[رپورٹ: ظفر اقبال]
نوپ CBA کے گراس روٹس پر الیکشن میں ملک بھر سے 305 کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ 25 ہزار NOPE کے ممبرز نے جوش و خروش سے ووٹ ڈال کر ثابت کر دیا کہNOPE ایک طاقت ور تنظیم ہے۔ 8 ستمبر 2013ء کو پشاور GPO میں کونسلرز نے مرکزی باڈی کے انتخاب میں بھرپور شرکت کی۔ NOPE کی قیادت کی محنت کشوں کو متحد کرنے کی پالیسی نے دھڑے بندی کو ختم کر دیا اور بلا مقابلہ NOPE کی مرکزی باڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1987ء کے بعد NOPE کے پہلی دفعہ جمہوری، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہوئے جس میں حاجی رضا اور ظفر اقبال گروپ نے کامیابی حاصل کی۔
لاہور GPO میں جیت کی خوشی میں پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے جنرل سیکرٹری جناب ظفر اقبال نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں پوسٹل منسٹر نے محکمہ ڈاک میں لوٹ مار کا بازار گرم کئے رکھا۔ اپنی ذاتی خواہشوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اورمحکمہ ڈاک سے بوگس بل کے ذریعے اربوں روپے ہضم کیے مگر افسوس کی بات ہے کے ان وزراء کا احتساب نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے حالیہ بیوروکریسی اور پنجتن رضوی ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ نے بھی ایک ہندوستانی کمپنی کے سوفٹ ویئر کے نام پر 4 کروڑ سے زائد کی ادائیگی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ نواز شریف کی حکومت بیوروکریسی کو لگام دینے میں ناکام ہو چکی ہے اور ایک سازش ہے کہ محکمہ ڈاک جیسے عوامی ادارے کو خسارے میں لا کر اپنے من پسند لوگوں کو اونے پونے داموں فروخت کر دیا جائے۔ ہم حکومت کو NOPE کے پلیٹ فارم سے یہ باور کرواتے ہیں کہ محکمہ ڈاک کی بیوروکریسی کا سٹرکچر کم کیا جائے، لاتعداد21 گریڈ کے ڈپٹی DG کی افسرشاہی ختم کی جائے۔ 21 گریڈ کےPMG ختم کیے جائیں۔ بے شمار ریجن بنا کر ہر مختلف ڈپٹی PMG بنا کر اور APMG کے سیٹس کو بڑھا کر جواز پیدا کیا گیا ہے کہ بیوروکریسی کے سٹرکچر میں اضافہ کیا جائے۔ لاتعداد فارغ افسر اپنی سیٹس پر براجمان ہو کر A/C اور گاڑیوں کا فضول استعمال کرتے ہیں۔ جمعہ کے روز اپنے دفتر سے گھر کی طرف بائی ائیر جاکر کسی دفتر میں سرکاری دورہ ڈال دیتے ہیں اور تین دن اپنے گھر میں گزارنے کے بعد پھر اپنے ہوم سٹی میں سرکاری دورہ ڈال کر 4 دن کا TA/DA وصول کرتے ہیں۔ ہر ہفتے ایسی ہی کاروائی کے ذریعے تمام افسر تنخواہ سے زیادہ TA/DA وصول کرتے ہیں۔ پاکستان پوسٹ آفس کی ڈاک کی ترسیل 20 سال قبل ریلوے میل سروس کے ذریعے ہوتی تھی جس سے ریلوے کو ایک اچھی خاصی رقم ہر ماہ محکمہ ڈاک سے مل جاتی تھی۔ سرکار کا پیسہ سرکار کے گھر میں ہی رہتا تھا۔ مگر پوسٹل بیوروکریسی نے ریلوے سے معاہدہ ختم کیااور ڈاک کی ترسیل کے نظام کو پرائیویٹ کارز، ٹرک اور بسوں کے ذریعے لا کر کمیشن مافیہ کا حصہ بن گئے اور ڈاک کو غیر محفوظ کیا۔ اسی طرح اور بہت سی پالیسیاں بنائی جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک منافع کی بجائے خسارے میں گیا۔ کھربوں کی پراپرٹی حکومت پاکستان کا ایک اثاثہ ہے جس کو تھوڑی سے محنت کر کے منافع بخش ادار ہ بنایا جا سکتا ہے۔ NOPE کی سابقہ قیادت اور محکمہ ڈاک کے افسر مل کر پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ NOPE تنظیم اگلے ماہ سے یونٹ باڈی کا ووٹ کے ذریعے الیکشن کروا کر گراس روٹ پرمنتخب نمائندوں کو متحرک کرے گی اور اینٹی پرائیویٹائزیشن پوسٹل ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کے پانچوں CBUs سے مل کر حکومت کی نجکاری کی پالیسیوں کے سامنے دیوار کھڑی کرے گی۔ پوسٹل ملازمین کے خاندان اور بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک بہت بڑی تحریک شروع کرے گی۔ حکومت وقت پوسٹ آفس کو فروخت کرنے کی بجائے اسے خسارے سے نکالنے کے لیے ایماندار PG مقرر کرے اور افسروں کے حجم کو کم کر کے 1990ء کی سطح پر لے آئے۔
8 ستمبر کو ہونے والے نوپ کے انتخابات میں حاجی رضا خان مرکزی سیکرٹری جنرل، مرکزی ظفر اقبال سینئر جوائنٹ سیکرٹری جنرل و جنرل سیکرٹری پنجاب منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ نو منتخب عہدیداران میں راولپنڈی سے راجہ محمد یاسین مرکزی صدر، لاہور سے عامر پاشا بٹ چیئر مین، کوئٹہ سے نور احمد بلوچ چیف آرگنائزر، ملتان سے خالد ماجد سینئر ڈپٹی نائب صدر، سیالکوٹ سے فریاد خان نائب صدر، گوجرانوالہ سے نوید اقبال سینئر ڈپٹی جوائنٹ سیکرٹری، جہلم سے ڈاکٹر فضل جوائنٹ سیکرٹری، سکھر سے نواب علی سینئر ڈپٹی چیف آرگنائزر، فیصل آباد سے چوہدری غلام رسول بندیشہ اسسٹنٹ پبلیسٹی سیکرٹری، گجرات سے میر عبدالغفار اسسٹنٹ فنانس سیکرٹری، اسلام آباد سے جارج مسیح، سیالکوٹ سے شاہد سلیم، احمد حسین لاہور GPO، شاکر حسین کوئٹہ، گلفام پبلیسٹی سیکرٹری جنرل پشاور GPO شامل ہیں۔
متعلقہ:
پاکستان پوسٹ میں PTUDC کے کامریڈز کی تاریخی فتح
محکمہ ڈاک کی زبوں حالی اورانتظامیہ کے اربوں روپے کی کرپشن کے منصوبے
محکمہ ڈاک کی نجکاری