| تحریر: لال خان |
حکمران مسلم لیگ (ن) پاکستان کے سرمایہ داروں کی نمائندہ جماعت ہے اور انہی کے مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر انتہائی جارحانہ نیو لبرل معاشی پالیسیاں لاگو کی جا رہی ہیں جس سے امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب عوام معاشی طور پر کچلے جا رہے ہیں۔ سامراجی اداروں اور معاشی درجہ بندی (ریٹنگ) کرنے والی ایجنسیوں نے پاکستان کی کسی بھی حکومت کو اتنا نہیں سراہا جتنی تعریفیں موجودہ حکومت کی ہو رہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے جولائی کی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ماضی کے پروگراموں پر کمزور ریکارڈ کے باوجود پاکستان ’اصلاحات‘ کے معیاروں پر مسلسل ترقی کر رہا ہے۔‘‘
مسلم لیگ کی حکومت آقاؤں کی اس شاباش کو معیشت کی بہتری کا ثبوت قرار دے رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امن و امان میں بہتری آ رہی ہے اور معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ لیکن اگر موڈیز کی ریٹنگ رپورٹ کو غور سے پڑھا جائے تو کچھ مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ’’انتظامیہ، فوج اور عدلیہ میں تناؤ کی وجہ سے اداروں کی فعالیت متاثر ہوئی ہے اور حالیہ’ استحکام‘ کے باوجود سیاسی واقعات کا خطرہ بدستور زیادہ ہے…قرضوں کی بلند سطح اور محصولات کے آمدن کی محدود بنیاد کی وجہ سے ان قرضوں کو لوٹانے کی زیادہ صلاحیت نہ ہونے کی بنا پر پاکستان مالیاتی طور پر بہت کمزور ہے۔ یہ کمزوری پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے دباؤ کا موجب بن رہی ہے۔ فی الوقت اس ریٹنگ کو صرف قرضوں نے ’سہارا‘ دے رکھا ہے اور اگلے برس آئی ایم ایف کے پروگرام کے خاتمے اور اسلام آباد اورواشنگٹن کے درمیان موجودہ تلخی کی وجہ سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ زرِ مبادلہ کے زخائر میں اضافے کے باوجود حکومت کے بیرونی قرضوں کا ہجم ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔‘‘ موڈیز کا یہ تجزیہ اسحاق ڈار کی من گھڑت کہانیوں کے بالکل بر عکس ہے۔
نام نہاد ’’معاشی استحکام‘‘ میکرو اکنامک اعداد و شمار تک ہی محدود ہے۔ اعداد و شمار کو اتنا توڑ موڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ وزارتِ خزانہ کو گزشتہ برس جھوٹے اعداد و شمار پیش کرنے پر آئی ایم ایف سے معافی مانگنا پڑی۔ تاہم عوام کی وسیع اکثریت جس معاشی اذیت اور سماجی خلفشار کی شکار ہے وہ تباہ کن شکل اختیار کر چکا ہے۔ ستمبر کے اوائل میں ایک چوٹی کے سرمایہ دارانہ معیشت دان نے اعتراف کیا کہ ’’پاکستان کا تجارتی خسارہ 22 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ جولائی میں ماہانہ تجارتی خسارہ 1.77 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ برس اسی ماہ کے مقابلے میں 34 فیصد زیادہ ہے۔ بر آمدات میں کمی آ رہی ہے۔ مالی سال 2015ء میں برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن 24 ارب ڈالر تھی جو حدف سے3 ارب ڈالر کم ہے۔ ٹیکسٹائل سے تعلق رکھنے والی برآمدات ،جو کل برآمدات کا 60 فیصد ہیں، میں11.79 فیصد کمی ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ سال کے آخر تک ان میں 15 فیصد تک کمی ہو جائے گی۔‘‘
تیل اور اجناس کی قیمتوں میں شدید کمی کے باوجود مجبور عوام کسی بھی طرح کے معاشی فوائد سے محروم ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے صورت میں سامراجی مالیاتی اداروں کی لوٹ مار اور مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی اشرافیہ کی منظم کرپشن بلا روک ٹوک جاری ہے۔ صحت، تعلیم کے شعبوں سمیت ریاستی ادارے نجکاری کی بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں۔ چونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت محنت کشوں اور غریبوں کی نمائندگی نہیں کر رہی،اس لیے تمام بڑی پارٹیوں کے پروگرام میں نجکاری جیسے نسخوں کو ہی ’’معاشی ترقی‘‘ کی ترکیب قرار دیا گیا ہے۔ ہر کسی نے اس انسان دشمن شیطانی منصوبے کے آگے سر جھکا دیا ہے۔ اس سے مصنوعات اور خدمات مزید مہنگی ہوں گی، ساتھ ہی بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہو رہی ہیں جس سے پہلے سے موجود بے روزگاری کا سمندر وسیع تر ہو رہا ہے، پہلے سے تباہ حال عوام ’منڈی کی قوتوں‘ کے ہاتھوں تاراج ہو رہے ہیں۔
بڑے سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کمپنیاں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کیونکہ مسلم لیگ کی حکومت نے انہیں کارپوریٹ ٹیکسوں میں بہت چھوٹ دی ہے جس سے ان کی شرح منافع بڑھ گئی ہے۔ معیشت کے باقی شعبوں کی طرح بینکوں کے طفیلی مالکان نے بے پناہ منافع کمایا ہے۔ سٹیٹ بینک کی 23 ستمبر کی رپورٹ کے مطابق، ’’مضبوط سودی اور غیر سودی آمدن کی بنیاد پر، دوسری سہ ماہی (اپریل-جون) کے دوران بینکاری کے شعبے کے منافعے میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔ اس عرصے میں بینکاری کے شعبے میں قبل از ٹیکس منافع 171 ارب روپے رہا۔ اگرچہ 2015ء کے دوران پالیسی ریٹس میں کمی بینکوں کی سودی آمدن پر اثر انداز ہو گی تاہم پالیسی ریٹس میں کمی سے قبل حاصل کیے گئے طویل مدت کے بانڈز کے وسیع زخائر او ر اے ایف ایس (AFS) نوعیت کی ایسی سکیورٹیز پر حاصل ہونے والے کیپیٹل گینز (سودی منافع) بینکاری کے نظام کی شرح منافع کو برقرار رکھیں گے۔‘‘
عمر بھر کی جمع پونجی بینکوں میں رکھ منافع پر گزر بسر کرنے والے درمیانے اور نچلے طبقے کی بیواؤں، بزرگوں اور سماج کے دیگر کمزور حصوں کی آمدن 50 فیصد سے زائد گر چکی ہے۔ گزشتہ اڑھائی برسوں میں یہ حکمران شرح سود 12 فیصد سے گھٹا کر 5.5 فیصد پر لے آئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام ’ معیشت دان‘ اور بورژوا ماہرین اس ظالمانہ اقدام کو معیشت میں بہتری کا شاندار کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن نجی قرضوں کے ذریعے یہ سستے قرضے پیداواری معیشت میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال نہیں کئے جا رہے ہیں بلکہ بڑے سرمایہ دار اس سستے سرمائے سے سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ میں سٹہ بازی کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں یہی صورتحال ہے۔ شرح سود میں کمی سرمایہ داری کی صحت مند ترقی کی بجائے اس کے عالمی بحران کی شدت کا اظہار ہے۔ بینک آف انگلینڈ کا چیف اکانومسٹ اینڈی ہالڈین واشنگٹن پوسٹ میں چھپے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’’آج شرح سود فرینکلن روزویلٹ یا نپولین یاہنری ہفتم یاچنگیز خان یا شارلمین یا جولیس سیزر یا سکندر یہاں تک کہ حمو رابی کے دور سے بھی کم ہیں۔ مالیاتی بحران کوئی نئی بات نہیں لیکن بین الاقوامی بحران نئی چیز ہے۔ اس سے پہلے عالمی بحران صرف 1930ء کی دہائی میں دیکھا گیا تھا۔ جب دنیا میں کوئی بھی مالیاتی رسک لینے پر تیار نہ ہو تو آپ برآمدات کے ذریعے بھی بحران سے باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ ان برآمدات کو خریدنے والا کوئی نہیں ہے۔ شرح سود صفرتک گر کر وہاں جم گئی ہے۔ 1930ء کی دہائی میں معاشی دلدل سے باہرنکلنے کے لیے جو محرکاتی پروگرام بروئے کار لایا گیا وہ دوسری عالمی جنگ تھی جسے کوئی بھی دہرانا نہیں چاہے گا، لیکن آج ایسا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔‘‘
درمیانے طبقے کی گرتی ہوئی قوتِ خرید نواز شریف اینڈ کمپنی کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ پیٹی بورژوازی کے بڑے حصے نواز لیگ سے تحریک انصاف کی جانب جا رہے ہیں۔ محنت کش طبقے اور غریبوں کی اذیت شدید ہوتی جا رہی ہے اور سطح کے نیچے ایک بغاوت پک رہی ہے۔ معیشت کی کمزوری کا سیاسی اظہار حکومت کی کمزوری کی شکل میں ہو رہا ہے۔ کہنے کو تو نواز شریف ملک کا ’جمہوری‘ حکمران ہے لیکن تمام فیصلے راحیل شریف کر رہا ہے۔ معاشی استحکام ایک فریب، سماجی ترقی ایک جعل سازی اورغربت میں کمی ایک دھوکہ ہے۔ بحران خلفشار بنتا جا رہا ہے اور غربت اور اذیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔ نظام میں اسے چلانے کی صلاحیت ہی نہیں رہی ہے۔ فوج کی براہ راست حکمرانی کی گنجائش بھی آج موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی عسکری اشرافیہ کو جتنی طاقت، مراعات اور منافعے آج میسر ہیں وہ براہ راست فوجی آمریت میں بھی نہیں ہو سکتے۔
حکمران طبقے کے تمام حصے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے کی بھگدڑ میں ایک دوسرے کو روندتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ وہ ایک آتش فشاں پر بیٹھے ہیں جس کے پھٹنے میں زیادہ دیر نہیں۔ ان کا میڈیا، ان کی سیاسی شعبدہ بازی حتیٰ کہ ان کے ریاستی ادارے انہیں نہیں بچا سکتے۔ یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ ایک انقلابی تبدیلی کے لیے حالات پک کر تیار ہیں بلکہ گل سڑ رہے ہیں۔ کمی صرف محنت کشوں اور نوجوانوں کے تاریخ کے میدان میں اترنے کی ہے۔ ایک مرتبہ جب وہ متحرک ہو گئے تو سرمایہ دارانہ جبر کے یہ فوجی اور جمہوری ڈھانچے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ تحریک اپنی انقلابی قیادت اور پارٹی خود تراشے گی!
یہیں سے اٹھے کا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہو گا!