعلق ہے۔ وہ متحرک ہوبھی کیوں؟ اتنی غداریوں کے بعد طبقے کی بے رخی بے سبب نہیں۔ طبقہ اتنی آسانی سے کسی نام نہاد اور مکار اصلاح پسند کی نعرے بازی میں آنے والا بھی نہیں۔ دھرنوں کی بیکار سیاست سے اس کا اپنے آپ کو دور رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ محنت کش درست طور پر اس میں شریک نہیں ہوئے اور اس سے فریب سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ مارکسی قوتوں کے پھیلاؤ میں بھی جہاں موضوعی مسائل ہیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ محنت کش طبقے کا ہر رحجان پر عدم اعتمادہے۔ اسے اپنے آپ کو باربار محنت کش طبقے کے امتحانات کے عمل سے گزار کر طبقے کا اعتماد جیتنا پڑے گا۔ زیادہ جرأت اور قربانی کے ذریعے محنت کش طبقے کی نمائندہ قوت کا افق پر بہت معمولی اور عاجزانہ اظہار طبقے اور قیادت کے ملاپ کا آغاز بنے گا۔ قیادت کا اعتماد محنت کش طبقے کو زمانہ بدلنے کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ صدیوں کی غلامی کا طوق اتارا جا سکتا ہے۔ نسل انسان کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تا ریخ کا نیا آغاز ہو سکتا ہے۔