تحریر:پارس جان
سرمایہ دارانہ معاشرے کا بنیادی حقیقی تضاد تو بلاشبہ سرمائے اور محنت کا تضاد ہی ہوتا ہے مگرمنڈی کے بحرانات، عروج و زوال کے چکر، مالیاتی زنجیریں،زائد پیداواریت اور دیگر عناصر مل کر سرمائے کے داخلی تضادات کو پروان چڑھاتے اور اسے نئی نئی شکلیں اور جہتیں عطا کرتے رہتے ہیں۔ایک عالمگیر معیشت میں ان تضادات کی پیچیدگی ان کے ناقابلِ فہم ہونے کے احساس کو جنم دیتی ہے۔عقلِ سلیم سرمائے کے ان داخلی تضادات کو بورژوا سماج کے بنیادی طبقاتی تضاد سے یکسر آزاد کر کے سمجھنے اور حل کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے اور سوائے ندامت اور خجالت کے اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔یہ ندامت اور خجالت ریاستی طاقت کی رعونت میں ضم ہو کر وحشت اور بربریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔جدلیاتی طرزِ فکر ہی ان فروعی تضادات کو بنیادی طبقاتی تضادات کے تابع کر کے ان کے مابین دوطرفہ مگر ناہموار تعلقات کو نہ صرف جانچ سکتی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر آنے والے سیاسی،سماجی اور اقتصادی واقعات کے عمومی کردار کا ایک تناظر بھی تخلیق کر سکتی ہے۔
عالمی معیشت کے حالیہ بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کی طبعی موت کا عندیہ دے دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مرتے ہوئے نظام کی نمائندہ فکر،فلسفہ اور دانش بھی علالت اور غلاظت کی دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں اور وہ سرمائے کی آمریت کو مروجہ طریقوں سے مسلط رکھنے کی تدابیر سے محروم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کبھی نہ دیکھی گئی غیر یقینی اور عدم استحکام نظر آ رہا ہے۔آزاد دنیا کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔تحفظاتی سوچ حاوی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف بڑی طاقتوں کے آپسی تضادات شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں بلکہ تمام ریاستوں کے داخلی تضادات بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں جس کی وجہ سے بوژوا سماج کا سارا تانا بانا ہی انتشار کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔اگرچہ طبقاتی تضاد کے علاوہ دیگر تمام تضادات قابلِ مصالحت ہوتے ہیں مگر بحران اور زوال کی شدت مصالحت کے ہر عمل کو سبوتاژ کر دیتی ہے۔اس کرہ ارض کے طول و عرض پر مختلف شکلوں اور مرحلوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے اور اب یہ اس وقت تک ختم ہونے والا نہیں ہے جب تک اکثریتی مگر محکوم طبقہ سارے سماج کی کایا پلٹ کر اقتدار پر براجمان نہیں ہو جاتا اور بنیادی تضاد، یعنی سرمائے اور محنت کے تضاد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کر دیتا۔
یہ ایک غیر معمولی عہد ہے۔یہ جنگوں،خانہ جنگیوں،فسادات،انقلابات اور ردِ انقلابات کا عہد ہے۔جب تک یہ طبقاتی سماج موجود ہے تب تک اس کی قیمت محکوم طبقات کو ہی چکانی پڑے گی اور نسبتاً کمزور اور پہلے سے تباہ حال معیشتوں اور ریاستوں کو مالیاتی سرمائے کی چابک کے ذریعے زیادہ قیمت چکانے پر مجبور کیا جائے گا۔یورپ جیسے جدید ترقی یافتہ معاشرے میں بھی یہ عمل واضح شکل میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں نہ صرف یورو زون بلکہ یورپی یونین ہی متزلزل نظر آ رہی ہے۔ایسی صورتحال میں پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سرمائے کی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے جبر اور درندگی کے غیر انسانی معیارات کی ضرورت پڑ رہی ہے۔افغانستان اور پاکستان بالخصوص عالمی پالیسی سازوں کے لیے جغرافیائی اوسر سٹریٹیجک بنیادوں پر بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں تو یہاں پر سارے بڑے مگر مچھ اپنی بھوک اور ہوس کی تسکین کے لیے معصوم اور نہتے انسانوں کا خون پینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو رہے ہیں۔جہاں ان کے لیے وسائل کی لوٹ مار بہت ضروری ہے وہاں اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے خلاف نفرت کسی عوامی بغاوت کو جنم نہ دے۔خاص طور پر عرب اور یورپ کے واقعات کے بعد یہ خدشات تقویت اختیار کرتے جارہے ہیں۔اس لیے حقائق کو مسخ کرنا،اجتماعی شعور کو متذبذب اور ابہام کا شکار رکھنا اور خوف وہراس کی فضا کو برقرار رکھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔اس مقصد کے لیے ریاستی ایجنسیوں سے لے کر عدلیہ اور میڈیا تک اس ناکام ریاست کے تمام اداروں کو اس کھلواڑ میں ملوث ہونا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے سارا معاشرا ایک رستے ہوئے ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔نجکاری،بیروزگاری،مہنگائی کے خلاف تحریکوں کو منظم ہونے سے پہلے ہی وموں،نسلوں،صوبائیت،فرقہ واریت اور لسانیت کے تیزاب سے جھلسا دیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی خطرہ نہ ٹلے تو بم دھماکوں،ٹارگٹ کلنگ،ڈرون حملوں اور کھلے عام دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب تاریخ کے میدان میں دیر سے آنے والی بورژوازی کے کچھ سنجیدہ لوگ کم سے کم ایک جدید قومی ریاست کی تشکیل کے خواب تو دکھا یا کرتے تھے۔ مگر اب توگزشتہ چھ عشروں میں سامراجیوں کی کاسہ لیسی،ٹیکس چوری،بدعنوانی،ریاستی اداروں کی چاپلوسی نے پاکستانی بورژوازی کو اس کے اپنے معیارات سے بھی انتہائی نیچے گرنے پر مجبور کر دیا ہے۔اسے کسی انتہائی بد شکل بوڑھے ہیجڑے سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو محض اپنی ضرورت اور لذت کے لیے اوچھے اور بھونڈے ترین ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے۔یہ ایک سیکولر معاشرہ تو نہیں بنا سکے بلکہ انہوں نے مذہب کو اپنے اقتدار کے لیے ایک ہتھیار بنا لیا اور جب چاہا لوگوں کو اس سے ذبح کر کے کبھی سعودی،امریکی اور کبھی ایرانی مفادات اور عزائم کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔یہ ایک جدید قوم تو نہیں بنا سکے مگر انہوں نے نہ صرف مظلوم قومیتوں کا معاشی استحصال جاری رکھا بلکہ خود قومی محرومی کو مشتعل کر کے اسے بھی اپنے سامراجی آقاؤں کے چرنوں میں نچھاور کر دیا۔ابھی ریاست کے مختلف دھڑے ہر جگہ پر قومی اور مذہبی تضاد کو شعوری طور پر ابھار رہے ہیں اور مڈل کلاس کے بے چین اور بیروزگار نوجوانوں کو مسلح کر کے نہ صرف اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ آنے والی طبقاتی تحریک کے قتلِ عام کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔قتل و غارتگری کے اس ماحول میں اسلحہ بیچنے اور تقسیم کرنے والوں کے منافعے بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور آبادی کی اکثریت جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔
پاکستان بلاشبہ قومیتوں کے جیل خانے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔بلوچستان میں تو پہلے ہی خون کی ہولی اتنی زیادہ کھیلی جا چکی ہے کہ اس کا نام بدل کر بلوچستان سے قبرستان رکھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔ایسے میں قومی کانفرنسیں اور مختلف پارٹیوں کی قراردادیں بلوچ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترداف ہیں۔جو ریاستی ایجنسیاں بلوچوں کے قتل اور اغوا میں ملوث ہیں،انہی کے گماشتے بلوچوں کے مسیحا بننے کی کوشش کررہے ہیں۔عدلیہ بلوچوں کی سرکشی سے خوفزدہ ہو کر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔اب سندھ اور جنوبی پنجاب میں بھی قومی بنیادوں پر نفرتوں اور تعصب کو بھی مصنوعی طور پر ہوا دینے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔جہاں 70 فیصد گھرانے غذائی قلت کا شکار ہوں وہاں مہاجر صوبے اور سندھو دیش کے ٹکراؤ کا ناٹک بیہودہ مذاق سے کم نہیں۔آبادی کی اکثریت کو اس سارے ٹوپی ڈرامے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔وہ زرد چہروں،خالی پیٹوں اور سہمی ہوئی آنکھوں سے اس ڈرامے کو دیکھ رہے ہیں اور اہم اور فیصلہ کن نتائج اخذ کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جہاں قومی استحصال کی انتہا کر دی گئی ہے وہاں قوم پرستی کا نظریاتی زوال اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔کسی زمانے میں وہ پنجاب، فوج اور سامراج کو کوسنے پیٹنے کا کم از کم ناٹک تو کیا ہی کرتے تھے مگر اب ان کی اکثریت ان سب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر بیعت کر چکی ہے اور جو باقی بچے ہیں وہ ’درست‘ فیصلے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔سندھ نیشنل فرنٹ کو مسلم لیگ نواز میں ضم کیا جا چکا ہے اور عوامی تحریک،یونائیٹڈ سندھ پارٹی اور سندھ ترقی پسند پارٹی والوں سے ’پر مغز‘ مذاکرات جاری ہیں۔اسی طرح اپنے وفادار بلوچ قوم پرستوں کے ذریعے امریکی بھی سندھ میں بھر پور مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ خطے میں جاری پراکسی جنگ میں پاکستانی ریاست کو اپنا زیادہ سے زیادہ مطیع رکھنے اور ماضی کے قول و قرار کی یا د دہانی کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔پہلے سے سندھو دیش لبریشن آرمی بنا دی گئی ہے اور حال ہی میں جئے سندھ متحدہ محاذ کے ایک لیڈر مظفر بھٹو کی لاش ملنے کے بعد ایک انتقامی کاروائی کے طور پر ایک بس میں گھس کر فائرنگ کر کے غیر سندھیوں کا قتلِ عام کیا جا چکا ہے۔یہ محض شروعات ہے اس سے پہلے بھی ریل کی پٹریوں پر چھوٹے موٹے دھماکے کیے جاتے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اور بھی متشدد کاروائیاں دیکھنے میں ملیں گی۔بشیر قریشی کے مبینہ قتل پر بھی ایک شدید عوامی ردِ عمل کو جنم دینے کی کوشش کی گئی تھی جس میں بری طرح ناکامی دیکھنے میں آئی۔غرضیکہ حکمران طبقہ مل کر انتشار اور افراتفری کی سیاست کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔مگر تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے نہ صرف قوم پرستوں کی سندھ میں حمایت بڑھنے کی بجائے گرے گی جو پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے بلکہ براہِ راست ریاستی جبر میں بھی اضافہ ہو گا۔بلوچستان کی نسل درد نسل لڑی جانے والی آزادی کی تحریک میں بھی ہر سیکھنے اور سمجھنے والے شخص کے لیے نشانیاں موجود ہیں مگر اس آدمی کو کوئی نہیں سمجھا سکتا جو سمجھنا نہ چاہتا ہو اور اسے کوئی نہیں سکھا سکتا جسے نہ سیکھنے کی تنخواہ ملتی ہو۔
سندھی قوم پرست اقتدار اور مراعات کے لیے اتاولے ہوئے جا رہے ہیں۔کبھی وہ سندھی ہاریوں سے پیپلز پارٹی کے خلاف ووٹ کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی انہیں بے غیرت کہہ کر ان کو سیاسی عمل کے لیے ہی غیر ضروری قرار دے دیتے ہیں۔ان کا یہ رویہ آج کے عہد میں قوم پرستی کے خصی پن اور رجعتی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔حکمران طبقے اور قوم پرستوں کی پیٹی بورژوا قیادتوں کے لیے قومی سوال وسائل کی ملکیت اور لوٹ مار کا سوال ہوتا ہے اور محنت کشوں کے لیے یہ روٹی اور بنیادی ضروریات کا سوال ہے۔پیپلز پارٹی نے ان سے روٹی اور روزگار کے جو وعدے کیے تھے اس کی قیادت بنیادی پروگرام سے منحرف ہو جانے کی وجہ سے انہیں پورا نہیں کر سکی اور لوٹ مار میں ملوث ہو کر عوام کی ذلتوں اور اذیتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا مگر محنت کش طبقہ مڈل کلاس اور بورژازی کے ضمیر فروش لیڈروں کی طرح بے غیرت نہیں ہوتا کہ وہ آئے روز پارٹی بدل لے بلکہ وہ اپنی روایات کو مکمل نچوڑ کر نتائج اخذ کرتا ہے اور پھر پہلے سے زیادہ لڑاکا اور جرات مند قیادتیں تراش لاتا ہے اور نئی انقلابی روایات کو جنم دیتا ہے۔ وہ روایتی قیادتوں کی غداری سے نڈھال ہو کر کم رتبہ اور گھناؤنے ملاؤں اور سیاستدانوں کا رخ نہیں کرتا بلکہ ان کے ریاستی حربوں اور غیر طبقاتی حملوں کے مقابلے میں حتی الوسع اپنی روایتی پارٹی کا دفاع کرتا ہے۔عین ممکن تھا کہ پیپلز پارٹی کے چارسالہ اقتدار میں ہونے والی لوٹ مار اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی اور غربت کی وجہ سے لوگ پیپلز پارٹی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے مگر میڈیا اور دائیں بازو کی مکروہ جعلی قیادتوں کو ابھارنے کی مصنوعی کوششوں اور ان لیڈروں کے بھیانک ماضی اور کھوکھلے نعروں سے خوفزدہ ہو کر اور کالے دھن میں ملوث ریاستی اداروں کی جعلسازیوں کے بے نقاب ہو جانے کی وجہ سے وہ پھر اپنی روایت کی خاردار آغوش میں ہی پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اس لیے فی الحال قوم پرستوں کی عوامی حمایت جزوی طور پر اوپر نیچے ہو سکتی ہے مگر وسیع عوامی بنیادیں حاصل نہیں کر سکتی۔
اقتدار اور لوٹ مار کی اس ہوسناکی کے ماحول میں سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی کی ملکیت کے سوال کو سب سے زیادہ ابھارا جا رہا ہے۔گزشتہ چار عشروں سے کراچی کے قابضان اپنے تسلط کی ڈولتی ہوئی کشتی کو دیکھ کر نئے نئے حربے استعمال کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور مخالف ریاستی دھڑے نے ان کی بھتہ خوری اور لوٹ مار میں مسلح سانجھے دار پیدا کر کے ان کو دوبارہ ملکی یا قومی دھارے کی سیاست سے دھکیل کر لسانی اور نسلی سیاست تک محدود کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے پاس بھی سوائے ریاستی اداروں کے باہمی ٹکراؤ کے نان ایشو کو اچھالنے کے کوئی دوسرا عوامی ایشو نہیں بچا تھا اس لیے جنوبی پنجاب میں لسانی بنیادوں پر صوبے کے لولی پاپ کے ذریعے وہاں کے محنت کشوں کو بہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔حالانکہ جب معاشی زوال ایک مالیاتی انہدام کی طرف بڑھ رہا ہے اور خود ملکی سالمیت اور بقا خطرے میں ہے تو ایسی سیاسی فضا میں سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے بھی اس قسم کی نعرے بازی مضحکہ خیز دکھائی دیتی ہے۔صوبے اور اضلاع بنانے کے لیے ایک صحتمند معیشت اور ترقی کرتی ہوئی صنعت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہاں معیشت کی حالت اس قریب المرگ بوڑھے مریض جیسی ہو گئی ہے جو کسی ہسپتال کے وارڈ میں بستر پر بے یارو مددگار پڑا ہو اور اس کی دیکھ بھال کرنے ولا بھی کوئی نہ ہو۔معاشی بحران پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اور مختلف پارٹیوں کے جاہل سیاست دان ہر وقت بھینس کی طرح لفظ ’صوبہ‘کی جگالی کرتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔مہاجر صوبے کے قیام کے لیے کوئی تحریک ہی موجود نہیں ہے حتیٰ کہ ایم کیو ایم بھی کھل کر اس کے لیے تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں مگر محض چاکنگ کو بنیاد بنا کر مہاجر صوبے کے خلاف ریلی نکلوائی جاتی ہے اور پھر اس پر فائرنگ کرا کر لسانی بنیادوں پر تصادم کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کراچی کی سیاست میں تمام پارٹیوں کے طرزِ عمل میں اب یہ قدر مشترک ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو پہلے کلاشنکوف کے زور پر گھر سے نکالا جاتا ہے اور پھر ان کا قتل کیا جا تا ہے۔گھر سے نہ نکلنے پر ایک گروپ مارتا ہے تو دوسرا سڑک پر آنے پر گولیاں چلاتا ہے۔15 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گرمی گھر نہیں بیٹھنے دیتی اور اندھی گولیوں کا خوف باہر نہیں نکلنے دیتا۔زندگی اس مقام پر محنت کشوں کو لا رہی ہے جہاں بغاوت واجب ہی نہیں ناگزیر بھی ہوجاتی ہے۔
صوبوں کی نعرے بازی کے پیچھے درحقیقت مفاہمت کی عوام دشمن پالیسی کے تحت اقتدار میں حصہ دار فریقین کی بندر بانٹ پر دباؤ کی پالیسی ہے اور کراچی کے زیادہ سے زیادہ حصے پر بھتے اور لوٹ مار کا تضاد ہے۔حال ہی میں لیاری آپریشن کی جعلسازی تو بے نقاب ہو ہی چکی جس میں معصوم بلوچوں کو قتل کیا گیا جبکہ جرائم پیشہ لوگوں کو مزید ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور اب ان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں لیکن دوسرے دھڑے کے دباؤ میں مذاکرات کے عمل میں کچھ لوگوں کو پھنسا کر قتل کر کے نئے سیاسی شہید پیدا کیے جا سکتے ہیں۔اسی طرح ایم کیو ایم کے بھی بہت سے ٹارگٹ کلرز گرفتار کیے گئے ہیں جن کی غیر عدالتی رہائی کے لیے ایم کیو ایم رحمان ملک کے ذریعے دباؤ بڑھا رہی ہے اور گزشتہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت نہ کر کے بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی مگر اب ایم کیو ایم بھی زیادہ سودے بازی کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی کیونکہ اس کی سالمیت اور بقا بھی موجودہ امریکہ نواز حکومتی سیٹ اپ کی بقا میں مضمر ہے۔حالیہ صورتحال میں مہاجر صوبے کے ایشو پر ایم کیو ایم کے اندربھی کھچاؤ بڑھ سکتا ہے۔عامر خان کے پارٹی میں واپس آنے پر پہلے بھی کچھ تحفظات تھے مگر اب یہ رسہ کشی شدت اختیار کر سکتی ہے۔آفاق اور ذوالفقار مرزا بھی آج کل کچھ خاموش خاموش ہیں مگر ان کو بھی نئی زبانیں اور پرانے الفاظ عطا کیے جا سکتے ہیں۔یوں کراچی میں خون اور بربریت کا یہ کھیل بڑھتا ہی چلا جائے گا۔وفاداریاں بدلتی رہیں گی۔لوگ ادھر سے ادھر ہوتے رہیں گے۔مگر اسی کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔خاص طور پر پیپلز پارٹی کے نوجوانوں میں اپنے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف شدید غم و غصہ ایک طوفانی بغاوت کو جنم دے سکتا ہے۔
ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں کی سطریں اور شہ سرخیوں سے کب تک خون ٹپکتا رہے گا؟اس خونی ڈرامے کی اور کتنی اقساط ابھی باقی ہیں؟یہ وہ سوال ہیں جو محنت کشوں اور نوجوانوں کی سہمی ہوئی آنکھوں میں بآسانی پڑھے جا سکتے ہیں۔ان تمام محرومیوں،اذیتوں اور بربادیوں کا جواب مجتمع شدہ شکل میں کسی بھی وقت سیاسی افق پر نمودار ہو سکتا ہے۔کوئی بھی واقعہ ایک بڑی تحریک کو جنم دے سکتا ہے۔لوگ شاید انتخابات تک انتظار کر بھی لیں مگر واقعات کی رفتار انہیں قبل از وقت بغاوت پر اکسا رہی ہے۔وہ روز روز یہ جنگ نہیں لڑ سکتے۔یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ زندگی اور موت کی جنگ ہے۔ماضی اور مستقبل کا معرکہ ہے۔بربریت اور سوشلزم کا ٹاکرا ہے۔ہمیں اس کے لیے متحد،مستعد اور منظم ہونا ہو گا۔ کھونے کے لیے ہمارے پاس خوف،ذلت اور زنجیریں ہی توہیں اور جیتنے کے لیئے ساری کائنات ہماری منتظر ہے۔
متعلقہ: