پاکستان: پر فریب معیشت میں سیاسی نورا کشتی

| تحریر: ظفراللہ |

نومبر کے دوسرے ہفتے میں عالمی بینک کی طرف سے ششماہی رپورٹ پیش کی گئی جس میں پاکستانی معیشت اور سماج کے کلیدی شعبوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ یہ رپورٹ عالمی بینک کے مختلف ادارے، بینک کے ایگزیکٹوز، سٹیک ہولڈرز اور متعلقہ ممالک کے مختلف سرکاری حکام، اداروں اور تھنک ٹینکس کے لئے مرتب کرتے ہیں۔ جس کی صحت کی حتمی ذمہ داری سے بینک اپنے آپ کو مبرا قرار دیتا ہے۔ بہر حال اس رپورٹ میں معیشت اور سماجی اعشاریوں کی جو ترتیب اور تفصیل مرتب کی گئی ہے وہ اپنے اندر بہت سے بنیادی تضادات کی حامل ہے اور اس میں بہت ساری کمزوریوں اور نزاکتوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوش آئند اور امید افزا تاثر دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معیشت 4.7 فیصد سے نمو پا رہی ہے، برآمدات بہت حد تک گر گئی ہیں جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ عالمی منڈی میں مختلف اجناس بالخصوص خوراک اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی طلب اور قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری 5.7 فیصد کی انتہا ئی کم سطح پر ہے، عالمی تجارت میں حصہ داری برآمدات کی گراوٹ کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔ بجٹ خسارہ پچھلے سال کی نسبت کم ہوگیا ہے جبکہ ٹیکس ریونیو میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر معیشت ترقی کر رہی ہے اور 2017ء اور 2018ء کیلئے معاشی شرح نموبالترتیب 5 فیصد اور 5.3 فیصد پیش گوئی کی گئی ہے۔ عالمی بینک کے بقول 7فیصد سے زیادہ کی شرح نمو طویل عرصے کے لئے درکار ہے جس سے کم ازکم نئے بے روزگاروں کے لئے کسی روزگار کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ لہٰذا نوجوانوں کے لئے مختصر مدت میں ان کی زندگیوں میں بہتری کی کوئی امید اور خوشخبری نہیں ہے۔ یہ مختلف قومی معیشتوں کے تانے بانے سے جڑی عالمی معیشت کی سست روی کا نتیجہ ہے۔ لمبے عرصے کے لئے کوئی بھی اکیلی قومی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے اور آنے والے دنوں میں ہندوستان بھی۔ تو پھر پاکستان کی معیشت کس قدر منفرد انداز میں سیدھی لکیر میں ترقی کرتی جائے گی! ہاں! ایک صورت میں کر سکتی ہے اگر اکنامکس کا ایک مفروضہ ذہن میں رکھا جائے جسے Ceteris Paribus کہتے ہیں۔ یعنی باقی تمام عوامل و عناصر کو جامد تصور کیا جائے۔ لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی فرض نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول 30 فیصد آبادی غربت سے نیچے ہے یعنی چھ کروڑ سے زائد لوگ 3030 روپے سے کم پر ماہانہ زندگی گزارتے ہیں اور GHI کی حالیہ رپورٹ تو انتہائی خوفناک منظر پیش کرتی ہے کہ پاکستان اس لسٹ میں 118 میں سے 107 ویں نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ بھوک پلتی ہے۔ پاکستان، افغانستان سے صرف دو پوائنٹ بہتر پوزیشن میں ہے جو جنگ زدہ اور کئی دہائیوں سے سامراج کی پراکسی جنگوں کی وجہ سے کھنڈر بن چکا ہے۔

سی پیک
اس رپورٹ میں معاشی گروتھ کو سی پیک (CPEC) کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور بھاری صنعت کی پیداوار میں اضافہ کو اس کی وجہ قرار دیا گیا ہے جو کہ CPEC کے شاہراتی منصوبوں اور دیگر توانائی کے منصوبوں کے آغاز کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار اتنے قابل اعتبار نہیں ہوتے کیونکہ ان اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے کے طریقے اور فارمولے کمزور اور ان کے مقاصد میں مخصوص جانبداری موجود ہوتی ہے۔ جو حکمران طبقے اور سامراجی اداروں کے اپنے طبقاتی مقاصد اور مفادات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ترقی کی اس شرح کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس شرح ترقی اور CPEC جیسے ایک عامل کی وجہ سے ترقی اتنی کمزور، لاغراور یک جہت ہوتی ہے کہ اس سے سماجی بہتری اور عوامی خوشحالی کا کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا۔
cpecگوادر بندرگاہ سے پہلی چینی برآمدات کی روانگی اور باضابطہ افتتاح کے موقع میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر یہ نوید سنائی کہ سی پیک (CPEC) سے اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کے بنیادی صنعتی وسماجی ڈھانچے یا انفراسٹرکچر کی تعمیر ایک مثبت اقدام ہوتا ہے۔ چاہے وہ شاہراہیں ہوں، بجلی کی پیداوار یا تعلیم اور علاج کی سہولیات۔ لیکن سی پیک اور ایسے دوسرے منصوبوں کے بارے میں جہاں اس حکمران طبقے کی حکومت اور اپوزیشن نے محض دعوؤں اور الزامات کا کھلواڑ بنا رکھا ہے، ایسے میں ہر عام انسان یہ سوچتا ہے کہ کیا ان کی محروم ومجبور زندگیوں کو کوئی سہولت، کوئی بہتری نصیب ہوسکے گی؟ میڈیا پر وسیع پراپیگنڈے اور چین کے بارے میں معاشرے پر مسلط تاثر سے عوام کی بیشتر پرتوں میں ایک نئی آس بھی لگ گئی ہے کہ شاید کوئی بہتری آجائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان منصوبوں سے اس معاشی نظام کے اصل فریقین یعنی چینی سرمایہ داروں، پاکستان کے حکمرانوں اور محنت کش طبقات میں سے زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟ عمومی طورپر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قومی ترقی کی شرح نمو میں اضافے سے پوری قوم ترقی کرتی ہے لیکن اس معاشی نظام کو جس شدت کا بحران لاحق ہے اس میں شرح منافع کے حصول کی ہوس اور بھی شدت اختیارکرجاتی ہے۔ پاکستان کا نظام ایسے ہی بحران سے دوچار ہے جہاں ہر سرمایہ کاری میں مقامی کمیشن ایجنٹوں کی حصہ داری کا تناسب اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اس سے ہونے والی ترقی سے عام انسانوں کی زندگیوں میں بہتری نہیں آسکتی۔
دوسری جانب اگر ہم ’دوستی‘ کے تاثر کا جائزہ لیں تو آج کے سرمایہ دارانہ چین اور پاکستان میں حکمران طبقات اپنے مفادات کے لیے ایسے معاہدے کرتے ہیں لیکن سرمایہ کاری کرنے والی اجارہ داریاں چاہے وہ چینی ہوں یا مغربی، ان کے منافعوں کا حصہ دوتہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ جہاں تک روزگار کی فراہمی کا مسئلہ ہے تو یہاں بھی جو دعوے اور ترقی کے جھانسے دئیے جارہے ہیں ان سے کہیں کم روزگار کی فراہمی ہوسکے گی۔ درمیانی اور اعلیٰ سطح کی تکنیکی ملازمتوں میں اکثریت چینی انجینئروں، تکنیک کاروں، فورمینوں اور منیجروں کی ہی ہوگی۔ سرمائے کے ساتھ چین کی دیوہیکل بے روزگار آبادی کا سیلاب بھی آئے گا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً پچھلے 15 سالوں میں تیز شرح سے محنت کشوں کی جگہ مشینوں یا ٹیکنالوجی کا استعمال ان پراجیکٹوں میں ہونا شروع ہوا ہے۔ مثلاً ایک مزدور ویلڈر کی جگہ ایک روبوٹ ویلڈرکے استعمال سے خرچہ 25 ڈالر سے کم ہو کر 2 ڈالر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح تعمیراتی اور دوسری صنعتوں میں ایسے بے پناہ کام ہیں جو ماضی قریب میں مزدوروں سے کروائے جاتے تھے جبکہ شرح منافع میں اضافے کے لئے اب روبوٹ اور دوسری ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ اس سارے عمل میں جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات اور ترقی اس نظام میں انسان کی زندگی کو سہل کرنے کی بجائے معاشی جبر کے طور پر عام انسانوں کی وسیع تر بیروزگاری کا باعث بن رہی ہے۔
پھر مسئلہ قرضے کا ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں کے متضاد بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پوری کاوشوں کے باوجود وہ یہ خفیہ رکھنے میں ناکام رہے کہ چین کے نیم سرکاری اور نجی بینکوں کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے جس شرح سود پر قرضہ حاصل کیا جارہا ہے وہ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی شرح سود سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے سے موجود بیرونی اور داخلی قرضوں کے بوجھ سے عوام کراہ رہے ہیں اس پر سی پیک کے قرضے اور ان کا سود اس بوجھ میں مزید اضافہ کر کے عام انسانوں کی معاشی زندگیوں کو مزید کس قدر تلخ بنا دے گا۔
پاکستام کے مختلف اداروں، پارٹیوں، حکومتوں اور کمپنیوں کی اس منصوبے میں دلچسپی وہ ٹھیکے ہیں جو چینی نجی ٹھیکیداری کی کمپنیاں آگے چھوٹے ٹھیکوں (Sublet) کے طور پر ان کو دیں گی۔ یہ ریاستی اور سیاسی ٹھیکیدار پھر آگے سے مزید ٹکڑے کرکے اگلے ٹھیکیداروں کو یہ دیں گے۔ اس واردات سے یہ اندزہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ زرعی شعبے میں آڑھتیوں کے کاروبار کی طرح اس تعمیرات کی ٹھیکے داری کی کتنی سطحیں اور کتنے فریق اوپر سے نیچے تک ہونگے۔ نچلوں کا منافع سب سے کم ہوگا۔ اوریہی نچلی پرتیں مزدوروں کو ٹھیکے پر بھرتی کرتی ہیں۔ پھر اس ٹھیکیداری کے تحت مزدوروں اور محنت کشوں کو کتنی اجرت حاصل ہوگی اس کا اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ دوسری جانب ان ٹھیکوں کے حصول کے لیے کتنی سطحوں پر کتنی رشوت اور کرپشن ہوگی، کتنے کمیشن چلیں گے، اس سب کی قیمت بھی آخری تجزیے میں ان مزدوروں اور عوام کو ادا کرنا پڑے گی۔
جہاں تک عمومی تجارت کا تعلق ہے تو اس راہ داری سے جہاں تھوڑا بہت ٹول ٹیکس وغیرہ حاصل ہوگا اس سے قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی مشکل ہوگی۔ لیکن دوسری جانب چین سے آنے والی ساری مصنوعات گوادر سے افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ روانہ تو نہیں ہوجائیں گی۔ ان میں سے ایسی مصنوعات بھی ہونگی جو پاکستان کی اپنی منڈی میں فروخت ہونگی۔ ا س سے یہاں کی مقامی صنعت کو جس منڈی کے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے لیے نہ ان میں مالیاتی وسائل اور نہ ہی تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔ جہاں تک بلوچستان اور دوسرے کم ترقی یافتہ صوبوں کی سیاسی مانگیں ہیں وہ اپنی جگہ ایک حق رکھتی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس منصوبے سے شاید عارضی طور پر ریاست اور نظام کو کچھ آسرا مل جائے لیکن لمبے عرصے میں تضادات شدید تر ہی ہوں گے۔ اس معاشی نظام میں پسے ہوئے عوام کے عذابوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔
مجموعی طورپرپاکستان کی تقریباً 289 ارب ڈالر کی سرکاری معیشت، حقیقت میں تقریباً 500 ارب ڈالر کی معیشت ہے جس میں رسمی معیشت کا 90 فیصد تک غیر رسمی اور بلیک اکانومی شامل ہے اور اس میں چینی منصوبے آنے والے سالوں میں کچھ اضافے کا باعث بن سکتے ہیں لیکن وہ گروتھ Jobless ہو گی۔ جس سے روزگار اور آمدنیوں میں اضافے کے کوئی خاطر خواہ امکانات نہیں ہیں۔ کیونکہ سی پیک کی بیشتر سرمایہ کاری مواصلات اور توانائی کے انفراسٹرکچر پر مشتمل ہے جو طویل المیعاد روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر سکتے۔ البتہ حکمران طبقات کے چند گروہ اور بالائی درمیانے طبقے کے کاروباری اور ٹھیکیدار اس سے بے تحاشہ فوائد اور ساتھ ہی سرکاری حکام رشوت، کمیشن اور دلالی میں اپنا اپنا حصہ بٹوریں گے۔ یہ 1978ء سے پہلے کا منصوبہ بند معیشت والا چین نہیں ہے جو ٹیکسلا ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسی بھاری صنعت قرضوں کی بجائے براہِ راست بلا سود امداد پر لگایا کرتا تھا۔ یہ ایک جارحانہ سرمایہ داری کی معیشت والا چین ہے جہاں ہر سرمایہ کاری کا حتمی اور اولین مقصد شرح منافع کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اس نظام کی سوچ کے تحت کسی محبت یا ہمدردی کے لیے ’امداد‘ نہیں دی جاتی بلکہ مادی مفادات کے لیے ہر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ آخری تجزیے میں پیسے کہیں سے بھی انویسٹ ہوں اس کی ادائیگی تو یہاں کی معیشت اور دولت سے ہونی ہے۔ اس دولت کی پیداوار کا واحد ذریعہ انسانی محنت ہے۔ اس نظام زر میں یہی انسانی محنت سب سے زیادہ خوار اور محروم ہے۔ یہ سب تعمیرات اس منافع، سود خوری اور ٹھیکیداری کی سرمایہ کاری کے بغیر بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر معیشت میں سے منافع اور نجی ملکیت کا عنصر نکال دیا جائے تو بہت کم عرصے میں آج سے کئی گنا زیادہ تعمیرات انسانی ضروریات کے تحت کی جا سکتی ہیں۔

حکمران طبقات کی لڑائیاں
جب تک معیشت ترقی کر رہی ہوتی ہے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے۔ حکمران اور درمیانہ طبقہ پیسہ بنا رہا ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے مسائل دبے ہوئے ہوتے ہیں، حکمران طبقے کے اندر مصنوعی اور عارضی یکجہتی اور ہم آہنگی موجود ہوتی ہے لیکن جونہی معیشت میں گڑ بڑ ہوتی ہے، شرح منافع گرنا شروع ہوتی ہے تو حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں اور گروہوں میں مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانے دبے ہوئے مسائل بھی سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ عالمی اور ملکی سطح پر ہم اس طرح کے تضادات کو دیکھ سکتے ہیں۔
panama-leaksسرمایہ داروں کی محنت کشوں کے خون پسینے سے کمائی گئی دولت کی لوٹ مار کی کہانیاں جب پانامہ لیکس کی زینت بنیں اور پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی، تو پاکستان میں بھی حکمرانوں کے مختلف گروہوں اور دھڑوں کے آپسی تضادات اور باہمی چپقلش اس واقعے کے بعد دوبارہ سے پھٹ پڑے۔ تحریک انصاف کے عمران خان نے روائتی ہلڑ بازی اور بڑھکوں کا مظاہرہ بھی کیا اور ایک دفعہ پھر سے آخری اور فیصلہ کن دھرنے کا اعلان کر دیا، پھر اچانک اور ڈرامائی انداز میں ریاست کے ایک ادارے ’عدلیہ ‘کی جانب سے ’’بروقت مداخلت‘‘ کے بعد دھرنے سے پہلے ’’دھرنے کی کامیابی‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے اسے مؤخر کر دیا۔ اس سارے عمل کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو عمران خان اتنا بے وقوف نہیں ہے جتنا اس کو میڈیا کی طرف سے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے رویے میں ایک آمرانہ جھلک واضح طور پر موجود ہے لیکن جہاں ایک طرف یہ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں (سول اور فوج) کے تضادات اور اختلافات میں شدت کی غمازی کرتا ہے وہاں یہ غیر اعلانیہ طور پر بالواسطہ انداز میں موجودہ حکمران ٹولے کو مضبوط کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ مختلف وقتوں میں اس غیر سنجیدہ آدمی کی طرف سے اس طرح کی حرکتیں محض اتفاق نہیں ہیں۔ عام عوام اور محنت کشوں کے ذہنوں میں پلنے والی نفرت جو بڑھ کر بغاوت اور لڑائی کی شکل اختیار کر کے آگے بڑھنے کی صلاحیت سے بھرپور ہوتی ہے، اُسے مختلف نان ایشوز کے ذریعے زائل کروانے کے ہتھکنڈے کے طور پر اس طرح کی جعلی تحریکوں کو ابھارنا حکمران طبقات کا پرانا وطیرہ بھی رہا ہے۔ اگرچہ یہ ان دھرنوں اور تحریکوں کا حتمی اور پرائم مقصد نہیں ہے لیکن اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن آخر کارحکمرانوں کے آپس کے تضادات کی پردہ پوشی اور طبقاتی برہنگی کو بچانے کے لئے عدلیہ کو ’’ثالث‘‘ کے روپ میں سامنے آنا پڑا۔ عدلیہ میں جمعہ کے روز چیف جسٹس کو بالآخر واضح کرنا پڑا کہ مضبوط اور ٹھوس ثبوت کے بغیر ہم کوئی سخت فیصلہ نہیں سنا سکتے۔ یہ بیان بذات خود جہاں ایک واضح فیصلہ ہے وہاں آنے والے دنوں میں مزید واقعات رونما ہو نے کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو حیران کن اہمیت کے حامل ہو ں گے۔

سیاسی پارٹیاں
تمام مین سٹریم سیاسی پارٹیاں ایک بات پر ہمیں متفق نظر آتی ہیں کہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھا جائے اور اسے مضبوط کیا جائے کیونکہ اسی میں سب کی بقا اور مفادات ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو اس سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کا پروگرام رکھتی ہو۔ حتیٰ کہ بائیں طرف بھی کوئی ایسی پارٹی نہیں جیسا کہ کبھی پی پی پی یہ کردار ادا کرتی تھی۔ اگرچہ سرمایہ داری نواز پارٹیاں بھی نظام کی بقا، محنت کشوں کے اس پر اعتماد کو قائم رکھنے اور اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے بائیں بازو کی نعرہ بازی کرتی ہیں لیکن پاکستان میں اس وقت ایک مکمل خلا موجود ہے جو خود اس نظام کی کمزوری کی غمازی کرتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک چلتا رہے گا یا چل رہا ہے جب تک محنت کش طبقہ سیاسی ہلچل کا آغاز نہیں کرتا۔ پی پی پی کی قیادت نے گزشتہ تیس سالوں سے اپنی بنیادی دستاویز سے انحراف کا جو آغاز کیا تھا وہ موجودہ قیادت کی بدولت اپنی انتہاؤں پر ہے۔ پارٹی قیادت میں کوئی حقیقی بائیں بازو کی شخصیت بھی اب موجود نہیں رہی۔ سابقہ اور پرانے بائیں بازو کا تاثر رکھنے والے کاسہ لیسی اور مفاد پرستی میں سرمایہ داروں اور جاگیردارو ں سے بھی دو ہاتھ آگے چلے گئے ہیں۔ طبقے کی تحریک کی عدم موجودگی ایک المیے کے طور پر سیاسی افق پر تاریخ کے انتہائی مشکل اور کٹھن عہد کی غمازی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے چہار طرف بظاہر ایک خاموشی ہے لیکن جس کے اندر ایک بے پناہ شور موجود ہے۔ محنت کش طبقے کی طرح حکمرانوں کے لئے بھی یہ عہد بہت کٹھن ہے، یہ خاموشی خود ان کے لئے بھی بہت تکلیف دہ ہے، وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ خا مو شی، کسی خوشحالی و سکون کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ بڑے بڑے دھماکوں کی گونج پوشیدہ ہے جو کسی بھی وقت اس آرڈر کو ڈس آرڈر میں تبدیل کر سکتی ہے۔ تبھی ہر پارٹی کی طرف سے جہاں موجودہ حکمران دھڑے کو حمایت حاصل ہے وہ جعلی اور مصنوعی بنیادوں پر اپوزیشن کا ڈھونگ رچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ حاکمیت کے اس نظام پر لوگوں کا بھروسہ قائم رکھا جائے۔

سول ملٹری تعلقات
پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ اب جرنیل اس ملک کے اندر باقاعدہ حکمران طبقے کے ایک حصے کے طور پر سامنے آچکے ہیں۔ پچاس سے زائد کاروباری ادارے فوج کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں جس کا معیشت کے اندر بہت بڑا حصہ ہے اس لئے ان کے مالی مفادات ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بار بار کی فوجی مداخلت محض شوق حکمرانی نہیں ہے جیسا کہ بہت سے دانشور ایسا سمجھتے ہیں بلکہ ٹھوس معاشی اور مالی مفادات و مقاصد ہیں۔ فوجی اشرافیہ کے لئے باربار براہ راست اقتدا ر سنبھالنا اور معاشرے پر اپنی اتھارٹی مسلط کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس طرح کی مسلسل مہم جوئیوں کی وجہ سے وہ سماج کے اندر ڈائنامائٹ نصب کر رہے ہوتے ہیں جہاں کسی بھی وجہ سے ان کی یہ اتھارٹی چیلنج بھی ہو سکتی ہے۔ فوج بورژوا ریاست کا سب سے اہم ادارہ ہوتی ہے جو اس ریاست کی بقاء کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ بورژوازی کبھی بھی اس کی حاکمیت اور ساکھ کو داؤ پر نہیں لگا سکتی اسی وجہ سے باربار کی مداخلت فوج کی ساکھ کو منفی انداز میں متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ براہ راست فوجی مداخلت آخری حربے کے طور پر سامنے لائی جاتی ہے جب خود اس ریاست کی بقاء و سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہولیکن فوجی اشرافیہ ان تمام معاملات سے لا تعلق بھی نہیں رہ سکتی کہ وہ اپنے آپ کو صرف بیرونی محاذ اور دفاع تک محدود رکھیں۔ در حقیقت فوجی جرنیل ہی پس پردہ اصل طاقت کا مرکز بن چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی برسر اقتدار آتے ہی انڈیا اور افغانستان کے حوالہ سے آزادانہ پالیسی کا آغاز کیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح سول ملٹری تعلقات میں کھچاؤ کا آغاز ہوا اور آخر کار نواز شریف کو خارجہ پالیسی کے مرکزی محاذوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ پرویز مشرف نے بھی اپنے حالیہ انٹرویو میں سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست اور ڈپلومیسی فوج سے سیکھیں۔ بالآخر فوج نے براہ راست اس ملک پر طویل سیاست کا تجربہ حاصل کیا ہوا ہے اس لئے فوج اپنی حدود میں کبھی بھی کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرے گی کیونکہ اس عمل میں ان کے براہ راست مفادات ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات دونوں ملکوں کی فوجوں کے لئے نا خوشگوار عمل ہے کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کی فوجوں کی بقاء، وجود اور بھاری دفاعی بجٹ اور اس کے نتیجے میں جرنیلوں کے مالی مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ، چائنہ اور افغانستان کے معاملات جرنیل، سول حکومت کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے۔ ابھی بھی سی پیک کے بیشتر معاملات فوج نے خود چینیوں کے ساتھ طے کئے اور سڑکوں کے بہت سے ٹھیکے FWO کے پاس ہیں۔
لیکن میڈیا کے لئے سول ملٹری تعلقات کی بحث نان ایشو کے طور پر ہر وقت موجود رہتی ہے۔ نواز شریف نے اس مرتبہ کافی سمجھدار اور گھاگ سیاست دان کے طور پر اقتدار سنبھالا ہے۔ اسے فوجی اشرافیہ اور ریاستی اقتدار میں ان کی حیثیت کا بخوبی علم ہے اس لئے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ خوامخواہ کی چپقلش کے ذریعے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سول ملٹری تعلقات بنیادی طور پر مختلف حکمران دھڑو ں کے باہمی تعلقات کا بیرومیٹر ہوتے ہیں۔ جس سے ہم اس ریاست کے حکمرانوں کی سمتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

طبقہ
محنت کش طبقہ آخر کار اسی سماج کا حصہ ہوتا ہے جس میں مختلف سماجی کیفیات، طبقے کی مختلف پرتوں پر مختلف انداز میں اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں۔ عام حالات میں حکمران طبقے کے خیالات، سوچیں اور رویے سماج کی غالب اکثریت پر مشتمل طبقے کی مختلف پرتوں کے لئے قابل تقلید ہوتے ہیں۔ لوگ حکمرانوں کی سوچ اور خیالات کو اپنانے پر مجبورہوتے ہیں اور حکمران طبقہ یہ کام درمیانے طبقے کے ذریعے سر انجام دیتا ہے۔ ایسے حالات میں طبقہ محض اپنے اندر ایک طبقہ ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کی نسبتاً خوشحال اور مراعات یافتہ پرتوں میں پیٹی بورژوا رجحان کے کافی اثرات ہوتے ہیں لیکن پیٹی بورژوا طبقے سے تعلق اور پیٹی بورژوا سوچ کا حامل ہونا دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ درمیانے طبقے کے لوگوں میں بھی پرولتاری سوچ، رجحان اور ثقافت موجود ہو سکتی ہے۔ کارل مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی درمیانے طبقے کے اندر پرولتاری سوچ کے حامل انقلابی تھے۔ اسی طرح محنت کش طبقے کے اندر بھی پیٹی بورژوا رجحانات موجود ہو سکتے ہیں جیسے ٹریڈ یونین اشرافیہ وغیرہ۔ رجعت اور جمود کے ادوار میں اس قسم کی کیفیتوں کا پایا جانا معمول کی بات ہے۔ آج ٹیلی کام انڈسٹری، ائیر لائنز، مواصلات غرضیکہ جدید پیداوار کے ذرائع کو چلانے والی پرتوں میں محنت کش طبقے کی نسبتاًمراعات یافتہ پرت کافی تعداد میں موجود ہے لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے، اپنی قوت محنت کی فروخت۔ جو ان تمام پرتوں کو بالآخر محنت کش طبقے کے طور پر جوڑتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اکثریتی محنت کش عموماً اپنے حالات زندگی معمول کی معاشی جدوجہد کے ذریعے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ انقلاب کو ایک تجریدی اور نا قابل عمل طریقہ سمجھتے ہیں۔ محنت کشوں کی اکثریت، ہڑتال، مظاہرے اور جلسے جلوسوں کے مشکل عمل کی نسبت انتظامیہ اور بیوروکریٹوں سے بارگین اور مصالحت کے ذریعے اپنے معاملات حل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان تمام چیزوں کے حصول اور جدوجہد کی کامیابی کے باجود سرمایہ داری کے اندر ان کی زندگیاں لمبے عرصے کے لئے سہل نہیں ہو سکتیں۔ یہی وہ سبق ہے جو ایک طویل تجربے کے بعد محنت کش طبقہ جدوجہد کے سکول سے حاصل کرتا ہے جو اسے حتمی طور پر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے انقلاب کے مشکل سفر پر گامزن کرتا ہے، طبقہ اپنے لئے طبقہ بنتا ہے اور اسے اگر انقلابی پارٹی کی رہنمائی مل جائے تو ہر رکاوٹ کو پاش پاش کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے مسائل حل کر لیتا ہے۔ آج طبقہ اپنی پہلے والی کیفیت کا شکار ہے جس میں غصہ ہے، نفرت ہے اور آسان طریقے سے مسائل حل کرنے کی خواہش ہے۔ انقلابی تنظیم طبقے کی اس شعوری کیفیت کی حدود میں رہنے کی پابند ی پر مجبور ہے۔ طبقہ جلد یا بدیر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مسائل کا حل آسان طریقوں اور راستوں پر نہیں ہے۔ تنخواہیں جتنی بڑھ جائیں، بونس جتنے مل جائیں زندگی سہل نہیں ہو سکتی۔ مستقبل کے پاکستان میں روزگار نہیں ہے، نہ ہی غربت اور محرومی میں کمی ہو گی۔ محنت کشوں کو جدوجہد کے اس مشکل سفر کی بھٹی میں تپ کر کندھن بننا ہو گا تا کہ مستقبل کی عظیم جدوجہد اور نجات کے دنوں میں سیسہ پلائی دیوار بن کر وہ انقلابی کردار ادا کر سکے جو اس کرہ ارض کے اربوں غریب اور مفلوک الحال لوگوں کا مقدر بدل سکے۔