پاک بھارت تعلقات: مصنوعی دشمنی جعلی دوستی

| تحریر: جاوید ملک |

کرکٹ ڈپلومیسی کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی رابطے اور ’’زیارتی‘‘ دورے بھی اسی کھیل کا تسلسل ہیں جو دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ گزشتہ چھ دھائیوں سے ڈیڑھ ارب انسانون کے ساتھ کھیلتا چلا آرہا ہے۔
ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر خضاب لگے بالوں اور میک اپ سے اٹے چہروں کے ساتھ پاک بھارت تعلقات پر فرسودہ نظریات کے حامیوں کے ساتھ چیخ چیخ کر ایسے نان ایشوز پر شور مچانا ہمارے ٹی وی اینکرز کا محبوب مشغلہ ہے اور ان دنوں دونوں ملکوں کے درمیان اس حوالے سے ہونے والے پروگراموں کی ریٹنگ بہتر بتائی جارہی ہے۔

تاہم دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ان دونوں ممالک کی اشرافیہ کے ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو چند لمحوں میں ہی علم ہوجاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکمران ڈیڑھ ارب انسانوں کو گزشتہ چونسٹھ سالوں کے دوران بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا تو دور کی بات پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کر سکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے اشرافیہ کے لیے آبادی کو اگر موجود اعدادوشمار پر روک دیا جائے اور جتنے وسائل یہ غریبوں کی صحت کی مد میں کل بجٹ میں مختص کر رہے ہیں اگر وہ تمام پیسے پینے کے صاف پانی کے لیے صرف کیے جائیں تو دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیے دو سو چالیس سال درکار ہوں گے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس سلسلہ میں ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کے اندر آلودہ پانی پینے سے اٹھتر فیصد  بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اگر لوگوں کو صاف پانی مہیا کیا جائے تو ناصرف لاکھوں لوگ موت کے منہ میں جانے سے ہر سال بچ سکتے ہیں بلکہ ایک سال کے اندر آلودہ پانی کی وجہ سے بیمار ہونے والے افراد ادویات اور ڈاکٹرز کی فیسوں کی مد میں جورقم ادا کرتے ہیں وہ پاکستان کے صحت کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ سے سات گنا زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری طرف بھارت اس وقت دنیا میں اسلحہ کی خریداری پر پیسے خرچ کرنے کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے دوسری طرف دونوں ممالک کے اندر تہتر فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی سرمایہ دار مکیش امبانی نے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ممبئی میں جو قیمتی گھر تعمیر کیا ہے اسی شہر کا ہر تیسرہ ووٹر کسی نہ کسی جھونپڑ پٹی یا پھر فٹ پاتھ پر زندگی کے دن کاٹ رہا ہے دونوں ملکوں کے اندراجتماعی خودکشی کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت میں نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی غربت پل رہی ہے بلکہ بھارت میں ایک ارب انسانوں کی آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے کم ہے۔ سامراجی اجارہ داریاں جس طرح دونوں ممالک کے لوگوں کا خون چوس رہی ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دو دھائیوں میں ریکارڈ معاشی نمو کے ساتھ آمدن میں عدم مساوات دوگنی ہوگئی ہے۔ بھارت اس معاملے میں ابھرتی معیشتوں میں بدترین معیشت شمار ہونے لگا ہے۔ مہنگائی، مزدور دشمن قوانین، نجکاری، اجرتوں میں عدم اضافہ اور دیگر عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی اکثریت کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے جبکہ بھارت کے سرمایہ داروں کے پانچ سوارب ڈالر اس وقت سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے چالیس بلیک منی ہولڈر ملک کا تمام اندرونی اور بیرونی قرضہ ادا کرنے کے باوجود امیر رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پیسے کا یہ ارتکاز امیرو ں کو امیر تر تو غریبوں کو غریب تر کرتا چلا جارہا ہے۔
بھارت کے اندر گزشتہ دنوں ہونے والی دس کروڑ محنت کشوں اور ملازمین کی ہڑتال نے بھارتی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے اسی طرح پاکستان کے اندر کے ای ایس سی، واپڈا ، اساتذہ، ڈاکٹرز اور دوسرے اداروں میں ابھرنے والی تحریکیں پیپلز پارٹی اور ہر صورت اقتدار میں رہنے کی خواہش رکھنے والی دیگر سیاسی پارٹیوں کو خوفزدہ کیے ہوئے ہیں۔ معاشی طور پر برباد شدہ ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس پاک وہند کے عوام کی تقدیر بدلنے یا پھر بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پروگرام تو دور کی بات کوئی ایسا نعرہ بھی نہیں ہے جس سے عوام کو بہلایا جاسکے اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ عوام دونوں اطراف کے حکمرانوں کے اصل چہرے پہچان چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں تحریر کی گئی مفاہمت کی وہی پالیسی پاکستان میں لاگو کی گئی ہے۔ جس کا اطلاق عالمی مالیاتی اداروں نے بھارت میں کیا تھا اس مفاہمت کی پالیسی میں ہر سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کی اتحادی بھی ہے اور دشمن بھی۔ اور اپوزیشن سمیت ہر سیاسی جماعت اس لیے اقتدار کا حصہ بننا چاہتی ہے کہ صرف ریاستی اقتدار ہی ان کے سیاسی کاروبار اور لوٹ مار کے عمل کو جاری رکھتا چلا آیا ہے اور جاری رکھ سکتا ہے ایسے میں سیاسی پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرنا ان نامور قائدین کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اس مفاہمتی عمل میں زیادہ سے زیادہ پارٹیوں کو اقتدار کا حصہ اس لیے بنایا جاتا ہے تاکہ محنت کشوں کی طبقاتی تحریک کو دبا کر رکھا جاسکے مگر دونوں طرف اب ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

ایسے میں سیاستدان اور میڈیا جو تماشہ ہر شام ٹی وی سکرینوں پر شروع کرتے ہیں عوام اب اسے دیکھ دیکھ کر اوب چکے ہیں کیونکہ ننگے جسموں اور خالی پیٹوں کے ساتھ زیادہ دیر تک تماشے نہیں دیکھے جاسکتے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ 1947ء میں علیحدگی کے بعد دونوں ملکوں کی اشرافیہ صنعتی عمل میں تاخیر سے داخل ہوئی جس کی وجہ سے یہ اشرافیہ ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داروں کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کی آلہ کار بن گئی اور اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کے لیے ان کا ریاست کی ’’چھایا‘‘ حاصل کرنا لازمی امر بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار سے نکالی جانے والی جماعتیں اور ان کے لیڈر ہر صورت اور ہر قیمت پر دوبارہ اقتدار میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کی اشرافیہ ایک عوامی فلاحی ریاست تو تعمیر نہیں کر سکی بلکہ الٹا ریاست کو لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیا گیا ایسے میں ریاستی ادارے لوگوں کو روزگار علاج تعلیم تحفظ اور دیگر ضروریات فراہم کرنے کی بجائے الٹا انہیں لوٹنے لگے جس سے اداروں اور عوام کے درمیان نفرتوں پر مبنی طویل فاصلے پیدا ہوگئے عام آدمی جو عمومی حالات میں یہ سمجھتا ہے کہ ریاست چلانا سیاستدانوں کا کام ہے اپنے پسماندہ شعور کی وجہ سے ایک عرصہ تک حالات سے لاتعلق رہا مگر پھر جیسا اینگلز نے کہا تھا کہ انسانی شعور بے شک وقت کے پیچھے چلتا ہے مگر معروضی حالات انسانی شعور کی رفتار کو خاص انقلابی لمحات میں اس قدر تیز رفتار کر دیتے ہیں کہ جس قدر ایک عام آدمی دس سال میں آگہی حاصل نہیں کرتا وہی علم وہ دس منٹوں میں حاصل کر لیتا ہے۔ بھارت کے اندر بائیں بازو کی سٹالنسٹ پارٹیوں کی مرحلہ وار انقلاب کی فرسودہ فلاسفی اور غداریوں نے محنت کشوں کو بالآخر ان سے بدظن کر دیا اسی طرح پاکستان کے اندر بائیں بازو کی نمائندہ سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی جو کبھی بھی انقلابی پارٹی نہیں تھی عوام سے دور ہوتی جارہی ہے۔ دائیں بازو کی پارٹیوں کی حالت اس سے بھی پتلی ہوچکی ہے۔ حالیہ سرمایہ دارانہ بحران میں آج کوئی ایسا بھی ملک نہیں ہے جہاں ریاست ترقی کر رہی ہو، ایسے میں پاک بھارت کے حکمرانوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات ماضی کے رابطوں سے زیادہ مختلف نتیجہ سامنے نہیں لا سکیں گے کسی طرف سے چلنے والی کوئی ایک گولی اس مصنوعی امن کو چھلنی کر سکتی ہے اور امن کی یہ فلم دونوں ممالک کے اندر موجود اصل قوتوں کی وجہ سے کسی بھی وقت سینما سے اترسکتی ہے۔
درحقیقت دونوں ملکوں کے حکمران امن اس لیے قائم نہیں کر سکتے کہ دونوں طرف ظلم اور استحصال کا نظام رائج ہے اور جہاں ظلم ہوگا وہاں امن کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا جنگ کرنے کی ان میں صلاحیت نہیں ہے کیونکہ جنگیں اپنی مرضی سے شروع تو کی جاسکتی ہیں ختم نہیں اس لیے معیار زندگی کے مسئلہ کو امن اور دوستی سے الگ کرنا نہ صرف ایک فریب ہے بلکہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اس نظام زرمیں رہتے ہوئے نہ تو یہ ذلت ختم ہوسکتی ہے اور نہ محرومی، جب تک استحصال رہے گا اس وقت تک دوستی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حکمرانوں کے یہ امن اور دوستی کے دکھاوے غربت بیماری ناخواندگی اور دوسرے مسائل ختم نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی بھی اعتماد سے حکمرانی نہیں کر پاتے۔ ان کی ہر پالیسی ہر اقدام بے معنی اور جعلی ہے ،پاکستان اور ہندوستان کے عوام کا مسئلہ ڈائیلاگ اور حکمرانوں کی جعلی مفاہمت یا دشمنی نہیں۔ ان کے اصل مسئلے زندگی کی اذیت کے مسئلے ہیں دونوں ملکوں کی عوام کی دوستی کا رشتہ ان کی ذلتوں اور عذابوں سے جڑا ہے اور ان ذلتوں اور عذابوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے محنت کشوں غریبوں اور نوجوانوں کوحکمرانوں کی پیدا کردہ مصنوعی دشمنیوں اور دکھاوے کی دوستیوں سے آگے بڑھ کر ایک ایسی جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھنا ہوگی جہاں سے اس بوسیدہ سرمایہ داری نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکھاڑ پھینکا جائے ایسی فیڈریشن ہی تمام محنت کش طبقوں کے مسائل کا حل اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی محافظ ثابت ہوسکتی ہے۔

متعلقہ:

مذاکرات کے لئے مذاکرات

سانحہ گیاری؛ سیا چن محاذ

۔ 23مارچ؛ دو قومی نظریے کا دیوالیہ پن

اصل ہندوستان کی بیداری