تحریر: عمران کامیانہ
کچھ لوگوں کو لمبے عرصے تک اور سب لوگوں کو کچھ عرصے تک تو احمق بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دھوکے اور فریب میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تاریخ کا اپنا مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔ جو کبھی دیر لگاتا ہے تو کبھی بہت جلد کام دکھا جاتا ہے۔ سماج کو بدلنے کی جدوجہد کرنے والوں کو کبھی لوگوں کے سامنے طویل اور صبر آزما وضاحتیں کرنی پڑتی ہیں۔ تضحیک اور تمسخر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب حالات و واقعات خود چیخ چیخ کر مروجہ نظام کے دیوالیہ پن کی وضاحت کرنے لگتے ہیں۔ ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’بربادی لوگوں کے اوپر چڑھ جاتی ہے‘‘ اور انہیں ازسرِ نو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ہر نظام کی ایک معروضی روش بھی ہوتی ہے۔ لیکن نظام کا بحران جوں جوں بڑھتا ہے اس کی حرکیات اسے چلانے والوں کی مرضی و منشا سے ماورا ہوتی جاتی ہیں۔ حکمرانوں کے سامنے راستے ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ جو بھی کرتے ہیں غلط ہی کرتے ہیں۔ ایک تضاد کو دبانے کی کوشش میں کئی نئے تضادات کو بھڑکا دیتے ہیں۔ اور آنے والا ہر حکمران پہلے سے زیادہ ڈھیٹ، بے شرم اور اجڈ ہوتا ہے۔ نظام کا معروضی بحران اپنا اظہار موضوعی بحران میں کرنے لگتا ہے۔ ایسی کیفیت کے شکار نظام معقولیت سے عاری ہو جاتے ہیں۔ ان کے نمائندے صرف حماقتیں ہی کر سکتے ہیں اور اپنی حماقتوں سے وہ اپنے نظام کے بحران کو تیز تر ہی کرتے ہیں۔ آج اگر عالمی سرمایہ داری کا جائزہ لیں تو یہ کیفیت کم و بیش پوری دنیا میں نظر آتی ہے۔ اور وطنِ عزیز تو گویا اِس صورتحال کی جیتی جاگتی مثال بن چکا ہے۔
آج حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ کسی جھانسے میں نہیں آتی۔ جب کسی نظام کا وقت گزر جائے تو انہیں وہی کرنا پڑتا ہے جو آج وہ کرتے پھر رہے ہیں۔ تھوڑا گہرائی میں دیکھا جائے تو ان کا قصور وہ اقدامات کرنا نہیں ہے جو کروڑوں عام لوگوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ بلکہ اپنی حالت نزاع میں زیادہ وحشی اور خونخوار ہو چکے اِس نظام کی باگ ڈور سنبھالنا ہی ان کا تاریخی جرم ہے۔ کیونکہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہی اِسی نظام کو چلانے کا تقاضا ہے جو چل پھر بھی نہیں رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کوئی حکومت اتنی جلدی زوال پذیر نہیں ہوئی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ کیسے کیسے دعوے تھے۔ کارپوریٹ مڈل کلاس کی کیسی بدتمیزی پر مبنی حمایت تھی۔ کیسی ڈھٹائی سے انہیں اِس بدحال ملک کے نادار عوام پہ مسلط کیا گیا۔ اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد اِس اَپ سٹارٹ ٹولے کی کیسی رعونت تھی۔ لیکن چند مہینے بھی نہیں گزرنے پائے کہ سارا فریب ٹوٹ کے بکھر گیا ہے۔ یہاں کے وسیع تر محنت کش عوام نے تو اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے پیدا کیے جانے والے درمیانے طبقے کے اِس بیہودہ سیاسی مظہر میں کبھی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ لیکن اس تبدیلی سرکار نے ان چند مہینوں میں جو کچھ اسی درمیانے طبقے کیساتھ کیا ہے اسے مہذب الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ کسی طبقے اور اس کی قیادت کے درمیان بڑا دلچسپ جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔ احمقوں کا ٹولہ اپنے میں سے نسبتاً سمجھدار کو اپنا رہنما کبھی نہیں بناتا۔ ان میں سے وہی مسند پر براجمان ہوتا ہے جس کی حماقت بے مثال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درمیانے طبقے کی احساسِ کمتری پر مبنی کھوکھلی خود پسندی، ڈھٹائی، منافقت اور بدلحاظی کی انتہا اگر کسی نے دیکھنی ہو تو محض اِس حکومت کے وزرا پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس کی قیادت ایک فاترالعقل انسان کر رہا ہے۔
کوئی دن نہیں گزرتا جب نودولتیوں کا یہ ٹولہ یہاں کے حکمران طبقے کی پسماندہ ثقافت اور محدود سمجھ بوجھ کے معیاروں سے بھی گری ہوئی حرکت نہ کرتا ہو۔ ہر روز کوئی نئی حماقت‘ کوئی نئی بدتمیزی ہے جو غریبوں کے زخموں پہ نمک پاشی کرتی ہے۔ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ معاشی بحران کی گھمبیرتا مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ملکی معیشت کی اوسط شرح نمو اگلے پانچ سالوں کے دوران صرف 2.5 فیصد رہے گی جو خطے میں کم ترین ہے اور عملاً معاشی سکڑاؤ کے زمرے میں آتی ہے۔ معاشی مشاورتی کونسل کے رُکن ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق محنت کی منڈی میں سالانہ 15 لاکھ نوجوانوں داخل ہو رہے ہیں جنہیں روزگار فراہم کرنے کے لئے 7 سے 8 فیصد کی شرح نمو درکار ہے۔ ان اعداد و شمار سے بیروزگاری میں اضافے کی شرح کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تیزی سے گرتے ہوئے اوپن مارکیٹ میں 148 روپے تک جا پہنچی ہے۔ جس سے رواں مالی سال کے دوران ڈالروں میں ملکی جی ڈی پی بھی 330 ارب ڈالر سے 15 فیصد کم ہو کے 280 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ ابھی روپے کی قدر میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔ پاکستانی روپیہ اِس وقت جنوبی ایشیا کی سب سے سستی کرنسی بن چکا ہے۔ ساتھ ہی بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جس سے افراطِ زر چھ سال کی بلند ترین سطح 9.41 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں 81 پیسے فی یونٹ مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گیس کی قیمت میں بھی مزید اضافے کی خبریں گردش کر رہی ہے۔ بجلی اور گیس کے استعمال کو ’سلیبوں‘ میں تقسیم کرنے کے طریقہ واردات کی وجہ سے حقیقی اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی شرح سرکاری افراطِ زر سے تقریباً دو گنا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا طوفان ہے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے جان بچانے والی پونے پانچ سو کے قریب ادویات کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے جو ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی، جن کا شمار یہاں کے چند گنے چنے سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں میں ہوتا ہے، نے صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے: ’’مجھے خدشہ ہے کہ مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ یہ اخراجات پورے کرنے کے لیے نوٹ چھاپ رہے ہیں اور جب نوٹ چھاپیں گے تو افراط زر میں اضافہ تو ہو گا… اِنہوں نے کہا تھا کہ گھر بنائیں گے، نوکریاں دیں گے۔ لیکن کیسے دیں گے؟ یہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ ہو گا کیسے… حکومت کے وزرا کو بحران کا نہ اندازہ ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے… جہاں تک باہر سے مدد اور ملین ڈالر امداد ملنے کی بات ہے تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک تو بھیک پر معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ دوسرے باہر سے جو پیسہ آتا ہے وہ ماضی میں لیے جانے والے قرضوں کو واپس کرنے میں لگ جاتا ہے۔ رات کو پیسے آتے ہیں صبح چلے جاتے ہیں اور پھر صبح ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
مہنگائی کا حل اِس حکومت نے یہ نکالا ہے کہ افراطِ زر ناپنے والے وفاقی ادارہ شماریات کو ہی بند کر دیا ہے اور اس کے تمام اختیارات و انتظامی امور وفاقی وزارتِ منصوبہ بندی کو سونپ دئیے ہیں۔ یعنی اب جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ ساتھ ہی شرح سود مزید 0.50 فیصد اضافہ کر کے 10.75 فیصد تک پہنچا دی گئی ہے (اور 14 فیصد تک جانے کا امکان ہے) جو پہلے سے سکڑتی معاشی سرگرمی کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ بیروزگاری پہلے ہی بڑھ رہی ہے۔ ریکارڈ رفتار سے قرضے لیے جا رہے ہیں۔ پچھلے آٹھ ماہ میں 3400 ارب کے قرضے لیے گئے ہیں جو یومیہ 14 ارب روپے بنتے ہیں۔ مجموعی حکومتی قرضے 27.6 ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں جس میں دیگر مدوں میں بہت سی واجب الادا رقوم (Liabilities) ابھی شامل نہیں ہیں۔ خود حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ کُل بجٹ کا 69 فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ رواں سال بجٹ خسارہ 7.2 فیصد (تقریباً 2600 ارب روپے) رہنے اور اگلے سال مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ترقیاتی اخراجات کم و بیش ختم کر دئیے گئے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں جس طرح مفت ٹیسٹوں اور ادویات کی سہولت ختم کی گئی ہے وہ غریبوں کے منظم قتلِ عام کے مترادف ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کے کہنے پر سرکاری شعبے میں مستقل نوکریاں اور پنشن یکسر ختم کرنے اور ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے 55 سال کرنے پہ ’’غور‘‘ کیا جا رہا ہے۔ ایسے اقدامات کے بارے میں تو ماضی کی جابر ترین آمریتوں نے بھی کبھی سوچا نہیں ہو گا۔ اِن کا بس نہیں چل رہا کہ محنت کشوں کو زنجیروں میں جکڑ کے بیگار میں کام لیں اور سرکاری اداروں اور زمینوں سمیت ساری ریاست کو پرائیویٹ لمیٹڈ بنا کے سرمایہ داروں کے حوالے کر دیں۔ وہ بھی بالکل مفت میں۔ لیکن مسئلہ پھر بھی حل ہونے والا نہیں۔ نہ ہو رہا ہے۔ جاری مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ٹیکس وصولی ہدف سے ریکارڈ 318 ارب روپے کم رہی ہے۔ روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی کے باوجود برآمدات میں محض تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں جس 22 فیصد کمی کی باتیں کی جا رہی ہیں اس کی وجہ درآمدات میں کمی ہے۔ اور یہ کمی بھی معیشت میں آنے والی سست روی اور روپے کی قدر میں تیز گراوٹ کی وجہ سے درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو کرنے کا یہ انتہائی جعلی طریقہ ہے جو کئی حوالوں سے نقصان دہ ہے۔ مثلاً اِس سے بیرونی قرضوں میں کھربوں روپے کا اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور درآمدی اشیا پر ڈیوٹیوں کی مد میں حکومتی آمدن میں کمی ہوئی ہے جس سے داخلی خسارہ بڑھے گا۔ تاہم ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بدستور جی ڈی پی کے پانچ فیصد یعنی 14 ارب ڈالر تک رہے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے پانچ سالوں کے دوران اوسط کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 5.4 فیصد رہے گا۔ یعنی ہر سال 15 سے 18 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ لینا پڑے گا۔ اِس وقت زرِ مبادلہ کے آٹھ نو ارب ڈالر کے ذخائر سارے مانگے تانگے کے ہیں اور حقیقی ذخائر منفی میں بنتے ہیں۔ یہاں کی سرمایہ داری کے تاریخی دیوالیہ پن کو یہی حقیقت واضح کر دیتی ہے۔ آئی ایم ایف سے عنقریب ڈیل کی خبر کسی خوشخبری کی طرح سنائی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سامراجیوں سے ڈبل گیم کرتے رہے ہیں تو وہ بھی اِن کے باپ ہیں۔ وہ اب ناک سے لکیریں نکلوا رہے ہیں۔ افغانستان میں اپنا کھیل سیدھا کر رہے ہیں‘ چین کیساتھ قربتیں بڑھانے کا حساب بھی لے رہے ہیں اور ایف اے ٹی ایف کے گن پوائنٹ پر دوسری شرائط بھی منوا رہے ہیں۔ کیونکہ ایف اے ٹی ایف سے کلیئرنس کے بغیر آئی ایم ایف قرضہ نہیں دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کالعدم تنظیموں کو نہ جانے کتنویں بار دوبارہ کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ امریکی کانگریس کے کئی اراکین پھر سے شور مچا رہے ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے سے چین کا قرضہ اتارنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ بصورت دیگر امریکہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج رکوائے۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے بھی تازہ مطالبہ کیا ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف مزید 13 فیصد بڑھایا جائے۔ جس کا سیدھا مطلب مزید مہنگائی ہے۔
معاملات یہاں سے کہاں جائیں گے؟ حالات اتنے تلخ ہیں کہ نیب کے چھاپوں، صدارتی نظام کی لایعنی بحث، حمزہ شہباز کی گرفتاری کی بھونڈی قسم کی ایکشن فلموں یا بلاول کی آنیوں جانیوں میں لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لوگوں کی توجہ منتشر کرنے میں ایسی نورا کشتیوں کی افادیت مہینوں سے کم ہو کے دِنوں اور اب شاید گھنٹوں تک رہ گئی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو مروجہ سیاست میں اِس حکومت کو کسی حقیقی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔ سب حصہ داری کی لڑائی ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اِس ناقابل برداشت مہنگائی، نجکاری اور بیروزگاری کی زہریلی گولیاں نگل لینے سے آگے حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو وہ احمقوں کی جنت کا باسی ہے یا دوسروں کو دانستہ طور پہ دھوکہ دے رہا ہے۔ دونوں طرح کے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن کہہ دینے سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ ایک معاشی دیوالیہ پن کی کیفیت ہے جسے ٹالنے کے لئے پالیسی سازوں کے پاس آپشن بہت محدود ہیں۔ حکومت یا طرزِ حکومت بدل دینے (جس کے عین امکانات موجود ہیں) سے معیشت ٹھیک نہیں ہو جائے گی۔ یہ انتظام کا نہیں نظام کا مسئلہ ہے۔ اور لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔