[تحریر: آدم پال]
عدلیہ، میڈیا اور رائج الوقت تمام سیاسی جماعتوں کی بیکار بحثوں اورسیاسی بیان بازیوں میں معیشت کی تباہی کا سفر بدستور جاری ہے۔سرمایہ دارانہ معیشت دان اور ان کے احکامات پر چلنے والے سیاسی قائد غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اکسیر مانتے ہیں گو کہ اس غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں بیروزگاری اور غربت مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری سے جہاں محنت کشوں کا استحصال بڑھتا ہے وہاں ان غیر ملکی سرمایہ داروں کے منافعوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ حکمران اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مروجہ انتہائی ظالمانہ سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں سے بھی معیشت کو چلا نہیں پا رہے۔حالیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 67فیصد کمی ہوئی ہے اور وہ گزشتہ سال اسی دورانیے میں 26.3کروڑ ڈالر سے کم ہو کر اس سال 8کروڑ 70لاکھ ڈالر رہ گئی ہے۔ دوسری جانب بہت سے شعبوں میں موجود غیر ملکی سرمایہ کاری ملک سے باہر کی جانب گئی ہے اور اس رفتار میں تیزی آ رہی ہے۔انتہائی مقبول ٹیلی کام کے شعبے سے بھی غیر ملکی سرمایہ کاری ملک سے باہر چلی گئی ہے اور مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک سے باہر جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 11کروڑ ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے۔اسی طرح غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی آ رہی ہے اور وہ 14.4ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کے ٹوکیو میں آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی جاری ہیں جہاں وہ اس ڈوبتی معیشت کو کچھ وقت کا سہارا دینے کے لیے گڑ گڑا کر بھیک مانگ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت ابھی تک 14ارب ڈالر کے قرضے لے چکی ہے۔یہ ملک اپنے جنم سے لے کر اب تک مسلسل قرضوں کی چکی میں اتنا پس چکا ہے کہ حکمران قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضہ لیتے ہیں۔ٹوکیومیں جاری حالیہ مذاکرات بھی اسی مقصد کے لیے ہیں۔اس مالی سال کے دوران پاکستان کو 2.9ارب ڈالر آئی ایم ایف کو ادا کرنا ہے جس سے زر مبادلہ کے ذخائر مزید تیزی سے کم ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے لیٹر آف کمفورٹ کی بھی بھیک مانگی جا رہی ہے جس کے بعد ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
قرضے دینے کے لیے مالیاتی اداروں کی جانب سے جو کڑی شرائط عائد کی جا رہی ہیں ان سے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔جس کے بعد نہ صرف مہنگائی کی شدت بہت زیادہ بڑھ جائے گی بلکہ بڑے پیمانے پر مزید صنعتیں بند ہوں گی اور بیروزگاری کا سیلاب بڑھتا چلا جائے گا۔قرضوں کے لیے ملک کے اہم ترین اثاثوں کو بھی عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھا جائے گا جنہیں ضرورت پڑنے پر وہ ادارے بیچ کر اپنی ڈوبی ہوئی رقم کی وصولی کر سکیں گے۔اس کے علاوہ واپڈا سمیت دیگر اہم اداروں کی بڑے پیمانے پر نجکاری کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے جس سے ہزاروں افراد بیروزگار ہوں گے۔اس دوران محنت کی منڈی میں نئے بیروزگار نوجوانوں کے لیے موجود روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مد میں انہیں 80کروڑ ڈالر کی قسط ملنے والی ہے۔لیکن یہ رقم بھی حکومت کو بہت سی شرائط ماننے کے بعد ملے گی۔ اس کے علاوہ نجی کمپنیاں حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں اور خود حکمران طبقے میں ہی ان کے تنخواہ دار ملازم بیٹھے ہیں جو اتنی بڑی رقم کو مزید مؤخر بھی کرا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ جو اہم شرط اتصلات انتظامیہ رکھے گی وہ مزید ہزاروں ملازمین کی برطرفی ہے۔پہلے ہی پی ٹی سی ایل میں جبری برطرفیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے اور ہر جگہ VSSکے بینر آویزاں ہیں۔محنت کشوں نے اپنے خون پسینے سے جن اداروں کو سینچا تھا اب انہیں سرمایہ دار اپنے منافعوں کی ہوس میں برباد کر رہے ہیں۔
حکومت کے پاس آمدن کا ایک اور اہم ذریعہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں وصول ہونے والی رقم ہے۔لیکن وہ بھی بغیر شرائط کے نہیں۔ اس کے لیے اہم ترین مطالبہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہے۔امریکی سامراج اپنی ہی تخلیق کردہ مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کر کے اسلحے کی صنعت کے منافعوں کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔جہاں بنیاد پرستوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، بینک ڈکیتیاں اور دوسرے جرائم ہیں وہاں امریکہ کا حکمران طبقہ بھی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اسلحے کے صنعتکاروں کے منافعوں کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔اس وقت امریکی سامراج کے پاس دس ہزار ڈرون ہیں جن کا سالانہ بجٹ 5ارب ڈالر ہے۔اسی طرح ڈرون کی منڈی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ڈرون بنانے والی کمپنی کے مالی مفادات کا تحفظ بھی امریکی حکمران طبقے کا اولین فرض ہے۔امریکہ میں جاری صدارتی انتخاب کی کمپئین میں دونوں امیدوار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے محافظ ہیں اور امریکہ کے محنت کش عوام کے لیے ٹیکسوں میں کمی کی کوئی پالیسی نہیں دی جا رہی۔
دوسری جانب یہاں بھی سب سے بڑا کاروبار سکیورٹی کمپنیوں کا بنتا جا رہا ہے۔اس وقت صرف کراچی میں 350سے زائد کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے تین لاکھ سے زائد ملازم ہیں۔ بڑے گدھ بھی اب اس کاروبار کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور اس میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔عالمی معیشت کے ایک سنجیدہ جریدے فنانشل ٹائمز نے اس پر رپورٹ بھی شائع کی ہے۔لیکن سکیورٹی کے کاروبار کی بڑھوتری کا واحد ذریعہ جرائم میں اضافہ ہے جس کے لیے طالبان کی آمدن میں اضافے کے لیے وارداتیں اور دیگر جرائم پیشہ جماعتوں کی طاقت میں اضافہ انتہائی مددگار ہے۔ مختصر یہ کہ دہشت گردی ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے جس میں بڑے پیمانے پر منافع اور لوٹ مار ملوث ہے۔دوسرا معاشی افراتفری اور ہیجان اس کاروبار کو مزید وسعت دیتے ہیں۔
اس تمام افرا تفری کے باوجود حکمرانوں کے اللے تللے کسی طور کم نہیں ہو رہے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔جہاں درجنوں لوگ ہر روز دہشت گردی میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں معاشی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی یا غذائی قلت کی وجہ سے قتل ہوتے ہیں وہا ں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے لیے ایک ارب 70کروڑ روپے مالیت کا ہوائی جہاز خریدا جا رہا ہے۔ عوام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں اور حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مگن ہے۔اس ظالمانہ طبقاتی تقسیم کا انت صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی کر سکتا ہے۔
آنے والے عرصے میں ایران پر امریکہ اور اسرائیل کے حملے کا بھی طبل بجایا جا رہا ہے۔یہ منصوبہ بندی امریکہ اور اسرائیل کی صیہونی ریاست کے سامراجی عزائم کی غمازی کرتی ہے جہاں وہ اپنے ممالک میں ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کو دبانے کے لیے بیرونی دشمن کا خوف مسلط کرتے ہیں۔دوسری جانب ایران کا حکمران طبقہ اپنے عوام پر جو معاشی اور سماجی مظالم ڈھا رہا ہے اس کے لیے بھی جنگ کی فضا اور امریکہ مخالف کھوکھلی نعرہ بازی محنت کش طبقے کی ابھرتی ہوئی تحریک کو دبانے کے لیے مدد گار ہوتی ہے۔لیکن اگر ا س قسم کی جنگی سرگرمی آبنائے ہرمز میں ہوتی ہے جہاں سے دنیا میں تیل کی سمندری تجارت کا 35فیصد گزرتا ہے وہاں اس حملے کی صورت میں39کلو میٹر کی پٹی کا بند ہونا حیرت انگیز نہیں ہو گا۔اس کے بعد عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا جو طوفان آئے گاوہ اپنی جگہ تباہی مچائے گا۔دوسرا پورا خطہ جو پہلے ہی جنگوں، خانہ جنگیوں اور شدیدمعاشی عدم استحکام کا شکار ہے اس میں مزید تباہ کن واقعات جنم لیں گے۔
لیکن اگر یہ حملہ نہیں ہوتا تب بھی پاکستان کی معیشت کا مستقبل انتہائی مایوس کن ہے۔شرح نمو سمیت کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہو گا اور بجٹ، تجارتی اور دیگرخساروں میں مسلسل اضافہ ہوگا۔بہت بڑی اکثریت کا معیار زندگی مزید گرے گا اور لاکھوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا جائے گا۔ آٹے کی قیمتوں میں پھر اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ تمام دوسری اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔صحت، تعلیم اور دوسرے انتہائی ضروری شعبوں کے لیے حکمرانوں کے پاس کوئی پیسے نہیں جبکہ اسلحے کی خریداری اور سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت رقم دستیاب ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے عوام کے لیے کسی بہتری کا کوئی امکان نہیں۔سوشلزم ہی ان تمام معاشی سماجی نا انصافیوں اور جنگوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔اس کے لیے محنت کش طبقے کی ایک انقلابی تحریک ہی اس ظلم اور نا انصافی پر مبنی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہے۔سوشلسٹ انقلاب ہی آج کے تمام مسائل اور دکھوں سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔
متعلقہ:
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام: بھیک کے ذریعے غربت میں کمی کا فلسفہ
پاکستانی معیشت؛ تباہی کا سفر جاری ہے
۔65 واں جشنِ آزادی : حکمران آزادی کا جبر۔۔۔ کب تلک؟
پاکستان:معاشی انہدام، سیاسی زلزلوں اور سماجی دھماکوں کی طرف گامزن