| تحریر: لال خان |
وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان اپنے بیان کے ذریعے حکمرانوں کے پہلے سے نازک تعلقات کی ’ماحولیات‘ کو مزید خراب کر کے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام نے عمران خان اور طاہرالقادری کے جلسوں اور دھرنوں ذریعے ’جمہوری حکومت‘کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی سازش کی تھی۔ ریاست کے داخلی تضادات نے ایک بار پھر اپنا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کا سیاسی ماحول اس قدر بگڑ چکا ہے اور سازشی چہ مگوئیاں اس قدر شدت اختیار کر چکی ہیں کہ حکومت بننے سے پہلے ہی اس کے خاتمے کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ایسا بے سبب بھی نہیں ہے۔ معاشی بحران کی شدت اور سماجی انتشار کی حدت اتنی زیادہ ہے کہ سیاسی استحکام ناپیدا ہوتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقات جب سماجی ترقی اور انسانی زندگی میں بہتری کی بجائے بدتری کے نظام کو چلا رہے ہوں تو یہ خلفشار ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اس ملک کی ریاستی تاریخ کا طویل حصہ فوجی آمریتوں پر مبنی ہے۔ زیادہ تر فوجی مارشل لاؤں کا جواز سویلین حکومتوں کی بدعنوانی اور جمہوری حکومتوں میں بے قابو ہوتا ہوا سیاسی انتشار رہا ہے۔ لیکن فوجی آمریتوں کے مسلط ہونے کے تھوڑے عرصے بعد ان کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔ ایسے میں سویلین حکمرانوں کو مراعات دے کر اور ساتھ ملا کر آمریت کو قانونی اور سویلین لبادوں کا تحفظ فراہم کروایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر مسلم لیگ ایسی قانونی اور آئینی شیروانی ہے جسے ملک کے ہر فوجی آمر نے بوقت ضرورت زیب تن کیا ہے۔
براہ راست فوجی جبر کے خلاف مزاحمتی تحریکیں جنم لیتی ہیں، حالات جب کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں تو سویلین حکومتیں مسلط کر دی جاتی ہیں۔ واردات وہی رہتی ہے، طریقہ واردات بدل جاتا ہے۔ فوجی آمریتیں جبر کرتی ہیں لیکن ان کا سب سے گھناؤنا کردار عوام کے شعور کو پست کرنا ہوتا ہے۔ آمریت کی گھٹن میں عوام میں ’’جمہوریت‘‘ اور ’’جمہوری رہنماؤں‘‘سے متعلق خوش فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ اسی خوش فہمی کو استعمال کرتے ہوئے انقلابی تحریکوں کا رخ جمہوری رد انقلاب کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔’’ تبدیلی‘‘ کے نام پر نظام کو چلانے کا طریقہ کار بدل کر نظام کو بچایا جاتا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریاستی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں سویلین سیاسی اشرافیہ بھرپور کردار ادا کرتی ہے کیونکہ لوٹ مار کے لئے انہیں بھی یہی استحصالی ریاست درکار ہوتی ہے۔
جمہوریت آمریت کے اس گھن چکر میں مقامی حکمرانوں اور سامراجی قوتوں کی ڈاکہ زنی جاری رکھی جاتی ہے۔ غریب، غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور مٹھی بھر طبقے کی امارت بڑھتی جاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی دیوی کے چرنوں میں محنت کش عوام کی ساری جدوجہد اور قربانیوں کی بَلی چڑھا دی جاتی ہے۔ جن فوجی آمریتوں کے خلاف عوام کی نفرت کو استعمال کرکے جمہوریت کی تحریکیں چلائی جاتی ہیں انہی کے سویلین لیڈر برسر اقتدار آتے ہیں، انہی اداروں کے گن گاتے ہیں، انہی کو تمغہ جمہوریت سے نوازتے ہیں اور ایسی مراعات دیتے ہیں جو فوج کو اپنے براہ راست اقتدار میں بھی میسر نہیں ہوتیں۔ عوام کو اس کھلواڑ میں اتنی مرتبہ الجھایا گیا ہے کہ وہ حکمرانوں کی سیاست سے ہی بیزار ہو گئے ہیں۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں عوام سیاست میں سب سے کم (صرف 11 فیصد)دلچسپی لیتے ہیں۔
سماجی میں پھیلی مایوسی اور محنت کش طبقے کی پسپائی کے ایسے ادوار میں حکمران معاشی حملے اور استحصال شدید تر کر دیتے ہیں۔ ان حالات میں ’’جمہوریت‘‘ سے وہ اقدامات کروائے جاتے ہیں جن سے فوجی جرنیل بھی کتراتے ہیں۔ سماجی بے چینی جب بڑھنے لگتی ہے تو اسے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی تعصبات کے راستوں پر گامزن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بڑی انقلابی تحریک نہ ابھرے تو بھی اس متروک نظام کے تحت انتشار، عدم استحکام اور حکمرانوں کی آپسی چپقلش نے بڑھنا ہی ہے۔ سطحی تجزیوں اور اس نظام کی حدود میں جکڑی دانش ایسے میں پھر فوج سے امیدیں وابستہ کروانے لگتی ہے۔ عمومی شعور کی پستی میں ایسی امیدیں پیدا کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے، بالخصوص درمیانے طبقے میں۔ فوجی آمریتوں کے تاریخی جرائم کو یہ دانشور اس طرح بھلا دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ فوج، جس کا کام ویسے تو ’’سرحدوں‘‘ کی حفاظت بتایا جاتا ہے، ریاست اور معیشت کے ہر شعبے میں بڑھتے ہوئے کردار کے ساتھ سامنے آتی ہے،یا پھر لائی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے حکمرانوں کے یہ سیاسی بحران، بیماری کی وجہ نہیں علامات ہیں۔ ساری بات علامات پر ہوتی ہے، بیماری کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ اصل بیماری گل سڑ چکا یہ نظام معیشت ہے جس کی سیاست، ریاست اور معاشرت بھی اتنی ہی تعفن آمیز ہو چکی ہے۔ اس کے تحت سماج مسلسل تنزلی کا شکار ہے، بنیادی ترین ضروریات زندگی آبادی کی وسیع اکثریت کی پہنچ سے دور ہیں، منڈی کی اس بحران زدہ معیشت میں تعلیم سے لے کر علاج، پانی اور بجلی کو نجی شعبے کے حوالے کر کے منافع بخش اجناس میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ نیا روزگار ناپید ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، غربت اور محرومی میں دھنسے عوام کی قوت خرید مسلسل سکڑ رہی ہے۔ کیا ان پالیسیوں میں فوجی یا سویلین حکومتوں میں کبھی کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟ تعلیم اور علاج کا بجٹ جنوبی ایشیا میں بھی سب سے کم ترین سطح ہے، اس میں کس آمریت یا جمہوریت میں اضافہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے؟ کس حکومت میں اتنی جرات ہے کہ ملکی بجٹ کا نصف سے زائد چوس جانے والے سامراجی مالیاتی اداروں کے سودی گھن چکر کو توڑ سکے؟
جمہوریت آمریت کے فروعی فرق گنوانے والے بھول جاتے ہیں کہ یہاں حکمران طبقے کا ایک جال یا Nexus ہے جس میں فوجی اشرافیہ سے کر جج، بیوروکریسی، ملاں، سرمایہ دار، جاگیردار، سامراجی گماشتے، ٹھیکیدار اور لبرل سیکولر سیاستدانوں تک، سب کی آپسی شراکت داری ہے۔ ریاست کا ’امیج‘ بہتر بنانے کے لئے کبھی ایک دو افراد کی بَلی تو چڑھائی جا سکتی ہے لیکن حکمران طبقہ وہی رہتا ہے، سیاسی اقتدار کا نظام چاہے کوئی بھی ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوری ادوار میں فوج کا بجٹ مارشل لاؤں سے بھی زیادہ مختص کیا جاتا ہے۔ کون سی ایسی ’’جمہوری‘‘ حکومت ہے جو مالیاتی اور داخلی و خارجی پالیسی کے فیصلے خود کرتی ہو؟ یہاں کی سرمایہ داری مالیاتی طور پر کنگال اور تکنیکی طور پر پسماندہ ہے۔ بجلی، گیس اور ٹیکس کی چوری یہاں کے سرمایہ دار طبقے کا تاریخی کردار ہے۔ گلی محلے کا کوئی بدمعاش پولیس کی آشیر آباد کے بغیر بدمعاشی نہیں کر سکتا تو یہ سرمایہ دار طبقہ بھی اپنی ڈاکہ زنی ریاستی مشینری کے بغیر جاری نہیں رکھ سکتے۔ نچلی سطح پر تھانیداروں کا کردار اوپر جرنیل ادا کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ 68 سال سے جاری ہے۔ یہاں کی سرمایہ داری میں اتنی سکت ہی نہیں کہ کوئی با اختیار جمہوریت آسکے۔
مالیاتی اختیارات کی چپقلش ہی فوجی سویلین تنازعات کا باعث بنتی ہے۔ لیکن آج بحران اتنا بڑھ چکا ہے، مسائل اتنے سنگین اور خونریز ہو چکے ہیں کہ براہ راست فوجی آمریت کا دورانیہ بہت ہی مختصر ہو سکتا ہے۔ فوج اور عدلیہ ریاست کے حتمی ستون ہوتے ہیں۔ حکمران عام حالات میں ان کا استعمال بہت محدود رکھتے ہیں تاکہ ان کے رعب اور دبدبے کو کسی بڑی عوامی بغاوت کی صورت میں استعمال کیا جاسکے۔ لیکن پاکستان میں حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ان دونوں اداروں کا بے دریغ استعمال لمبے عرصے سے جاری ہے۔ سنجیدہ پالیسی ساز اس نازک صورتحال کو سمجھ کر ہی فوج کو اقتدار میں نہ آنے اور عدلیہ کو جوڈیشل ایکٹویزم سے پرہیز کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ لیکن ملک میں ہر وقت کسی نہ کسی ایمرجنسی کی کیفیت ہے، ریاست کے دوسرے تمام تر ادارے مفلوج ہیں لہٰذا ان دو اداروں کو ہر معاملے میں گھسیٹنا حکمرانوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ لیکن یہ عمل لمبے عرصے تک اس طرح جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
اس لاغر جمہوریت میں تمام تر فیصلے آخری تجزئیے میں فوج ہی کر رہی ہے۔ براہ راست آمریت میں عسکری اشرافیہ اس سے بڑھ کر کیا کرلے گی؟ ایسے میں فوجی آمریت کے امکانات مخدوش ہیں، کارپوریٹ میڈیا ریٹنگ کے چکر میں یہ سنسنی بہرحال پھیلاتا رہے گا۔ محنت کش طبقے کی بڑی تحریک کے امکانات بھی فی الوقت محدود سہی، موجود ضرور ہیں۔ سیاست اور ریاست جس حد تک کھوکھلی اور عوام کی نظر میں بے نقاب ہو چکی ہے اس کے پیش نظر طبقاتی جدوجہد اگر انقلابی اظہار کرتی ہے تو اسے کچلنا حکمرانوں کے بس میں نہیں ہوگا!
متعلقہ: